Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں
الم تر انا ارسلنا الشیطین علی الکفرین توزہم ازا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو کفار پر (ابتلاءً ) چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو خوب ابھارتے ہیں۔ سوال انکاری ہے اور نفی کا انکار اثبات ہوتا ہے یعنی شیطانوں کو ہم نے کافروں پر مسلط کر رکھا ہے ‘ بغوی نے لکھا ہے اس سے اشارہ اس قول کی طرف ہے جس میں اللہ نے ابلیس سے فرمایا تھا واسْتَفْزِزَّ مَنِ اسْتَطَعْتِ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ یا ارسلنا سے مراد ہے آزاد چھوڑ دینا ‘ یعنی ہم نے شیطانوں کو اور ان کافروں کو باہم تعلق قائم کرنے میں آزاد چھوڑ دیا ہے اَرْسَلْتُ الْبَعِیْرُمیں نے اونٹ کو کھول دیا ‘ آزاد چھوڑ دیا۔ اَزَّابھارنا ‘ برانگیختہ کرنا ‘ جھوٹے فریب دے کر گناہوں پر آمادہ کرنا اور بہکا کر خواہشات کے پیچھے لگا دینا۔ سوال انکاری کے ساتھ جملہ کو شروع کرنے سے مقصود ہے رسول اللہ ﷺ : کو تعجب دلانا کافروں کے اقوال پر اور باوجود ظہور حق کے کفر و گمراہی میں اندھے رہنے پر۔
Top