Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 9
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف (پر) كَلِمَةٍ : ایک بات سَوَآءٍ : برابر بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اَلَّا نَعْبُدَ : کہ نہ ہم عبادت کریں اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ وَلَا نُشْرِكَ : اور نہ ہم شریک کریں بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَتَّخِذَ : اور نہ بنائے بَعْضُنَا : ہم میں سے کوئی بَعْضًا : کسی کو اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَقُوْلُوا : تو کہ دو تم اشْهَدُوْا : تم گواہ رہو بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : مسلم (فرمانبردار)
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : آپ کہہ دیں اے اہل کتاب۔ اہل کتاب کا لفظ دونوں کتابوں والوں کو شامل ہے۔ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ : ایک بات کی طرف آجاؤ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ جس قصہ کی کچھ تفصیل ہو عرب اس کو کلمہ کہہ دیتے ہیں اسی لیے قصیدہ کو کلمہ کہا جاتا ہے۔ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ : جو ہمارے تمہارے درمیان ایک جیسی ہے سواء مصدر بمعنی اسم فاعل ہے اسی لیے اس کا مؤنث نہیں آتا کیونکہ مصدر کا تثنیہ آتا ہے نہ جمع نہ مؤنث یعنی اس بات میں قرآن، توریت، انجیل کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ : وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوائے ہم کسی کو نہ پوجیں یعنی عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں نہ انسان کو، نہ بت کو، نہ فرشتہ کو، نہ شیطان کو۔ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔـا : اور کسی شئ کو واجب الوجود ہونے میں اسکا ساجھی نہ قرار دیں جیسے یہودی عزیرکو خدا کا بیٹا اور عیسائی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نصاریٰ اللہ کو تین میں کا تیسرا قرار دیتے ہیں اور نتیجہ میں عزیر ( علیہ السلام) اور مسیح کی پوجا کرتے ہیں۔ وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا : اور ہم میں سے بعض آدمی بعض آدمیوں کو رب نہ بنائیں یعنی بعض لوگ بعض کی اطاعت نہ کریں۔ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کی اجازت کے بغیر۔ حضرت عدی بن حاتم راوی ہیں کہ جب آیت : اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہم تو علماء و مشائخ کی پوجا نہیں کرتے تھے فرمایا : کیا وہ (اپنی مرضی سے اشیاء کو) تمہارے لیے حلال حرام نہیں بنایا کرتے تھے اور پھر تم ان کے قول پر عمل نہیں کیا کرتے تھے میں نے عرض کیا : جی ہاں (ایسا تو کرتے تھے) فرمایا : یہی تو وہ ہے (یعنی یہی تو غیر اللہ کو رب بنانا ہوا) ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ اطاعت رسول حقیت میں اللہ ہی کی اطاعت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اللہ نے فرمایا : و مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ اسی طرح علماء، اولیاء، حکام اور بادشاہوں کا حکم جب کہ شریعت کے موافق ہو اللہ ہی کی اطاعت ہے اللہ کا ارشاد ہے : اَطِیْعُوْا اللہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ اور جو خلاف شرع ہو اس کی اطاعت غیر اللہ کی ربوبیت کی تسلیم ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے معصیت خداوندی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں اطاعت تو معروف میں ہونی چاہئے۔ (رواہ الشیخان فی صحیحہما و ابو داؤد والنسائی) حضرت عمران بن حصین اور حضرت حکیم بن عمرو غفاری کی روایت ہے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ اس مقام سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اگر کسی کی تحقیق میں کوئی مرفوع حدیث صحیح ثابت ہوجائے اور اس کے مقابل کوئی دوسری حدیث نہ ہو اور کوئی حدیث اس کی ناسخ بھی نہ ہو اور امام ابوحنیفہ (رح) کا فتویٰ حدیث مذکور کے خلاف ہو اور باقی ائمہ میں سے کسی امام کا مسلک حدیث مذکور کے موافق ہو تو اس صورت میں حدیث کا اتباع واجب ہے ایسی حالت میں اگر امام اعظم (رح) کے فتوے پر جما رہے گا تو گویا یہ غیرا اللہ کی ربوبیت کی تسلیم ہوگی۔ بیہقی نے مدخل میں صحیح اسناد کے ساتھ عبد اللہ بن مبارک کا قول نقل کیا ہے ابن مبارک نے کہا میں نے خود ابوحنیفہ (رح) کو یہ فرماتے سنا کہ اگر رسول اللہ کی کوئی حدیث مل جائے تو ہمارے سر آنکھوں پر اور کسی صحابی کا قول مل جائے تو ان کے اقوال سے ہم (کسی مسلک کو) ترجیح دیں گے اور کسی تابعی کا قول ہو تو ہم اس سے مقابلہ کریں گے۔ بیہقی نے روضۃ العلاء سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام اعظم (رح) نے فرمایا : رسول اللہ کی حدیث اور صحابہ ؓ کے قول کے مقابل میں میرے قول کو ترک کردو۔ یہ بھی منقول ہے کہ امام صاحب نے فرمایا : اگر حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ ہم نے عمل بالحدیث کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی امام کا قول اس حدیث کے موافق ہونا ضروری ہے اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں حدیث کے خلاف عمل کرنے سے اجماع کی خلاف ورزی لازم آملے گی کیونکہ تیسری یا چوتھی قرن کے بعد فرعی مسائل میں اہل سنت کے چار فرقے ہوچکے کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا۔ پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہو وہ باطل ہے اور رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ میری امت کا اتفاق گمراہی پر نہیں ہوگا۔ اللہ نے بھی فرمایا ہے۔ وَ مَنْ یَّتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہِ جَھَنَّمَ وَ سَاءَ تْ مَصِیْرًا اس کے علاوہ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یہ بات تو ممکن ہے کہ حدیث مذکور کا علم چاروں اماموں میں سے کسی کو نہ ہوا ہو اور نہ ان کے شاگردوں میں سے کسی بڑے عالم کو اطلاع ہو اس سے معلوم ہوا کہ اگر سب نے بالاتفاق حدیث مذکور کے خلاف فتویٰ دیا ہے اور حدیث پر عمل ترک کردیا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ اس حدیث کو کسی دوسری حدیث سے انہوں نے منسوخ یا مؤ ول قرار دیا ہے۔ فائدہ اگر علماء شرع کسی مسئلہ کے جواز یا عدم جواز کا فیصلہ کرچکے ہوں تو پھر اس فتوے کی خلاف ورزی یہ کہہ کر کرنی جائز نہیں کہ مشائخ صوفیہ کا طریقہ اس کے علاوہ ہے اور ہم صوفیہ کے طریقہ کے پابند ہیں حقیقت میں صوفیائے کرام نے شرع کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ شریعت کا بگاڑ تو ان جاہلوں کی وجہ سے ہوا جو صوفیہ کے پیچھے آئے (اور تصوف کے علمبردار بنے) فائدہ اولیاء اور شہداء کے مزارات پر سجدے کرنا طواف کرنا، چراغ روشن کرنا، ان پر مسجدیں قائم کرنا، عید کی طرح مزارات پر عرس کے نام سے میلے لگانا جس طرح آج کل جاہل کرتے ہیں۔ جائز نہیں۔ حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ مرض (وفات) میں رسول اللہ نے دھاری دار کمبل سے چہرہ مبارک ڈھانک لیا اور دم گھٹا تو منہ سے ہٹا دیا اور اسی حالت میں فرمایا : یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے حضور ﷺ نے اس ارشاد میں یہود و نصاریٰ کے فعل سے مسلمانوں کو باز داشت کی۔ (بخاری و مسلم) امام احمد اور ابو داؤد طیالسی نے بھی حضرت اسامہ بن زید کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور ان لوگوں پر جو قبروں پر سجدہ گاہ بناتے اور چراغ جلاتے ہیں اللہ کی لعنت ہو۔ مسلم نے حضرت جندب بن عبد الملک کا قول نقل کیا ہے۔ جندب کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا وفات سے پانچ رات پہلے حضور فرما رہے تھے ہو شیار ! قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تاکید کے ساتھ تم کو اس کی ممانعت کرتا ہوں۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا : یعنی اس سیدھی سادھی سچی بات سے جس پر اللہ کی تمام کتابیں اور پیغمبر متفق ہیں اگر یہ لوگ رو گردانی کریں۔ فَقُوْلُوا : تو اے پیغمبر تم اور سب مسلمان کہہ دیں کہ اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ : اے اہل کتاب تم گواہ رہو کہ تمام آسمانی کتابوں کو ہم مانتے ہیں تم نہیں مانتے۔ حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ ابو سفیان بن حرب نے مجھ سے بیان کیا کہ ہرقل نے مجھے اور قریش کی ایک جماعت کو طلب کیا جس زمانہ میں ہماری اور رسول اللہ کی صلح تھی اس مدت صلح میں ہم شام میں بسلسلہ تجارت گئے ہوئے تھے ایلیا میں ہم ہرقل کے پاس پہنچے ہرقل نے ہم سب کو اپنی مجلس میں طلب کرلیا سب اندر داخل ہوئے اس وقت اس گردا گرد سر داران روم موجود تھے اس کے بعد اس نے وہ خط منگوایا جو دحیہ کے ہاتھ رسول اللہ نے حاکم بصریٰ کو بھیجا تھا اور حاکم بصریٰ نے وہ ہرقل کو پہنچا دیا تھا خط ان الفاظ کے ساتھ تھا۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ا اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے ہرقل سردار روم کے نام جو ہدایت پر چلے اس پر سلام ہو۔ اما بعد میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں مسلمان ہوجاؤ محفوظ رہو گے اللہ تم کو دوہرا ثواب دے گا۔ اگر تم نے روگردانی کی تو رعایا کا گناہ بھی تم ہی پڑ پڑے گا اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے تمہارے درمیان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی پوجا نہ کریں، اس کا کسی چیز کو شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کی اطاعت اللہ کی اجازت کے بغیر نہ کرے اس کے بعد بھی اگر انہوں نے روگردانی کی تو مسلمانو تم کہہ دو کہ (اے اہل کتاب) تم گواہ رہو کہ ہم (سب کو) مانتے ہیں (اور اللہ کے فرماں بردار ہیں) (متفق علیہ) فائدہ رسول اللہ نے یہ آیت نجرانی نمائندوں کو پڑھ کر سنائی اور ہرقل کو لکھ کر بھیجی اور سب نے اس کو تسلیم کیا اور مضمون کا انکار نہیں کیا اور یہ کہہ کر رد نہ کردیا کہ یہ بات ہماری کتابوں میں نہیں ہے یہ اموررسول اللہ کی نبوت کا قطعی ثبوت ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ مندرجۂ آیات امور پر تمام کتابوں اور پیغمبروں کا اتفاق ہے رہا عزیر اور عیسیٰ کو خدا کا بیٹا قرار دینا یہ صرف دماغی تراشیدہ اور تقلیدی عقیدہ ہے آسمانی کتابوں میں اس کی سند نہیں ہے۔ چونکہ عیسیٰ کا ابن اللہ ہونا کسی کتاب میں نہیں اسی لیے تو رسول اللہ سے مناظرہ کے وقت انہوں نے (اپنی اختراعی عقلی یہ) دلیل پیش کی کہ کیا بن باپ کا آپ نے کوئی آدمی دیکھا ہے۔ امام بیضاوی نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے قصہ میں کس قدر پر زور ہدایت کا طریقہ اختیار کیا اور مناظرہ میں کتنی خوبصورت ترتیب مناظرہ ملحوظ رکھی قابل غور ہے۔ اوّل حضرت عیسیٰ کے وہ احوال واطوار بیان کئے جو الوہیت کے منافی ہیں پھر عیسیٰ کی تخلیقی حالت کو آدم کی تخلیقی حالت سے تشبیہ دے کر ان کے دل کی گرہ اور شبہ کو دور کرنے کا طریقہ اختیار کیا لیکن اس کے بعد بھی جب ان کی طرف سے ضد اور ہٹ دیکھی تو اعجاز آگیں طریقہ سے مباہلہ کی دعوت دی اور جب دیکھا کہ مباہلہ سے وہ کترا گئے اور کسی قدر اطاعت کا اظہار کرنے لگے تو پھر ان کو ہدایت کرنے کی طرف رخ کیا اور اس طریقہ سے ہدایت کی پیش کش کی جو بہت ہی آسان اور لا جواب بنا دینے والا ہے یعنی ان کو ایسی چیز کی دعوت دی جس پر حضرت عیسیٰ انجیل و تمام پیغمبر اور کتابیں متفق ہیں اور یہ طریقہ بھی سود مند ثابت نہیں ہوا اور تمام آیات و تنبیہات غیر مفید ہوئیں تو پھر ہر طرف سے رخ موڑ کر فرمایا : اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ. ابن اسحاق نے اپنی مکرر سند سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ نجران کے عیسائی اور یہودی علماء رسول اللہ کی خدمت میں جمع ہوئے علماء یہود نے کہا کہ ابراہیم تو یہودی ہی تھے اور عیسائیوں نے کہا کہ وہ عیسائی تھے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top