Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 18
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اِ۟شْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ١ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَرَمَادِ : راکھ کی طرح اشْتَدَّتْ : زور کی چلی بِهِ : اس پر الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں يَوْمٍ : دن عَاصِفٍ : آندھی والا لَا يَقْدِرُوْنَ : انہیں قدرت نہ ہوگی مِمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الضَّلٰلُ : گمراہی الْبَعِيْدُ : دور
جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ آندھی کے دن اس پر زور کی ہوا چلے (اور) اسے اڑا لے جائے (اس طرح) جو کام وہ کرتے رہے ان پر ان کو کچھ دسترس نہ ہوگی۔ یہی تو پرلے سرے کی گمراہی ہے
مثل الذین کفروا بربھم جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ‘ کیا ان کی تعجب آفرین حالت ایسی ہے ؟ مِثَلُ سے مراد ہے : ایسی صفت جس میں ندرت ہو۔ اعمالھم کرماد اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف (یعنی) ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے کچھ راکھ جس کو تیز آندھی کے دن ہوا تیزی کے ساتھ اڑا لے جائے۔ عصوف ہوا کا تیز چلنا (عاصف تیز چلنے والی ہوا) دن کو عاصف بطور مبالغہ قرار دیا گیا ‘ جیسے نہارہ صائم اور لیلہ نائم کہا جاتا ہے (آدمی دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات کو سوتا ہے۔ دن کو روزہ دار اور رات کو سونے والا ‘ بطور مجاز کہا جاتا ہے) اعمال سے مراد ہیں : کافروں کی وہ خود تراشیدہ نیکیاں جن کے ثواب کے وہ امیدوار تھے ‘ جیسے (ان کی مفروضہ) خیرات ‘ کنبہ پروری ‘ اعانت فقراء ‘ آزادی غلاماں وغیرہ۔ ان تمام کارہائے خیر کی بنیاد چونکہ خدا شناسی نہ تھی اور ان سے اللہ کی خوشنودی مطلوب نہیں تھی۔ یا بتوں کے نام پر یہ نیکیاں کی جاتی تھیں جو ان کے کسی عمل اور عبادت سے واقف نہ تھے اور نہ بدلہ دینے کی ان میں طاقت تھی ‘ اسلئے اللہ نے ایسی خوش اعمالیوں کو آندھی کی خاک سے تشبیہ دی جس کو آندھی اڑا کرلے جاتی ہے۔ لا یقدرون مما کسبوا علی شیء انہوں نے (دنیا میں) جو کچھ کیا ہوگا (قیامت کے دن) اس کے کسی حصہ پر قادر نہ ہوں گے۔ یعنی کسی عمل کا کوئی ثواب نہ پائیں گے ‘ نام و نشان بھی کسی نیکی کا ان کو نظر نہ آئے گا۔ اس تشبیہ کا خلاصہ یہی ہے۔ ذلک یہ یعنی نیکی سمجھ کر کسی کام کو کرنا اور پھر اس کی نیکی کا برباد ہوجانا اور نیکی کا گمراہی پر مبنی ہونا،۔ ھو الضلل البعید (پرلے درجہ کی) حق سے بہت دور کی گمراہی ہے۔ بدکاریوں کا گمراہی ہونا تو درکنار ‘ ان کی تو نیکیاں بھی گمراہی ہیں۔
Top