Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی میں ثابت قدم رہے اور جنھوں نے نماز کا اہتمام رکھا اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا اس میں سے سراً اور علانیۃً خرچ کیا اور جو بدی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں، انجام کار کی کامیابی انھی کے لیے ہے۔
وَالَّذِیْنَ صَبَرُوْا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِہِّمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ سِرًّا وَّ عَلاَ نِیَۃً وَّیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ۔ (سورۃ الرعد : 22) (اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی میں ثابت قدم رہے اور جنھوں نے نماز کا اہتمام رکھا اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا اس میں سے سراً اور علانیۃً خرچ کیا اور جو بدی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں، انجام کار کی کامیابی انہی کے لیے ہے۔ ) تیسری صفت اولوالالباب کی کچھ مزید صفات بیان فرمائی جارہی ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے رب کی خوشنودی کی راہ میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں۔ صبر کا معنی ہوتا ہے، جم جانا، اڑ جانا اور استقامت دکھانا اور پابندی کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے وہ جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں قدم قدم پر ایسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے جنھیں برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کبھی تو اقتدار اپنے احتساب کی زنجیروں میں جکڑ دینا چاہتا ہے اور کبھی بگڑا ہوا معاشرہ اسے اپنے اندر سے نکال پھینکنا چاہتا ہے۔ کبھی خواہشاتِ نفس زنجیرِ پا بن جاتی ہے اور کبھی بیوی بچوں کی فرمائشیں دل خون کرنے لگتی ہیں، کبھی اس کی منصبی قوت اس کے لیے حرام ذرائع کو آسان کردیتی ہے۔ ایسی صورت میں حرام ذرائع سے بچنا اور حلال پر اکتفا کرنا بہت بڑا امتحان بن جاتا ہے۔ ایسے تمام مواقع پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی، شیطان کی پیروی سے گریز، خواہشاتِ نفس کی اطاعت سے انکار کرنے کے لیے صبر کی بہت بڑی قوت درکار ہوتی ہے۔ استقامت کا ایسا جوہر جو ان تمام محرکات کے سامنے دیوار بن کر حائل ہوجائے اللہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے اپنے ایمان و عمل سے ہر ہر قدم پر یہ ثابت کردیتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں۔ نفس کے بہلاوے ہمارے صبر کو شکست نہیں دے سکتے۔ برو ایں دام بر مرغ دگر نہِ کہ عنقارا بلند است آشیانہ چوتھی صفت مزید یہ بھی فرمایا گیا کہ ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب نماز پڑھتے ہیں تو فرائض، واجبات، سنن اور آداب کی پابندی کرتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اصحابِ اقتدار میں سے ہیں تو وہ اپنے دائرہ اقتدار میں احکامِ صلٰوۃ کا نفاذ کرتے ہیں۔ مسجدیں تعمیر ہوتی ہیں، آئمہ اور مؤذنوں کا تقرر ہوتا ہے، مساجد دین کے مراکز میں تبدیل ہوجاتی ہیں، ان کی دیکھ بھائی اور حفاظت کے لیے، مناسب عملہ مقرر ہوتا ہے، اپنے دائرہ اختیار میں ترک نماز جرم قرار دیا جاتا ہے، مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نماز دراصل تذکیر بھی ہے اور عہدوفا کی تعمیر بھی۔ اس کی پابندی جس طرح اللہ تعالیٰ کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی ہے اسی طرح بعض دیگر مکارمِ اخلاق کی تعمیر کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ پانچویں صفت ان برگزیدہ لوگوں میں مزید ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے سراً و علانیۃً دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موقع چھپا کے دینے کا ہو یا کھلے عام دینے کا ان کا ہاتھ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ” سراً “ سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ صدقاتِ نافلہ کی ادائیگی ہے اور ” علانۃً “ سے مراد زکوٰۃ ہے کیونکہ اموالِ ظاہرہ میں سے زکوٰۃ سب کے سامنے ادا ہونی چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی زکوٰۃ ادا کرنے کی طرف رغبت ہو اور انھیں اپنے فرض کا احساس ہوسکے، لیکن اموالِ باطنہ میں سے عطیات دیتے ہوئے عزت نفس کی پاسداری ضروری ہے اور وہ ہمیشہ اس کا لحاظ کرتے ہیں کہ کسی کی مدد کرتے ہوئے نہ اس کی عزت نفس پر چوٹ پڑے اور نہ اس کی حیثیت عرفی مجروح ہو۔ چھٹی صفت مزید ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اس کو نیکی اور بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ وہ شرکا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ وہ ظلم کے مقابلے میں ظلم نہیں انصاف کرتے ہیں۔ دوسرے ان کے خلاف اگر جھوٹ بولیں تو وہ تب بھی اپنے سچ پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ وہ خیانت کے مقابلے میں دیانت کا بول بالا کرتے ہیں۔ وہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی صحیح پیروی کرتے ہیں۔ لا تکونوا امعۃ تقولون ان احسن الناس احسنا و اِن ظلمونا ظلمنا۔ ولٰـکن وطّنوا انفسکم، ان احسن الناس ان تحسنوا وان اساؤا فلا تظلموا تم اپنے طرز عمل کو لوگوں کے طرز عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بنائو۔ اگر لوگ نیکی کریں تو تم نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ جن لوگوں میں یہ صفات پائی جاتی ہیں وہ اس قابل ہیں کہ انھیں آخرت کی راحتیں نصیب ہوں۔ آیت کریمہ میں عقبیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا لغوی معنی ہوتا ہے، پیچھے آنا۔ کیونکہ ہر فعل کی جزاء اس کے پیچھے آتی ہے۔ اَعْقَبَہ کا معنی ہے جازاہ۔ اگر جزاء اچھی ہو تو اس کے لیے العقبۃ، العقبیٰ ، العاقبہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اگر جزاء بری ہو تو اس کے لیے العقوبۃ، المعاقبۃ اور العقاب کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
Top