Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 61
یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ١ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں میں سے وَيُؤَخِّرْكُمْ : اور مہلت دے گا تم کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت تک اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت اِذَا جَآءَ : جب آجاتا ہے لَا يُؤَخَّرُ : تو ڈھیل نہیں دی جاتی۔ تاخیر نہیں کی جاتی لَوْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے
(یعنی) بہشت جاودانی (میں) جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے (اور جو ان کی آنکھوں سے) پوشیدہ (ہے) ۔ بےشک اس کا وعدہ (نیکوکاروں کے سامنے) آنے والا ہے
جنت عدن التی وعد الرحمن عبادہ بالغیب (اور) ہمیشہ رہنے کے باغوں میں جن کا رحمن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ کیا ہے (رہیں گے) عَدْن یا مصدر ہے بمعنی قیام یا ایک جنت یا جنت کی زمین کا نام ہے بالغیب ان لوگوں کے لئے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے جو جنت سے غائب اور اس کو نہ دیکھنے کی حالت میں بھی اللہ کی بندگی کرنے والے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ غیب پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کی وجہ سے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ اوّل مطلب پر بالغیب کا تعلق متلبسین محذوف سے ہوگا اور دوسرے مطلب پر وعد سے۔ انہ کان وعدہ ماتیا۔ بیشک اللہ کی وعدہ کی ہوئی چیز کو وہ ضرور پہنچیں گے۔ مَاتِیًّا (اسم ظرف) یعنی اہل جنت جنت میں ضرور داخل ہوں گے۔ یا ماتِیًّا اسم مفعول بمعنی اسم فاعل ہے یعنی اللہ کا وعدہ ضرور آنے والا ہے ‘ دونوں مضمونوں میں کوئی فرق نہیں ‘ عربی محاورہ میں بولا جاتا ہے مجھ پر پچاس سال گزر گئے۔ میں پچاس سال پر گزر گیا ‘ دونوں ہم معنی ہیں۔
Top