Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 37
اِرْجِعْ اِلَیْهِمْ فَلَنَاْتِیَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ
اِرْجِعْ : تو لوٹ جا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ : ہم ضرور لائیں گے ان پر بِجُنُوْدٍ : ایسا لشکر لَّا قِبَلَ : نہ طاقت ہوگی لَهُمْ : ان کو بِهَا : اس کی وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ : ہم ضرور نکالدیں گے انہیں مِّنْهَآ : وہاں سے اَذِلَّةً : ذلیل کر کے وَّهُمْ : اور وہ صٰغِرُوْنَ : خوار ہوں گے
ان کے پاس واپس جاؤ ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ ہوگی اور ان کو وہاں سے بےعزت کرکے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے
ارجع الیہم فلناتینھم بجنود لا قبل لھم بھا ولنخرجنھم منھا اذلۃ وھم صغرون تم ان کے (یعنی بلقیس اور قوم کے) پاس لوٹ کر جاؤ ہم ایسے لشکر لے کر ان پر جا پہنچیں گے جن کے مقابلہ کی ان میں طاقت نہیں اور ان کو اس (سرزمین) سے بےعزت کر کے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے۔ صَاغِرُوْنَ کے لفظ سے اَذِلَّۃً (بےعزت) ہونے کی تاکید ہو رہی ہے۔ بعض علماء نے کہا : ذلت عزت کی ضد ہے۔ آبرو اور حکومت کا زوال ذلت ہے اور صنعار سے مراد ہے قیدی ہوجانا یعنی اگر وہ مسلمان ہو کر نہیں آئیں گے تو ہم ان کو ان کی سرزمین سے نکال دیں گے (اور ان کو قیدی بنا لیا جائے گا) ۔ وہب بن منبہ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ جب وفد یمن حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس سے لوٹ کر بلقیس کے پاس پہنچا (اور واقعہ بیان کیا) تو بلقیس نے کہا : واللہ ! میں تو پہلے ہی پہچان چکی کہ وہ بادشاہ نہیں ہے اور اس کے مقابلہ کی ہم میں سکت نہیں۔ اس کے بعد بلقیس نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس پیام بھیجا کہ میں خود اپنی قوم کے سرداروں کے ساتھ آپ کے پاس آرہی ہوں اور دیکھوں گی کہ جس دین کی طرف آپ ہم کو بلا رہے ہیں ‘ وہ کیا ہے۔ پھر بلقیس نے حکم دے کر اپنے تخت کو تہ برتہ سات کمروں میں بند کرا کے دروازوں کو مقفل کردیا یا سات محلوں کے اندر اس کو رکھوا دیا اور حفاظت کے لئے کچھ نگران مقرر کر دئیے اور اپنے نائب سے کہا : تم یہاں کے حالات کے نگراں رہنا ‘ میرے تخت تک کوئی پہنچنے نہ پائے اور کوئی اس کو خراب نہ کرسکے۔ پھر اعلانچی کو یہ اعلان کرنے کا حکم دے دیا کہ تمام ممالک محروسہ کے باشندوں کو معلوم ہوجانا چاہئے کہ ہم کوچ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد یمن کے بارہ ہزار نوابوں کو لے کر روانہ ہوگئی ‘ ہر نواب کے ماتحت ہزاروں سپاہی تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) بڑے باوقار اور رعب داب کے آدمی تھے۔ اگر کسی سے کچھ دریافت کرتے تھے تو (اس کی مجال نہ ہوتی کہ کود اپنی طرف سے جواب دے سکے بلکہ) وہ حضرت پر بھی آپ کے سوال کا جواب محول کردیا (اور کہہ دیتا کہ اللہ کے نبی کو ہی اس کا بخوبی علم ہے) ایک روز اپنے تخت حکومت پر باہر نکل کر تشریف فرما تھے کہ ایک غبار قریب ہی اڑتا نظر آیا اور دریافت فرمایا : یہ کیا ہے ؟ حاضرین نے عرض کیا : بلقیس اس جگہ آکر اتری ہے۔ یہ مقام حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مجلس سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر تھا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے یہ بات سن کر اپنے لشکر والوں کی طرف متوجہ ہو کر
Top