Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا
یوم تانی کل نفس تجادل عن نفسھا وتوفی کل نفس مما عملت وھم یظلمون جس روز ہر شخص اپنی ہی طرفداری میں بات کرے گا اور ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یَوْمَ کا تعلق رحیمٌ سے ہے ‘ یعنی اس روز اللہ تم پر مہربان ہوگا جس روز ‘ یا اُذْکُرْ محذوف سے تعلق ہے ‘ یعنی یاد کرو اس دن کو جس دن ..... تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا یعنی ہر شخص کو اپنی ہی پڑی ہوگی ‘ ہر شخص کو اپنے ہی بچاؤ کی فکر اور کوشش ہوگی ‘ دوسرے کا خیال بھی نہ ہوگا۔ کافر کہے گا : اے ہمارے مالک ! انہوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ‘ اے ہمارے مالک ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا۔ ہم اپنے رب کی قسم کھا کر کہتے ہیں جو معبود برحق ہے کہ ہم (خود) مشرک نہیں تھے۔ ہم کو دوبارہ دنیا میں لوٹا دے ‘ ہم نیک عمل کریں گے۔ مؤمن کہے گا : اے رب ! میں تجھ سے اپنی جان کی امان مانگتا ہوں ‘ مجھے کافر لوگوں کے ساتھ شامل نہ کردینا۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت معاذ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا : قیامت کے دن جہنم کو کہاں سے لایا جائے گا ؟ فرمایا : ” ساتویں زمین سے لایا جائے گا۔ اس کی ایک ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے پکڑ کر کھینچتے ہوں گے۔ جب دوزخ انسانوں سے ایک ہزار سال کی مسافت پر رہ جائے گی تو ایک سانس کھینچے گی جس کی وجہ سے ہر مقرب فرشتہ اور ہر نبی مرسل دو زانو بیٹھ کر عرض کرے گا : اے میرے مالک ! میری جان (بچا دے) ۔ “ بغوی نے لکھا ہے : حضرت عمر بن خطاب نے کعب احبار سے فرمایا : (کچھ آخرت کا تذکرہ کر کے) ہمارے اندر (ا اللہ کا) خوف پیدا کر دو ۔ کعب احبار نے عرض کیا : امیر المؤمنین ! اگر ستّر پیغمبروں کے برابر عمل کر کے آپ قیامت کا دن پائیں گے تب بھی قیامت آپ پر بار بار ایسے حالات لائے گی کہ اس وقت آپ کو اپنی جان کے علاوہ کسی دوسرے کا خیال ہی نہیں رہے گا۔ جہنم ایک ایسا دم کھینچے گی کہ ہر مقرب فرشتہ اور ہر برگزیدہ نبی دو زانو بیٹھ جائے گا ‘ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم بھی کہہ اٹھیں گے : میں تجھ سے صرف اپنی جان کی امان مانگتا ہوں۔ اس کی تصدیق اللہ کی بھیجی ہوئی آیت میں موجود ہے۔ ارشاد فرمایا ہے : یَوْمَ تَأتِیْ کُلُّ نَفْسِ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا۔ عکرمہ نے اس آیت کے ذیل میں حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں میں باہم جھگڑا برابر ہوتا رہے گا یہاں تک کہ روح اور بدن میں بھی باہم جھگڑا ہوگا۔ روح کہے گی : اے میرے رب ! نہ میرے ہاتھ تھے جن سے میں پکڑتی ‘ نہ میرے پاؤں تھے جن سے میں چلتی ‘ نہ میری آنکھ تھی کہ میں دیکھتی (جو کچھ بداعمالی ہے ‘ وہ اس بدن کی ہے) بدن کہے گا : تو نے مجھے لکڑی کی طرح (بےحس ‘ بےشعور ‘ بےجان) پیدا کیا تھا۔ میرے ہاتھ نہ تھے کہ میں پکڑتا ‘ میرے پاؤں نہ تھے کہ میں ان سے چلتا ‘ نہ میری آنکھیں تھیں کہ میں ان سے دیکھتا۔ جب یہ میرے اندر نور کی شعاع کی طرح آگئی تو میری زبان بولنے لگی ‘ میری آنکھ بینا ہوگئی اور میرے پاؤں رواں ہوگئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ نے روح اور جسم کو اس طرح بنایا ہے جیسے ایک اندھا اور ایک اپاہج کسی کے باغ میں پہنچ گئے ‘ باغ میں درختوں پر پھل لگے ہوئے تھے۔ اندھا تو پھلوں کو دیکھ ہی نہ سکتا تھا اور اپاہج (دیکھتا تو تھا) پھلوں تک پہنچ نہ سکتا تھا۔ آخر اندھے نے اپاہج کو اپنے اوپر سوار کرلیا ‘ اس طرح دونوں نے پھل حاصل کر لئے (اور دونوں چوری کے مجرم قرار پائے) روح اور بدن بھی دونوں اسی طرح عذاب میں پکڑے جائیں گے۔ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا میں نفسٍ سے مراد ذات ہے۔ عین شیءٍ اور ذات شیءٍ کو نفس شیءٍ کہا جاتا ہے اور جو عین اور ذات نہ ہو ‘ اس کو غیر کہتے ہیں۔ یعنی ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے دفاع کرے گا۔ لاَ یُظْلَمُوْنَ کا یہ مطلب ہے کہ کسی کا ثواب کم نہیں کیا جائے گا ‘ کسی کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔
Top