Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 3
اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْكٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِۙ
اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو کہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور وَيْلٌ : خرابی لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب شَدِيْدِ : شخت
جو آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرتے اور (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ پرلے سرے کی گمراہی میں ہیں
الذین یستحبون الحیوۃ الدنیا علی الاخرۃ ویصدون عن سبیل اللہ جو دنیوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں۔ استحباب پسند کرنا ‘ اختیار کرنا ‘ کسی چیز کو اپنا محبوب قرار دے لینا۔ دنیوی زندگی سے مراد ہے : دنیا کی لذتیں۔ اللہ کے راستہ پر چلنے سے روکنے کے مطلب ہے : اللہ کے پیغمبر کے اتباع سے روکنا۔ ویبغونھا عوجا اور اللہ کے راستہ میں کجی کو ڈھونڈتے ہیں ‘ یعنی عیب چینی اور ۔۔ خوردہ گیری کیلئے دین میں کجی ڈھونڈتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ حق سے مڑ کر اور اپنا رخ موڑ کر اللہ کی راہ کے طلبگار ہوتے ہیں حالانکہ ایسا ممکن نہیں (کہ حق سے منہ موڑ کر اللہ کا راستہ مل جائے) ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ راہ خدا سے منہ موڑ کر دنیا کے طلبگار ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ حرام مال چاہتے ہیں۔ اولئک فی ضلل لعبید ایسے لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں ‘ یعنی ایسی گمراہی میں ہیں جو حق سے دور ہے۔ حق سے دور ہونا حقیقت میں گمراہ کا وصف ہے لیکن بطور مبالغہ کے گمراہی کی صفت قرار دے دیا گیا۔
Top