Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 24
قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبُّ السَّمٰوٰتِ : رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا بَيْنَهُمَا : اور جو ان کے درمیان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
کہا کہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب کا مالک۔ بشرطیکہ تم لوگوں کو یقین ہو
قال رب السموت والارض وما بینہما ان کنتم موقنین۔ موسیٰ نے کہا وہ آسمانوں کا اور زمین اور ان کے درمیانی کائنات کا رب ہے اگر (ان آثار قدرت و حکمت کے ذریعہ سے) تم اس کو ماننے والے ہو (تو ایمان لے آؤ اور مان لو) یعنی اگر حقائق اشیاء کے وجود کو مانتے ہو تو پھر ان مصنوعات و مخلوقات سے ان کے خالق کے وجود و وحدانیت پر استدلال کرو۔ یہ تمام اجسام محسوسہ ممکن ہیں کیونکہ مرکب ہیں۔ ان میں تعدو ہے ان کے احوال تغیر پذیر ہیں ان کا ایک مبدء اور موثر ہونا لازم ہے جو واجب بالذات ہو۔ ممکن ‘ ممکن کی علت تامہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہر ممکن اپنے وجود میں اپنی علت کا محتاج ہے پس یا تو علت کی جانب تسلسل غیر متناہی ہوگا جو محال ہے یا واجب بالذات علت پر یہ تسلسل ختم ہوجائے گا یہی صحیح ہے (اس سے معلوم ہوا کہ مبدء اوّل کا واجب بالذات اور ضروری الوجود ہونا لازم ہے۔ مترجم) اور یہی مبدء تمام محسوس اور غیر محسوس ممکنات کا مبدء ہوگا ورنہ یا واجب کا تعدد لازم آئے گا یا بعض ممکنات کا علت سے استغنا اور محتاج نہ ہونا لازم آئے گا۔ واجبوں کا تعدد تو ناممکن ہے ورنہ متعدد واجبوں کے اندر کچھ اجزاء مشترکہ ہوں گے اور کچھ ممیزہ اس طرح ہر واجب کی حقیقت مشترکہ اور ممیزہ اجزاء سے مرکب ہوجائے گی اور مرکب ہونا حدوث کی دلیل ہے اس صورت میں واجب واجب نہ رہے گا حادث ہوجائے گا۔ رہی استغناء کی شق تو استغنا امکان کی ضد ہے ممکن ہوا اور علت سے مستغنی ہوا ایسا ہو نہیں سکتا۔ اب ظاہر ہے کہ واجب تعالیٰ کو اس کے بیرونی خصوصی احوال سے پہچاننا ممکن ہوسکتا ہے۔ ذات کے اجزاء سے نہیں۔ نہ ذات کی تعریف خود ذات سے کی جاسکتی ہے نہ ذاتیات اور اجزاء سے (جب اجزاء ہی نہیں ہیں تو اجزاء کے ذریعہ ذات کی تعریف کیسے ہوسکتی ہے خلاصہ یہ کہ اللہ کے وجود وحدانیت کو اگر پہچانا جاسکتا ہے تو ان ہی موجودات و کائنات کے ذریعہ سے جو اللہ کی وحدت ذاتیہ کے خصوصی نشانات و آثار ہیں۔ مترجم) ۔ چونکہ فرعون احمق (یا دانستہ نادان بننے والا) تھا ‘ حضرت موسیٰ کے جواب کی خوبی کو نہیں سمجھا اور۔
Top