Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بہ صورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا
وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ : اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار کر کے رکھا ہے۔ یعنی انسان کا عمل اور مقدر انسان کے ساتھ رہتا ہے انسان جہاں کہیں ہو امر مقدر اس سے جدا نہیں ہوسکتا۔ (حضرت ابن عباس ؓ کلبی اور مقاتل نے کہا نیکی ہو یا بدی اچھائی ہو یا برائی انسان کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ اس سے ہر خیر و شر کی حساب فہمی ہوگی۔ حسن نے کہا طائر سے مراد ہے برکت و نحوست۔ اہل حقیقت کہتے ہیں طائر وہ امر تقدیری ہے جس کا فیصلہ کردیا گیا ہے کہ آدمی وہ ضرور کرے گا اور اس کا نتیجہ ضرور حاصل کرے گا۔ خواہ خوش نصیبی ہو یا بدبختی۔ جانور پرندہ ہو یا چرندہ عرب اس کے نکلنے سے اچھا برا شگون لیتے تھے ‘ اگر شکاری کے بائیں ہاتھ کی طرف سے شکار نکل کر دائیں ہاتھ کی طرف آئے تو اس کو اچھا سمجھتے تھے کیوں کہ بغیر مڑنے اور گھومنے کے شکاری اس کو شکار کرسکتا تھا اور اگر دائیں ہاتھ کی طرف سے بائیں ہاتھ کی جانب شکار آجائے تو اس کو برا سمجھتے تھے کیونکہ اس صورت میں بغیر گھومے شکاری تیر نہیں مار سکتا تھا۔ نہایہ۔ (یہ اچھائی برائی تو شکار اور شکاری سے تعلق رکھتی تھی لیکن اس کے بعد عرب اس سے عام شگون لینے لگے بائیں جانب سے جانور نکل کر جائے تو نیک فال سمجھتے تھے اور دائیں جانب سے نکلے تو برا شگون جانتے تھے۔ مترجم) ابو عبیدہ اور قتیبی نے کہا طائر سے اس جگہ نصیب مراد ہے اچھا ہو یا برا عرب بولتے ہیں طارَسَہُم فُلان ہکذا۔ اسی محاورہ سے لفظ طائر بمعنی نصیب ماخوذ ہے۔ تمام اعضاء میں گلا ایسا عضو ہے کہ اس میں پڑے ہوئے ہار یا طوق سے آدمی کی زینت یا بدنمائی کا خصوصی تعلق ہے ‘ عرب اسی وجہ سے جدا نہ ہونے والی چیزوں کے متعلق کہتے ہیں یہ چیز فلاں شخص کے گلے میں پڑگئی یعنی لازم ہوگئی اس سے جدا نہیں ہوتی۔ مجاہد نے کہا جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے گلے میں ایک پرچہ پڑا ہوتا ہے جس میں سعید یا شقی لکھا ہوتا ہے۔ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا : اور اس کے لئے ہم قیامت کے دن ایک صحیفہ نکالیں گے۔ کتاب سے مراد ہے۔ اعمالنامہ۔ يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا : جو اس کو کھلا ہوا ملے گا۔ بغوی نے لکھا ہے۔ آثار (یعنی اقوال صحابہ) میں آیا ہے کہ جب آدمی کی عمر پوری ہوجاتی ہے تو اللہ فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس آدمی کا اعمالنامہ روز قیامت سے پہلے نہیں کھولا جائے گا۔
Top