Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
تو (ایک روز) قارون (بڑی) آرائش (اور ٹھاٹھ) سے اپنی قوم کے سامنے نکلا۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے لگے کہ جیسا (مال ومتاع) قارون کو ملا ہے کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے۔ وہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے
فخرج علی قومہ فی زینتہ قال الذیہ یریدون الحیوۃ الدنیا یلیت لنا مثل ما اوتی قارون انہ لدو حظ عظیم . پھر (ایک بار) وہ اپنی قوم کے سامنے بن سنور کر (شان و شوکت کے ساتھ) نکلا تو (اس کی برادری میں سے) جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی کے طلب گار تھے انہوں نے کہا کہ کاش ! ہمارے پاس بھی ویسی ہے (دولت و راحت) ہوتی جو قارون کو دی گئی ہے ‘ یہ یقیناً بڑا خوش نصیب ہے۔ ابراہیم نخعی نے کہا کہ قارون اور اس کی قوم والے (نوکر چاکر اور کنبہ ‘ خاندان کے آدمی) سبز سرخ لباس پہن کر نکلے۔ ابن زید نے کہا کہ قارون ستر ہزار آدمیوں کو جو زعفرانی لباس میں تھے ‘ ساتھ لے کر نکلا۔ مجاہد نے کہا کہ قارون اپنے ساتھیوں کو جو زعفرانی لباس میں تھے اور سفید خچروں پر سوار تھے جن پر ارغوانی رنگ کی زینیں کسی ہوئی تھیں ‘ ساتھ لے کر نکلا۔ مقاتل نے کہا کہ قارون سفید خچر پر نکلا ‘ خچر پر سنہری ارغوانی زین تھی۔ چار ہزار سوار تھے ‘ ان سواروں کے گھوڑے ارغوانی تھے۔ تین سو باندیاں بھی سفید خچروں پر سوار ساتھ تھیں ‘ باندیاں گوری گوری ‘ زیور اور سرخ لباس سے آراستہ تھیں۔ بنی اسرائیل (اگرچہ دنیا کے طلب گار تھے لیکن) مؤمن تھے اس لئے یہ نہیں کہا کہ قارون کی دولت ہم کو مل جاتی ‘ یہ تو حسد ہوجاتا بلکہ یوں کہا کہ قارون کی دولت کی طرح کاش ہم کو بھی دولت مل جاتی۔
Top