Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 83
یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْكِرُوْنَهَا وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ ثُمَّ : پھر يُنْكِرُوْنَهَا : منکر ہوجاتے ہیں اسکے وَاَكْثَرُهُمُ : اور ان کے اکثر الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) ناشکرے
یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں۔ مگر (واقف ہو کر) اُن سے انکار کرتے ہیں اور یہ اکثر ناشکرے ہیں
یعرفون نعمت اللہ ثم ینکرونھا و اکثر ھم الکفرون یہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے تو ہیں ‘ پھر اَن جان ہوجاتے ہیں (منکر ہوجاتے ہیں) اور ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں۔ یعنی اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر ان کا اقرار کرتے ہیں اور ان کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ جانتے ہیں ‘ پھر اللہ کی خالص عبادت سے روگرداں ہوجاتے ہیں ‘ اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو منعم سمجھتے ہیں ‘ اللہ کو منعم نہیں سمجھتے۔ یا اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی منعم جانتے ہیں۔ یہ حقیقت میں اللہ کی نعمت کا انکار ہے۔ مترجم) سدی کے نزدیک اللہ کی نعمت سے رسول اللہ ﷺ کی نبوت مراد ہے ‘ یعنی وہ نبوت محمدیہ ﷺ کو معجزات کے سبب جانتے پہچانتے ہیں ‘ پھر محض ضد وعناد سے ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ ایک شبہ جس کا وہم کیا جاسکتا تھا مشرک تو پہلے ہی سے منکر تھے اور ثُمَّ یُنْکُرُوْنَ میں ثُمَّ کا لفظ بتارہا ہے کہ اعتراف و اقرار کے بعد وہ منکر ہوئے ‘ حالانکہ ایسا نہ تھا۔ ازالۂ شبہ ثُمَّ بُعد زمان کو ظاہر کرتا ہے ‘ لیکن کبھی بعد مرتبہ کیلئے بھی آتا ہے۔ پہچان لینے کے بعد انکار کرنا عقل سے بہت بعید تھا ‘ اسلئے ثُمَّ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مجاہد و قتادہ نے کہا : اللہ نے اس سورت میں جن نعمتوں کی تفصیل کی ہے ‘ کافر ان کو پہچانتے تھے۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ اس بات کی تصدیق بھی کرو ‘ ان نعمتوں کو خداداد تسلیم کر کے اللہ کے احکام کی تعمیل کرو تو اس کا انکار کرنے لگے اور کہنے لگے : ہم کو تو یہ نعمتیں باپ دادا سے وراثت میں ملی ہیں۔ کلبی نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا : ہاں ‘ یہ نعمتیں اللہ ہی نے دی ہیں لیکن ہمارے معبودوں کی سفارش سے ملی ہیں۔ عون بن عبد اللہ نے کہا : نعمتوں کے انکار کا مطلب ہے : ظاہری اسباب کی طرف نعمتوں کی حقیقی نسبت کردینا۔ مثلاً کوئی کہتا ہے : اگر فلاں بات ہوتی (یا فلاں شخص ‘ یا فلاں تدبیر ہوتی) تو یہ کام ہوجاتا ‘ یا یہ کام نہ ہونے پاتا (یہ الفاظ بظاہر مشرکانہ ہیں جن کی ممانعت ہے۔ مترجم) اکثر ناشکرے ہیں ‘ نعمتوں کے اعتراف کے بعد محض ضد وعناد سے انکار کرتے ہیں۔ اکثر سے مراد یا تو کل کافر ہیں یا اکثر ہی مراد ہیں۔ بعض ناقص العقل ہیں ‘ اسلئے حق کو پہچانتے ہی نہیں ‘ یا کوتاہ نظر ہیں غور نہیں کرتے ‘ یا مکلف ہی نہیں ہیں (نابالغ یا مجنون ہیں) اسلئے ان پر کوئی حجت ہی قائم نہیں ہوئی۔ بہرحال بعض لوگ ناسپاس نہیں ہیں ‘ حکم مذکور سے مستثنیٰ ہیں۔
Top