Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم پے درپے اُن لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں
ولقد وصلنا لھم القول لعلھم یتذکرون . اور ہم نے اس کلام (یعنی قرآن) کو ان کے لئے مسلسل نازل کیا (یعنی تازہ بتازہ ایک کے بعد دوسری آیت) تاکہ یہ لوگ (تازہ بتازہ سننے کے بعد) نصیحت حاصل کریں۔ وَلَقَدْ وَصَّلْنَا الخ فراء نے کہا : یعنی ہم نے قرآن کی آیات یکے بعد دیگرے اتاریں۔ بیضاوی نے لکھا ہے : یعنی ہم نے اتارنے میں اتصال رکھا تاکہ یاددہانی ہوتی رہے یا عبارت میں وصل رکھا تاکہ دلائل سے دعوت میں اور وعد و وعید سے مواعظ میں اور عبرتوں سے نصیحتوں میں قوت پیدا ہو۔ مفسر مدارک نے لکھا ہے : توصیل کا معنی ہے تکثیر و تکرار وصل (یعنی بات تفعیل مبالغہ کے لئے ہے ‘ مترجم) حضرت ابن عباس نے وَصَّلْنَا کا ترجمہ کیا ہے بَیَّنَّا ہم نے کھول کر بیان کردیا یعنی بعض آیات دوسری آیات کے مضمون کو کھول کر بیان کرنے والی ہیں۔ قتادہ نے کہا : اس قرآن میں اللہ نے بار بار بیان کیا ہے کہ گزشتہ لوگوں سے کیا سلوک کیا گیا۔ مقاتل نے کہا : ہم نے کفار مکہ کے لئے قرآن میں گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کر دئیے اور بتادیا کہ تکذیب و کفر کی وجہ سے ان پر کیسے عذاب آئے۔ ابن زید نے کہا : ہم نے خبر دنیا کے ساتھ خبر آخرت کو ملا دیا ‘ اس قدر کہ گویا انہوں نے دنیا میں آخرت کا معائنہ کرلیا۔ ابن جریر اور طبرانی نے رفاعہ قرظی کا قول نقل کیا ہے کہ آیت وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَھُمُ الْقَوْلَ دس آدمیوں کے حق میں نازل ہوئی جن میں سے ایک میں ہوں۔ ابن جریر نے علی بن رفاعہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اہل کتاب میں سے دس آدمی جن میں ایک رفاعہ یعنی علی کے باپ بھی تھے ‘ نکل کر رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے اور ایمان لے آئے پھر ان کو دکھ دئیے گئے ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top