Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: ایمان والو
اذْكُرُوْا
: یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: اپنے اوپر
اِذْ جَآءَتْكُمْ
: جب تم پر (چڑھ) آئے
جُنُوْدٌ
: لشکر (جمع)
فَاَرْسَلْنَا
: ہم نے بھیجی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
رِيْحًا
: آندھی
وَّجُنُوْدًا
: اور لشکر
لَّمْ تَرَوْهَا ۭ
: تم نے انہیں نہ دیکھا
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِمَا
: اسے جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
بَصِيْرًا
: دیکھنے والا
مومنو خدا کی اُس مہربانی کو یاد کرو جو (اُس نے) تم پر (اُس وقت کی) جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو) آئیں۔ تو ہم نے اُن پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل کئے) جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا اُن کو دیکھ رہا ہے
یایھا الذین اٰمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذجاء تکم جنود فارسلنا علیھم ریحا وجنودا لم تروھا . اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ کی عنایت کو جو تم پر اس وقت ہوئی تھی جب تم پر فوجیں آپڑی تھیں تو ہم نے ان پر ہوائی طوفان اور ایسے لشکر بھیجے جو تم کو دکھائی نہیں دیتے تھے (اس آیت میں غزوۂ خندق کی طرف اشارہ ہے) ۔ جُنُوْدٌسے مراد ہیں کفار قریش ‘ بنی غطفان اور قبیلہ بنی قریظہ کے یہودی جن کی مجموعی تعداد تقریباً بارہ ہزار تھی۔ مدینہ کے مسلمانوں نے کا ان سب نے آکر محاصرہ کرلیا تھا اور رسول اللہ نے مدینہ کے گرد ایک خندق کھدوا لی تھی۔ رِیْحًایہ پروا ہوا تھی۔ موسم بھی سردی کا تھا ‘ رات بھی بہت سرد تھی ‘ پروا ہوا کا ایک طوفان آیا جو انتہائی سرد تھا ‘ جس کی وجہ سے ڈیروں اور خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں ‘ رسیاں ٹوٹ گئیں ‘ آگ (جو حملہ کرنے والوں نے اپنی فرودگاہ میں کھانا پکانے اور تاپنے کیلئے روشن کر رکھی تھی) بجھ گئی ‘ ہانڈیاں الٹ گئیں ‘ گھوڑے رسیاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ جُنُوْدًا یعنی ملائکہ کا لشکر (جو غیبی امداد کیلئے بھیجا گیا تھا اور) جو لشکر کے گرداگرد تکبیر کی آوازیں بلند کر رہے تھے ‘ کافروں پر رعب چھا گیا ‘ خوفزدہ ہوگئے۔ ہر قبیلہ کے سردار نے اپنے قبیلہ کو آواز دے کر اپنے پاس بلا لیا ‘ جب سب آگئے تو کہا : جلد بھاگو ‘ جلد بھاگو۔ نتیجہ میں بغیر لڑائی کے سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس روز فرشتوں نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا (صرف مسلمانوں کو اطمینان دلانے اور کافروں کے دلوں میں رعب ڈالنے کیلئے آئے تھے) ۔ وکان اللہ بما تعملون بصیرا . اور (اے مسلمانو ! ) تم جو (لڑائی کی تیاری ‘ خندق کی کھدائی) کر رہے تھے ‘ اللہ اس کو دیکھ رہا تھا۔ بخاری نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : پروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور پچھمی ہوا سے قوم عاد کو تباہ کیا گیا۔ غزوۂ خندق کا واقعہ ماہ شوال 4 ھ میں ہوا۔ مواہب لدنیہ کے مصنف نے یہی لکھا ہے اور موسیٰ بن عقبہ کو اس کا راوی کہا ہے۔ رسول اللہ نے بنی نضیر کو مدینہ سے نکال دیا تھا ‘ ان کی جلاوطنی سے آٹھ ماہ کے بعد یہ واقعہ ہوا تھا۔ بنی نضیر مدینہ سے نکل کر اطراف ملک میں گھومتے پھرے۔ سلام بن ابی الحقیق اور کنانہ بن ربیع اور حیی بن اخطب ربیع الاول 4 ھ میں خیبر میں پہنچے ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ربیع الاول یا اس کے کچھ بعد کا ہے ‘ لیکن مشہور یہ ہے کہ شوال 5 ھ میں غزوۂ خندق کا واقعہ ہوا (کذا قال محمد بن اسحاق) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ محمد بن اسحاق نے کہا : مجھ سے یزید بن رومان نے (جو خاندان زبیر کے آزاد کردہ غلام تھے) عروہ بن زبیر کی روایت سے بیان کیا اور عبد اللہ بن کعب بن مالک اور زہری اور عاصم بن عمرو بن قتادہ نیز عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اور محمد بن کعب قرظنی کا بھی بیان ہے اور یہ تمام روایات باہم ملتی جلتی ہیں (جن کا خلاصہ یہ ہے کہ) یہودیوں کی ایک جماعت جس میں رسول اللہ کے خلاف قبائل عرب کو مدینہ پر چڑھا کر لانے والے سلام بن ابی الحقیق اور حیی بن اخطب اور کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق اور ہودہ بن قیس اور ابو عامر لوائی شامل تھے اور بنی نضیر و بنی وائل کے لوگوں کی کچھ تعداد بھی ساتھ تھی ‘ مدینہ سے نکل کر مکہ میں قریش کے پاس پہنچے اور رسول اللہ کے خلاف جنگ کرنے کی ان کو دعوت دی اور یہ بھی کہا کہ رسول اللہ کی بیخ کنی کرنے میں ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔ قریش نے جواب دیا : اے گروہ یہود ! تم اہل علم ہو ‘ تمہاری کتاب سابق ہے۔ ہمارا محمد ﷺ سے مذہبی اختلاف ہے ‘ تم یہ بتاؤ کہ ہمارا مذہب بہتر ہے یا محمد ﷺ کا ؟ یہودیوں نے جواب دیا : تمہارا مذہب بہتر ہے ‘ تم حق پر ہو۔ انہی کے متعلق اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ۔۔ وَکَفٰی بِجَھَنَّمَ سَعِیْرًا یہودیوں کا یہ فیصلہ سن کر قریش خوش ہوگئے اور رسول اللہ سے جنگ کرنے کی یہودیوں کی دعوت ماننے پر تیار ہوگئے اور سب اس فیصلہ پر متفق ہوگئے۔ اس کے بعد یہ یہودی قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے۔ قبیلہ غطفان ‘ قیس بن غیلان کی ایک شاخ تھی ‘ ان کو بھی وہی دعوت دی تھی اور ان سے بھی کہا : ہم تمہارے ساتھ شریک رہیں گے اور یہ بھی بتادیا کہ قریش سے ہمارا اس پر معاہدہ ہوچکا ہے اور قریش نے مان لیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ غطفان نے بھی ان کی دعوت قبول کرلی۔ میں کہتا ہوں : بعض روایات میں آیا ہے کہ بنی نضیر اور بنی وائل کے تقریباً بیس آدمیوں کی جماعت قریش کے پاس گئی۔ ابوسفیان نے ان کو خوش آمدید کہا اور یہ بھی کہا کہ تم سب سے زیادہ ہمارے منظور نظر ہو ‘ تم نے محمد ﷺ کے خلاف ہم سے معاہدہ کیا ہے۔ یہودیوں نے ابوسفیان سے کہا : قبیلہ قریش میں سے تم پچاس آدمی منتخب کرلو اور تم بھی ان کے ساتھ شامل رہو ‘ پھر ہم تم سب مل کر کعبہ کے پردوں کے اندر گھس کر کعبہ کی دیواروں سے سینہ چمٹا کر اس بات کی قسم کھائیں کہ محمد ﷺ کی عداوت پر ہم سب متفق اور یک زبان رہیں گے۔ ہم باہم عہد کریں کہ جب تک ہم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہے گا ‘ ہم محمد ﷺ سے لڑتے رہیں گے۔ حسب مشورہ سب نے یہ معاہدہ کرلیا۔ قریش سے معاہدہ کرنے کے بعد قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو رسول اللہ کے خلاف جنگ پر ابھارا اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کرو گے تو خیبر کے درختوں پر جتنے چھوارے ایک سال یا چھ ماہ تک آئیں گے ‘ وہ سب ہم تم کو دے دیں گے (یعنی نخلستان خیبر کی پوری فصل یا آدھی فصل تمہاری ہوگی) قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصین فزاری نے شرط مذکور پر یہودیوں کی بات مان لی اور بنی اسد میں جو عیینہ کے حلف (معاہد) تھے ‘ ان کو بھی بلوا لیا۔ اس کے بعد قریش کو لے کر ان کا کمانڈر ابوسفیان بن حرب اور بنی غطفان کو مع بنی فزارہ کے لے کر ان کا قائد عیینہ بن حصین بن حذیفہ بن بدر اور بنی مرہ کو لے کر حارث بن عوف بن ابی حارثہ اور بنی اشجع میں سے اپنے ساتھیوں کو لے کر مسعر بن رحیلہ بن نویرہ بن ظریف نکل کھڑے ہوئے۔ ابو سفیان نے چار ہزار کا لشکر جمع کیا اور اس لشکر کا جھنڈا عثمان بن ابی طلحہ کو دیا۔ مکہ سے برآمد ہونے کے وقت اس لشکر میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ تھے۔ یہ لشکر مکہ سے چل کر مّرا لظہران پہنچ کر اتر پڑا۔ اسی جگہ بنی اسلم ‘ بنی اشجع ‘ بنی مرہ ‘ بنی کنانہ ‘ بنی فزارہ اور بنی غطفان کے لشکر آپہنچے ‘ یہ ساری فوج دس ہزار ہوگئی۔ مّرالظہران سے روانہ ہو کر سب مدینہ کو چل دئیے (چونکہ مختلف جماعتیں اور گروہ اس لشکر میں شامل تھے) اسی لئے اس جگہ کا نام غزوۂ احزاب ہوگیا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ نے احزاب کے جمع ہونے اور معاہدہ کر کے چلنے کی خبر سنی تو مدینہ کے باہر آپ ﷺ نے ایک خندق کھدوائی ‘ خندق کھدوانے کا مشورہ رسول اللہ کو سلمان فارسی نے دیا تھا۔ حضرت سلمان اس زمانہ میں آزاد تھے (غلام نہیں تھے) اور رسول اللہ کے ہمرکاب رہ کر شریک معرکہ ہونے کا آپ کیلئے پہلا موقعہ تھا۔ حضرت سلمان نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم جب فارس میں تھے اور دشمن ہمارا محاصرہ کرلیتا تھا تو ہم اپنے گردا گرد خندق کھود لیا کرتے تھے (دشمن کی پیش قدمی روکنے کی یہ تدبیر تھی) رسول اللہ نے اس مشورہ کو مان لیا اور خندق کو مضبوط کردیا۔ میں کہتا ہوں : روایت میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ نے (قبائل عرب کے متفق ہو کر چڑھائی کرنے کی) خبر سنی تو فرمایا : حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا اچھا کارساز ہے۔ پھر آپ ﷺ نے مہاجرین و انصار کے سرداروں کو جمع کر کے مشورہ طلب کیا۔ حضرت سلمان نے خندق کھدوانے کا مشورہ دیا ‘ حضور ﷺ نے یہ مشورہ پسند فرمایا۔ مدینہ (کے انتظام) پر حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم کو اپنا جانشین بنایا اور خود جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوئے ‘ تین ہزار مہاجر اور انصار آپ کے ساتھ نکلے۔ حضرت زید بن حارثن کو مہاجرین کا اور حضرت سعد بن عبادہ کو انصار کا جھنڈا عطا فرمایا۔ میں کہتا ہوں : روایت میں آیا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اس وقت (صرف) 36 گھوڑے تھے۔ کچھ نابالغ لڑکے بھی جہاد میں شریک ہونے کیلئے آپ کے ساتھ نکلے ‘ آپ نے پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کو واپس کردیا اور پندرہ سال کی عمر کے لڑکوں کو جہاد میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔ ان بالغوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر ‘ حضرت زید بن ثابت ‘ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت براء بن عازب بھی تھے۔ پھر حضور ﷺ نے خندق کھدوانے کیلئے مدینہ کے بعض اطراف میں جگہ تلاش کرائی ‘ آخر کوہ سلع کے قریب ایک جگہ مقرر کردی گئی۔ پہاڑ کو لشکر کے عقب میں رکھا گیا اور خندق کیلئے حضور ﷺ نے خود خط کھینچ دئیے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عوف کے والد نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے سال رسول اللہ نے خود لائنیں ڈالی تھیں اور ہر دس آدمیوں کیلئے چالیس گز (شرعی یعنی چالیس ہاتھ) زمین (کھودنے کیلئے) کاٹ دی تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت سلمان قوی آدمی تھے ‘ مہاجرین و انصار کے درمیان حضرت سلمان کے متعلق کچھ اختلاف ہوگیا۔ مہاجرین نے کہا : سلمان ہم میں سے ہیں اور انصار نے کہا : سلمان ہمارے ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا : سلمان ہم میں سے یعنی ہمارے اہل بیت میں سے ہیں۔ عمرو بن عوف نے فرمایا : میں اور سلمان اور حذیفہ اور نعمان بن مقرن مرنی اور چھ انصاری چالیس گز زمین کھودنے میں شریک تھے ‘ چناچہ ہم نے کھودنا شروع کردیا۔ اچانک بحکم خدا خندق کے اندر ایک سخت ترین چٹان آگئی جس کو توڑنا ہماے لئے سخت دشوار ہوگیا۔ ایسی سخت چٹان تھی کہ اس نے ہمارے لوہے کے اوزاروں کو تو ڑدیا۔ میں نے کہا : سلمان ! ذرا اوپر چڑھ کر رسول اللہ کی خدمت میں جاؤ اور حضور ﷺ کو اس چٹان کی کیفیت بتاؤ۔ اگر حضور ﷺ مناسب سمجھیں گے تو ہم اس پتھر کی طرف سے کھدائی کا رخ موڑ دیں گے ‘ موڑنے کا مقام قریب ہی ہے ‘ یا جو بھی حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے کیونکہ حضور ﷺ کے ڈالے ہوئے خط سے ہٹنا ہم نہیں چاہتے۔ سلمان اوپر چڑھ کر رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے ‘ آپ اس وقت ترکی خیمہ کے نیچے فروکش تھے۔ سلمان نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! خندق کے اندر ایک سخت سفید چٹان نکل آئی جس نے ہمارے آہنی اوزار کو توڑ ڈالا۔ ہمارے لئے سخت دشواری ہوگئی۔ کچھ بھی تو اس پر اثر نہیں ہوا ‘ نہ زیادہ نہ کم۔ اب حضور ﷺ کا کیا حکم ہے ؟ ہم حضور ﷺ کے ڈالے ہوئے خط سے ہٹنا پسند نہیں کرتے۔ رسول اللہ (فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور جا کر خندق کے اندر اتر گئے ‘ سلمان بھی ساتھ تھے اور خندق کے اندر نو آدمی اور تھے۔ پھر حضور ﷺ نے سلمان کے ہاتھ سے کدال لے کر چٹان پر ایک سخت ضرب لگائی ‘ فوراً پتھر میں شگاف ہوگیا اور پتھر سے ایک ایسی چمک نکلی جس سے مدینہ کے دونوں کنارے روشن ہوگئے۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی تاریک ترین کوٹھڑی میں چراغ روشن کردیا گیا ہو۔ رسول اللہ نے تکبیر فتح کہی ‘ مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد آپ نے دوسری ضرب لگائی ‘ پتھر ٹوٹ گیا اور ایک بجلی چمکی جس سے مدینہ کے دونوں کنارے چمک اٹھے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی تاریک کوٹھڑی میں چراغ روشن کردیا گیا ہو۔ حضور ﷺ نے تکبر فتح کہی اور مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ حضور ﷺ نے پھر پتھر پر ایک ضرب لگائی ‘ پھر سلمان کا ہاتھ پکڑ کر اوپر چڑھ آئے۔ سلمان نے عرض کیا : یا رسول اللہ میرے ماں باپ قربان ! میں نے (آج) ایک بات دیکھی جو کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حضور اقدس ﷺ نے لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا : تم نے دیکھا سلمان کیا کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں (صحیح کہہ رہے ہیں) فرمایا : میں نے پہلی ضرب جو ماری تھی اور تم نے اس سے بجلی پیدا ہوتی دیکھی تھی ‘ اس کی روشنی میں حیرہ (یعنی شاہان عراق جن کی تخت گاہ حیرہ تھی) کے محلات اور (کسریٰ کی تخت گاہ) مدائن میرے سامنے آگئے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کتوں کے نوکیلے دانت ہیں۔ جبرئیل نے مجھے بتایا کہ میری امت وہاں (یعنی حیرہ اور مدائن) تک غالب آئے گی ‘ پھر میں نے دوسری ضرب لگائی جس سے بجلی کوندتی تم نے دیکھی ‘ اس کی چمک میں میں نے رومی سرخوں کے محلات دیکھ لئے جیسے کتوں کے نوکیلے دانت ‘ اور جبرئیل نے مجھے بتایا کہ میری امت ان محلات پر قابض ہوجائے گی۔ تم کو اس کی خوشخبری ہو۔ یہ کلام سن کر مسلمانوں کے چہرے کھل گئے اور سب نے کہا : ہر ستائش اسی اللہ کیلئے ہے جس کا وعدہ سچا ہے۔ اس نے محصور ہونے کے بعد ہم سے فتح کا وعدہ فرمایا۔ منافق کہنے لگے : کیا تمہارے لئے یہ بات اچنبھے کی نہیں ہے کہ محمد ﷺ تم کو آرزو مند کر رہے ہیں ‘ تم سے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں اور تم کو خبر دے رہے ہیں کہ یثرب سے حیرہ کے محلات اور کسریٰ کا مدائن ان کو دکھائی دے رہے ہیں اور ان سب پر تمہارا قبضہ ہوگا۔ تمہارے اندر اتنی طاقت تو ہے نہیں کہ میدان میں نکلو ‘ ڈر کے مارے خندق کھود رہے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ اس پر آیت وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہ وَرَسُوْلُہٗٓ الاَّ غُرُوْرًانازل ہوئی اور اسی واقعہ کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایا : قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ الخ۔ 123 بخاری نے صحیح میں حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ خندق کی طرف تشریف لے گئے۔ صبح سردی تھی ‘ مہاجرین اور انصار خود خندق کھود رہے تھے۔ غلام ‘ خادم ان کے پاس یہ کام کرنے کیلئے نہیں تھے۔ حضور ﷺ نے ان کی بھوک اور تھکن کو ملاحظہ کیا تو فرمایا : اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ فَاغْْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ درحقیقت زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ‘ اے اللہ ! انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔ صحابہ نے اس (شعر) کے جواب میں کہا : نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا ہم تو وہی ہیں جنہوں نے محمد ؛ کے ہاتھ پر ہمیشہ کیلئے ‘ جب تک زندہ ہیں ‘ جہاد کرنے کی بیعت کی ہے۔ صحیح میں آیا ہے کہ حضرت براء بن عازب نے فرمایا : جنگ احزاب کا زمانہ آیا اور رسول اللہ نے خندق کھدوائی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ خود خندق کی مٹی نکال رہے ہیں اور غبار کی وجہ سے شکم مبارک کی جلد گرد آلود ہو کر چھپ گئی ہے۔ حضور ﷺ کے پیٹ پر بہت بال تھے۔ آپ ﷺ مٹی ڈھونے میں ابن رواحہ کے یہ شعر بطور رجز کے پڑھ رہے تھے اور شعر کے قافیہ پر آواز کو کھینچتے تھے (یعنی کھینچ کر ادا کرتے تھے): اَللّٰھُمَّ لَوْ اَنْتَ مَا اھْتَدَیَنا وَلا تَصَدَّقْنَا وَلا صَلَّیْنَا اے اللہ ! اگر تیری توفیق نہ ہوتی تو ہم ہدایت یاب نہ ہوتے ‘ نہ زکوٰۃ دیتے ‘ نہ نماز پڑھتے۔ فَاَنْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا وَثبِّتِ الْاَقَدَامَ اِنْ لاَ قَیْنَا ہم پر طمانیت خاطر نازل فرما اور مقابلہ کے وقت ہمارے قدم جمائے رکھ۔ اِنَّ الْاُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَۃً اَبِیْنَا انہی لوگوں نے ہم پر زیادتی کی ہے ‘ جب انہوں نے فساد برپا کرنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انکار کردیا۔ دوسری روایت میں پہلا مصرع اس طرح آیا ہے : وَ اللہ ِ لَوْ لاَ اللہ مَا اھْتَدَیْنَا روایت میں آیا ہے کہ حضرت سلمان قوی آدمی تھے ‘ خندق میں دس آدمیوں کے برابر کام کرتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ تنہا پانچ ہاتھ گہری اور پانچ ہاتھ لمبی چوڑی خندق روز کھودتے تھے۔ قیس بن ابی صعصعہ کی نظر آپ کو لگ گئی ‘ فوراً بےہوش کر گرگئے۔ رسول اللہ نے قیس کو حکم دیا کہ کسی برتن میں وضو کرو اور اس پانی سے سلمان کو غسل دو ‘ پھر اس برتن کو اپنی پشت کی طرف اوندھا کر کے پھینک دو ۔ حکم کی تعمیل کی گئی اور حضرت سلمان اچھے ہوگئے۔ بخاری نے صحیح میں نیز امام احمد نے بیان کیا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے فرمایا : ہم خندق کے دن رسول اللہ کے ساتھ تھے۔ خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت پتھر آگیا۔ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : پہاڑ کا یہ سخت پتھر سامنے آگیا (اب کیا کیا جائے) فرمایا : میں خود اندر اتروں گا۔ یہ فرماتے ہی کھڑے ہوگئے۔ اس وقت فاقہ کے سبب حضور ﷺ کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا ‘ تین روز سے ہم کو بھی کوئی چیز چکھنے تک کو نہیں ملی تھی۔ حضور ﷺ نے کدال ہاتھ میں لے کر پتھر پر ضرب لگائی ‘ پتھر ریزہ ریزہ ریگ رواں کی طرح ہوگیا۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے گھر جانے کی اجازت عطا فرما دیجئے۔ اجازت لے کر میں گھر پہنچا اور اپنی بیوی سے کہا : میں نے رسول اللہ کو سخت بھوک کی حالت میں دیکھا ہے ‘ مجھ سے یہ دیکھ کر صبر نہ ہوسکا ‘ کیا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ بیوی ایک تھیلا نکال کر لائی جس میں چار سیر جو تھے۔ ہمارا ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ بھی تھا ‘ میں نے اس کو ذبح کیا اور بیوی نے آٹا گوندھا۔ جتنی دیر میں میں فارغ ہوا ‘ وہ بھی فارغ ہوگئی۔ پھر میں نے گوشت کے ٹکڑے کر کے ہانڈی میں ڈالے ‘ اتنے میں گوندھا ہوا آٹا لس پر کا ٹھیک ہوگیا۔ گوشت کی ہانڈی پتھروں کے چولہے پر چڑھا دی۔ جب ہانڈی پک چکنے کے قریب ہوگئی تو میں لوٹ کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بیوی نے مجھ سے کہہ دیا کہ (زیادہ آدمیوں کو لا کر) مجھے رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا۔ خدمت گرامی میں پہنچ کر میں نے چپکے سے حضور ﷺ سے واقعہ عرض کردیا اور کہہ دیا : یا رسول اللہ ﷺ ! بہت تھوڑا کھانا ہے۔ حضور ﷺ تشریف لے چلیں اور ایک یا دو آدمی اور بھی ساتھ لے لیں۔ فرمایا : کتنا کھانا ہے ؟ میں نے بتادی۔ فرمایا : بہت ہے ‘ پاکیزہ ہے۔ تم بیوی سے کہہ دو کہ جب تک میں نہ پہنچ جاؤں ‘ ہانڈی چولہے سے نہ اتارے اور روٹی تنور سے نہ نکالے (یعنی نہ پکائے) پھر آواز دے کر فرمایا : خندق والو ! جابر نے تمہارے لئے کھانا تیار کیا ہے اور تمہاری دعوت کی ہے ‘ جلدی چلو۔ میں نے اپنی بیوی سے جا کر کہا : اری ! رسول اللہ مہاجرین و انصار اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو لے کر آ رہے ہیں (اب کیا ہوگا ؟ ) بیوی نے کہا : اللہ کا حکم تمہارے متعلق یہی ہے۔ کیا رسول اللہ نے تم سے (کھانے کی مقدار بھی) دریافت کی تھی ؟ میں نے کہا : ہاں۔ بیوی نے کہا : تو اللہ اور رسول (ہماری حالت کو) خوب جانتے ہیں۔ غرض رسول اللہ گھر میں تشریف لے آئے اور صحابہ سے فرمایا : تم بھی اندر آجاؤ ‘ لیکن بھیڑ نہ کرنا ‘ کسی کو نہ دبانا۔ میں نے گوندھا ہوا آٹا لا کر رکھ دیا ‘ آپ نے اس میں تھوتھو کردیا اور برکت کی دعا کی ‘ پھر ہانڈی کے پاس گئے اس میں تھوتھو کردیا اور برکت کی دعا کی۔ پھر فرمایا : جابر ! پکانے والی کو بلاؤ ‘ وہ آکر پکانا شروع کر دے ‘ اور تم ہانڈی سے سالن نکالو لیکن ہانڈی کو نیچے نہ اتارنا۔ حضور ﷺ خود روٹی کے ٹکڑے کرنے لگے اور روٹی پر گوشت رکھنے لگے ‘ مگر اس مدت میں ہانڈی کو اور چولہے کو ڈھانکے رکھا۔ نکالتے جاتے تھے اور صحابہ کی طرف بڑھاتے جاتے تھے ‘ پھر نکالتے تھے اور صحابہ کو دیتے تھے ‘ یہاں تک کہ ایک ہزار آدمی تھے ‘ سب سیر ہوگئے۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سب نے اتنا کھایا کہ کھاتے کھاتے چھوڑ دیا اور رخ موڑ کر چل دئیے لیکن ہانڈی میں ویسا ہی ابال آتا رہا جیسا آ رہا تھا اور روٹی بھی برابر پکتی ہی رہی۔ پھر حضور ﷺ نے عورت سے فرمایا : اب تو بھی کھالے اور دوسرے لوگوں کو بھی بھیج دے ‘ لوگ سخت بھوکے ہیں۔ چناچہ ہم کھانے لگے اور دن بھر دوسروں کو بھی بھیجتے رہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح روایت میں آیا ہے کہ خندق کھودنے سے صحابہ چھ روز میں فارغ ہوئے تھے۔ بغوی نے (اس کے بعد) لکھا ہے کہ اب ہم پھر ابن اسحاق کے بیان کی طرف لوٹتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ خندق (کی تکمیل) سے فارغ ہوچکے تھے کہ قریش اپنے احابیش اور دوسرے اہل تہامہ کو ساتھ لے کر دس ہزار کی تعداد میں آکر مجتمع الاسبال میں فروکش ہوگئے اور بنی غطفان اپنے نجدی ساتھیوں کے ساتھ کوہ احد کے ایک جانب نقمی کے پیچھے حصہ میں اترے۔ رسول اللہ ﷺ بھی تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ برآمد ہوئے اور کوہ سلع کو اپنی پشت پر لے کر حضور ﷺ نے اپنی لشکر گاہ بنائی ‘ خندق آپ کے اور دشمنوں کے درمیان حائل تھی۔ مسلمانوں نے حسب الحکم بچوں اور عورتوں کو پہاڑ کے اوپر پہنچا دیا۔ دشمن خدا حیی بن اخطب نضیری اپنے مقام سے اٹھا اور کعب بن اسد قرظی کی طرف چل دیا۔ کعب نے بنی قریظہ کی طرف سے اپنی قوم کیلئے رسول اللہ سے (امن کا) معاہدہ کرلیا تھا اور مصالحت کرلی تھی ‘ اس لئے حیی کیلئے اس نے اپنی گڑھی کا دروازہ نہیں کھولا ‘ کھولنے سے صاف انکار کردیا۔ حیی نے ہرچند دروازہ کھلوانے کی استدعا کی لیکن کعب ہرگز نہ مانا اور کہنے لگا : حیی ! یہ بڑی بدبختی ہے۔ میں محمد ﷺ سے معاہدہ کرچکا ہوں اور اپنا معاہدہ ہرگز نہیں توڑوں گا۔ محمد ﷺ کی طرف سے میں ہے ہمیشہ عہد کی پابندی اور سچائی ہی پائی ہے ‘ اس لئے میں بھی نقض عہد کرنے والا نہیں۔ حیی نے کہا : درواز تو کھولو ‘ میں تم سے بات کروں گا۔ کعب نے کہا : میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ حیی نے کہا : کعب ! تم مجھے باہر چھوڑ کر دروازہ بند کئے بیٹھے ہو ‘ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم کو اندیشہ ہے کہ اگر میں اندر آجاؤں گا تو تمہارے ساتھ حصہ بانٹ کرلوں گا۔ کعب کو یہ بات سن کر غصہ آگیا اور (جوش میں آ کر) دروازہ کھول دیا۔ حیی اندر آگیا اور کہا : کعب ! میں زمانہ بھر کی عزت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں ‘ لہریں مارتا ہوا ایک سمندر چڑھا لایا ہوں۔ میں نے قریش کو ان کے کمانڈروں اور سرداروں اور سپہ سالاروں کے ساتھ لا کر دومۃ الجندل کے مقام مجتمع الاسبال میں اتار دیا ہے اور بنی غطفان کو ان کے سرداروں اور سپہ سالاروں کے ساتھ لا کر کوہ احد کے ایک پہلو پر نقمی کے پچھلے حصہ میں شام کو پڑاؤ ڈلوا دیا ہے۔ ان سب نے مجھ سے معاہدہ اور پختہ وعدہ کرلیا کہ جب تک محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ کر نہ پھینک دیں گے ‘ یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ کعب بن اسد نے کہا : خدا کی قسم ! تم ابدی ذلت لے کر آئے۔ یہ ایک ایسا بادل ہے جس کا پانی برس چکا ہے ‘ اب اس میں سوائے گرج اور چمک کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ تم محمد ﷺ کے سلسلہ میں مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ میں نے محمد ﷺ کی طرف سے سوائے سچ اور پابندی عہد کے کبھی غداری نہیں دیکھی۔ حیی بن اخطب کعب کو برابر اتارچڑھاؤ اور فریب دیتا رہا ‘ یہاں تک کہ حیی نے کعب کے سامنے اللہ کی پختہ قسم کھائی کہ اگر قریش محمد ﷺ پر کامیابی حاصل کئے بغیر واپس چلے گئے تو تمہاری اس گڑھی کے اندر میں بھی آ بسوں گا تاکہ جو دکھ تم کو پہنچے ‘ اس میں تمہارا شریک رہوں۔ آخر کعب نے رسول اللہ سے کیا ہو امعاہدہ توڑ دیا اور پابندی عہد جو اس پر لازم تھی ‘ اس سے الگ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اور مسلمانوں کو جب یہ اطلاع ملی تو حضور ﷺ نے سعد بن معاذ اشہلی سردار اوس اور سعد بن عبادہ ساعدی سردار خزرج اور عبد اللہ بن رواحہ خزرجی اور خوات بن جبیر عمری کو تحقیق واقعہ کیلئے بھیجا اور فرمایا : تم لوگ جا کر دیکھو کہ ان لوگوں کے متعلق جو اطلاع مجھے ملی ہے ‘ کیا وہ صحیح ہے ؟ اگر خبر صحیح ہو تو آکر ایسے الفاظ میں مجھے اطلاع دینا کہ میں سمجھ جاؤ (ایسا نہ کرنا کہ عام لوگوں کے سامنے اعلان کر دو جس سے ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوجائے اور) لوگوں کے بازو نہ توڑ دینا اور اگر وہ ہم سے کئے ہوئے سابق معاہدہ پر قائم ہوں تو پھر علی الاعلان لوگوں کے سامنے اس کو بیان کرسکتے ہو۔ مذکورہ بالا حضرت حسب الحکم گئے ‘ یہودیوں کے پاس پہنچے اور جو خبر ان کے متعلق ملی تھی ‘ اس سے زیادہ بگڑی ہوی حالت پر ان کو پایا۔ رسول اللہ کی طرف سے وہ بالکل ہی برگشتہ ہوگئے تھے اور صاف کہہ دیا تھا کہ اب ہمارا اور محمد ﷺ کا کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت سعد بن عبادہ کے مزاج میں تیزی تھی ‘ آپ نے یہودیوں کو برابھلا کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ نے کہا : سعد بن عبادہ ! ان سے گالی گلوچ چھوڑ دو ‘ ہمارا ان کا معاملہ اب اس سے بہت آگے بھ چکا ہے۔ اس کے بعد دونوں سعد اور ان کے ساتھی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کے بعد عرض کیا : لاعلاج مرض ہے ‘ اور رسول اللہ کے صحابہ کے ساتھ غداری بہت سخت ہے ‘ اللہ اکبر۔ اے گروہ اہل اسلام ! تم کو بشارت ہو۔ غرض (صحابہ کیلئے) سخت مصیبت آپڑی اور سخت خوف کا وقت آگیا۔ دشمنوں نے اوپر (گڑھی کی طرف) سے اور نیچے (خندق کے پار کفار) کی طرف سے گھیر لیا۔ مسلمانوں کے دلوں میں برے برے خیالات آنے لگے۔ بعض منافقوں کی طرف سے تو اس کا ظہور بھی ہوگیا ‘ یہاں تک کہ معتب بن قشیر عمری نے یہ الفاظ کہہ دیئے کہ محمد ﷺ ہم سے تو وعدہ کر رہے ہیں کہ تم کسریٰ اور قیصر کے خزانے کھاؤ گے لیکن ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص رفع ضرورت کیلئے جنگل کو بھی نہیں جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ محض فریب ہے۔ اوس بن قبطی (منافق) نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے گھروں میں کوئی نگران نہیں اور گھر شہر کے باہر ہیں ‘ آپ ہم کو اجازت دے دیجئے کہ واپس گھروں کو چلے جائیں (اس شخص نے یہ بات غلط کہی تھی) ان لوگوں کے گھروں کی نگہبان انہی کے قبیلہ کے مردوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ میں کہتا ہوں : کعب نے جب رسول اللہ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور (نقض عہد پر قائم رہنے کا) پختہ ارادہ کرلیا تو اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا ‘ جن میں زبیر بن بلطا ‘ نباش بن قیس اور عقبہ بن زید وغیرہ شامل تھے اور سب کو نقض عہد کی اطلاع دی۔ یہ خبر سنتے ہی لوگوں نے اس کو سخت ملامت کی اور عہدشکنی کو پسند نہیں کیا۔ اس وقت کعب اپنی حرکت پر پشمان ہوا ‘ لیکن اس وقت پشیمانی سے کوئی فائدہ نہ تھا ‘ اس کے ہاتھ سے باگ دوڑ نکل چکی تھی۔ اللہ نے اسی سبب سے بنی قریظہ کو تباہ کردینا چاہا۔ شیخین نے صحیحین میں بیان کیا ہے کہ حضرت زبیر بن العوام نے فرمایا کہ رسول اللہ نے (ایک روز) ارشاد فرمایا : کوئی شخص ہے جو جا کر بنی قریظہ کی خبر مجھے لا دے۔ ارشاد گرامی سن کر میں روانہ ہوگیا اور واپس لوٹ کر بنی قریظہ کی خبریں حضور ﷺ کو پہنچائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تجھ پر میرے ماں باپ قربان۔ حضور ﷺ نے اس کلام میں اپنے ماں اور باپ دونوں لفظ فرمائے۔ میں کہتا ہوں : حضرت زبیر کا بنی قریظہ کی طرف جانا ‘ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کے واپس آجانے کے بعد ہوا تھا (یعنی پہلے خبر کی تحقیقات کیلئے حضرت سعد وغیرہ کو بھیجا گیا ‘ جب وہ تحقیق خبر کے بعد واپس آگئے تو حضرت زبیر کو بنی قریظہ کی تیاری کی کیفیت معلوم کرنے کیلئے روانہ کیا گیا) روایت میں آیا ہے کہ حضرت زبیر جب بنی قریظہ کی طرف سے واپس آکر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اطلاع دی کہ وہ لوگ قلعوں کو درست کر رہے ہیں ‘ راستے اور سرحدیں بند کر رہے ہیں ‘ چوپایوں کو گڑھیوں کے اندر جمع کر رہے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرا حواری (مخلص دوست) زبیر ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ کچھ اوپر بیس روز رسول اللہ اپنی فرودگاہ میں اور مشرک اپنے پڑاؤ پر قائم رہے۔ کوئی لڑائی نہیں ہوئی ‘ سوائے تیر یا پتھر پھینکنے کے کسی طرف سے کچھ نہیں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب تکلیف زیادہ ہوئی تو آپ نے بنی غطفان کے دو سرداروں یعنی عیینہ بن حصین اور ابو الحارث بن عمرو کو (پیام صلح دے کر) بلوایا اور ان سے فرمایا : تم اپنے (غطفانی) ساتھیوں کو لے کر اس شرط پر واپس چلے جاؤ کہ تم کو مدینہ کے نخلستانوں کی کل پیداوار (یعنی کھجوروں) کا ایک تہائی حصہ دے دیا جائے گا۔ وہ لوگ اس پر راضی ہوگئے۔ تحریر لکھ دی گئی لیکن ابھی دستخط ہونا باقی تھے کہ حضور ﷺ نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سے اس کا تذکرہ کیا اور مشورہ طلب کیا۔ دونوں نے جواب دیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ایسا کرنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے (اگر ایسا ہے) تو اس کی تعمیل ہم پر واجب ہے ‘ یا آپ نے خود یہ تدبیر مناسب سمجھی ہے اور آپ اس کو پسند کرتے ہیں (تب بھی ہمارے لئے مجبوری ہے) یا حضور ﷺ نے ہمارے فائدے کیلئے ایسا کرنا چاہا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اور کوئی وجہ نہیں ‘ صرف تمہارے فائدے کیلئے میں نے ایسا ارادہ کیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ سارے عرب تمہارے خلاف ہوگئے اور ایک کمان سے سب تیر پھینکنا چاہتے ہیں اور ہر طرف سے وہ تم پر بھڑک اٹھے ہیں تو میں نے ارادہ کیا کہ تمہارے خلاف ان کی اجتماعی طاقت کو توڑ دوں۔ حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ایکوقت تھا کہ ہم اور یہ لوگ سب بت پرست اور مشرک تھے ‘ نہ ہم اللہ کو جانتے تھے نہ اس کی پرستش کرتے تھے۔ اس زمانہ میں ان لوگوں میں یہ طاقت نہ تھی کہ ہمارا ایک چھوارا بھی بغیر خریدے یا بدون مہمانی کے کھا سکیں۔ اب جبکہ اللہ نے ہم کو اسلام کی وجہ سے عزت عطا فرما دی اور آپ کی ذات مبارک کے سبب ہماری عزت افزائی کردی تو کیا ہم ان کو اپنا مال (مفت) دے دیں ؟ ہمیں ایسے معاہدے کی ضرورت نہیں۔ بخدا ! ہم ان کو تلوار کے سوا اور کچھ نہیں دیں گے ‘ یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان (آخری) فیصلہ فرما دے۔ حضور اکرم ﷺ نے یہ تقریر سن کر فرمایا : تم کو اختیار ہے (ایسا ہی کرو) حضرت سعد نے کاغذ لے کر تحریر مٹا دی اور کہا : اب یہ ہمارے خلاف جو کوشش کرسکتے ہیں ‘ کریں۔ میں کہتا ہوں : بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ بات اول حضرت اسید بن حضیر نے کہی تھی ‘ پھر حضرت سعد بن عبادہ نے بھی یہی کہا۔ عیینہ بن حصین اس وقت مجلس میں ٹانگ پھیلائے بیٹھا تھا۔ حضرت سعد نے اس سے فرمایا : او بندر ! اپنی ٹانگ سمیٹ لے۔ اگر رسول اللہ کی مجلس کا وقار مانع نہ ہوتا تو میں برچھا تیری کوکھ میں پیوست کردیتا۔ غرض عیینہ اور حارث دونوں ناکام واپس چلے گئے اور سمجھ گئے کہ ان کا تسلط مدینہ پر نہیں ہوسکتا۔ انصار کی قوت اور جرأت دیکھ کر ان کے قدم ڈگمگانے لگے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ دشمن ‘ رسول اللہ کا محاصرہ کئے پڑے رہے ‘ کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ صرف قریش کے چند شہسوار جن میں عمرو بن عبدود عامری ‘ عکرمہ بن ابی جہل مخزومی ‘ ہبیرہ بن وہب مخزومی ‘ نوفل بن عبدا اللہ ‘ ضرار بن خطاب اور مرداس بن لوی محاربی شامل تھے ‘ گھوڑوں پر سوار ہو کر بنی کنانہ کی طرف سے گذرے اور ان سے کہا : لڑائی کیلئے تیار ہوجاؤ ‘ آج تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کون شہسوار ہے۔ پھر خندق کی طرف رخ موڑا اور خندق کو دیکھ کر بولے : خدا کی قسم ! یہ تدبیر ایسی ہے جس کو عرب (پہلے) نہیں کرتے تھے۔ اس کے بعد خندق میں ایک تنگ جگہ تلاش کر کے اس میں گھوڑوں کو داخل کردیا ‘ گھوڑے ان کو لے کر خندق اور کون سلع کے درمیان گڑھے میں گردش کرنے لگے۔ حضرت علی نے جو یہ بات دیکھی تو کچھ مسلمانوں کو ساتھ لے کر اس سرحدی مقام پر جا پہنچے جہاں سے دشمن نے اپنے سواروں کو داخل کیا تھا۔ وہ سوار بھی تیزی کے ساتھ ان کے سامنے آگئے۔ حضرت علی نے اس مقام کو بند کردیا۔ عمرو بن عبدود بدر کی لڑائی میں شریک اور زخمی ہوگیا تھا ‘ اس لئے جنگ احد میں شریک نہ تھا۔ جب خندق کا واقعہ ہوا تو اپنی اہمیت جتلانے کیلئے وہ بھی ساتھیوں کو ٹریننگ دینے کی غرض سے ساتھ آگیا۔ حضرت علی کے مقابلہ پر جب وہ خود دوسرے سواروں کے ساتھ مل کر آکھڑا ہوا تو حضرت علی نے ا سے فرمایا : عمرو ! تو نے اللہ کو گواہ کر کے کہا تھا کہ جب کوئی قریشی تیرے سامنے کوئی سی دو باتیں (ایک مثبت ‘ دوسری منفی) رکھے گا تو دونوں میں سے ایک بات کو تو اختیار کرلے گا۔ عمرو نے کہا : بیشک یہی بات ہے۔ حضرت علی نے فرمایا : تو میں تجھے اللہ ‘ اللہ کے رسول اور اسلام کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمروکہنے لگا : اس کی مجھے ضرورت نہیں۔ حضرت علی نے فرمایا : تو پھر میں تجھے میدان میں اترنے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو بولا : بھتیجے ! ایسا کیوں کرتے ہو ؟ خدا کی قسم ! میں تم کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت علی نے فرمایا : بخدا ! میں تو تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سنتے ہی عمرو گرما گیا اور گھوڑے سے اتر کر اس کی ٹانگوں کو زخمی کردیا ‘ یا اس کے منہ پر ایک ضرب رسید کی ‘ پھر حضرت علی کی طرف چل پڑا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی پکڑ کی اور کشتی لڑنے لگے۔ آخر حضرت علی نے اس کو قتل کردیا۔ دوسرے سوار شکست کھا کر خندق میں گھس کر بھاگ گئے۔ اس روز عمرو کے دو سپاہی بھی مارے گئے ‘ منبہ بن عثمان بن عبدالسیاق بن عبدالدار کے ایک تیر لگ گیا تھا جس سے مکہ میں پہنچ کر اس کا انتقال ہوگیا اور نوفل بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی خندق کے اندر گھس کر جب درمیان میں پہنچا تو مسلمانوں نے اس پر سنگ باری کی۔ کہنے لگا : اے گروہ عرب ! (لڑائی کا یہ کیا طریقہ ہے) جنگ کا طریقہ اس سے بہتر ہونا چاہئے (یعنی دوبدو لڑائی ہونی چاہئے) فوراً حضرت علی میدان میں اتر پڑے اور عبد اللہ کو قتل کردیا ‘ اور مسلمان غالب آگئے۔ کافروں نے رسول اللہ سے درخواست کی کہ مقتول کی لاش ہم کو بقیمت واپس دے دیجئے۔ فرمایا : ہم کو نہ اس کی لاش درکار ہے نہ قیمت کی ضرورت ‘ لاش کو لے جاؤ۔ چناچہ آپ نے لاش لے جانے کی اجازت دے دی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ خندق کی لڑائی کے دن ہم بنی حارثہ کی گڑھی میں تھے ‘ مدینہ کے قلعوں میں یہ سب سے محفوظ قلعہ تھا۔ سعد بن معاذ بھی ہمارے ساتھ گڑھی کے اندر تھے ‘ یہ واقعہ پردہ کا حکم نافذ ہونے سے پہلے کا ہے۔ سعد بن معاذ ایک چھوٹی زرہ پہنے ہوئے قلعہ سے باہر نکلے ‘ ہاتھ کہ بانہہ کھلی ہوئی تھی ‘ ہاتھ میں چھوٹا برچھا تھا اور یہ شعر پڑھ رہے تھے : کاش ! لڑائی کو میرا اونٹ پا لیتا ‘ جب موت کا مقرر وقت آجائے تو مرنے میں کوئی باک نہیں۔ سعد کی ماں نے کہا : بیٹے ! بہت جلد (رسول اللہ ﷺ تک جا پہنچ۔ بخدا ! تو نے بہت دیر کردی (تو پیچھے رہ گیا) میں نے کہا : سعد کی اماں ! سعد جو زرہ پہنے ہیں ‘ میں چاہتی ہوں کہ اس سے بڑی زرہ ان کے بدن پر ہو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان کے (برہنہ حصہ پر) کوئی تیر نہ آ لگے۔ سعد کی ماں نے کہا : اللہ کا جو حکم ہوگا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ (آخر) سعد کے ایک تیر لگ گیا جس سے اکحل رگ کٹ گئی۔ یہ تیر حیان بن قیس غرفہ عامری نے مارا تھا۔ سعد نے (ابن غرفہ کو بددعا دی کہ) اللہ تجھے دوزخ میں درد رسیدہ کرے ‘ پھر کہا : اے اللہ ! اگر تو نے قریش سے لڑائی آئندہ باقی رکھی ہو تو مجھے اس میں شریک ہونے کیلئے باقی رکھ ‘ کیونکہ کسی قوم سے لڑنے کی مجھے اتنی خواہش نہیں جتنی اس قوم سے لڑنے کی ہے جس نے تیرے رسول کو ستایا اور جھٹلایا اور (وطن سے نکالا ‘ اور اگر تو نے ہماری اور قریش کی لڑائی ختم کردی ہو تو اسی (زخم) کو میرے لئے سبب شہادت بنا دے۔ لیکن جب تک میری آنکھیں بنی قریظہ (کی تباہی) کو دیکھ کر ٹھنڈی نہیں ہوجاتیں ‘ مجھے موت سے محفوظ رکھ۔ دور جاہلیت میں حضرت سعد بن معاذ اور بنی قریظہ باہم حلیف اور معاہد تھے۔ مجاہد اور محمد بن اسحاق نے بحوالہ یحییٰ بن عباد بن عبد اللہ بن زبیر ‘ عباد کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب نے فرمایا : ہم حسان بن ثابت کی گڑھی میں تھیں ‘ حسان بھی عورتوں اور بچوں کے ساتھ موجود تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک یہودی گڑھی کے آس پاس چکر لگا رہا ہے ‘ اس وقت بنی قریظہ کی رسول اللہ سے جنگ تھی (معاہدہ ٹوٹ چکا تھا) بنی قریظہ کے اور ہمارے درمیان کوئی محاظ موجود نہ تھا کہ یہودیوں کی ہماری طرف سے مدافعت کرسکتا ‘ کیونکہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کافروں کے مقابلہ میں مشغول جنگ تھے ‘ دشمن کی طرف سے منہ موڑ کر ہماری طرف متوجہ نہیں ہوسکتے تھے۔ ایسی حالت میں وہ یہودی (گھومتا اور ٹوہ لیتا) نظر آیا تھا۔ میں نے حسان سے کہا : حسان ! تم دیکھ رہے ہو کہ یہ یہودی گڑھی کے آس پاس چکر لگا رہا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ شخص کسی غیر محفوظ جگہ سے یہودیوں کو اندر لے آئے گا۔ رسول اللہ اور صحابہ مشغول مقابل ہیں (یہاں پہنچ کر ہماری مدد نہیں کرسکتے) تم گڑھی سے اتر کر جاؤ اور اس کو قتل کر دو ۔ حسان نے کہا : اے بنت عبدالمطلب ! اللہ آپ کی مغفرت کرے ‘ آپ تو واقف ہی ہیں کہ بخدا میں ایسا کرنے کا اہل نہیں ہوں۔ جب میں نے حسان کا یہ جواب سن لیا اور سمجھ گئی کہ حسان کے اندر یہودی کو قتل کرنے کی بالکل جرأت نہیں ہے تو میں نے خود تہبند کسی اور خیمہ کی ایک ٹیکی لے کر گڑھی سے نکلی اور اس کی گردن پر ایسی ماری کہ وہ مرگیا۔ قتل کر کے گڑھی میں لوٹی تو میں نے حسان سے کہا : اب تم جا کر اس کے کپڑے اور ہتھیار اتار لو۔ یہ اجنبی مرد ہے اس لئے میں خود ایسا نہیں کرسکتی۔ حسان نے کہا : بنت عبدالمطلب ! مجھے اس کے سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : بعض روایات میں آیا ہے کہ بنی قریظہ نے مدینہ پر شب خون مارنا چاہا تھا اور قریش سے اس کام کیلئے مدد کی خواہش کی تھی۔ رسول اللہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے سلمہ بن اسلم کی سیادت میں دو سو آدمیوں کو اور زید بن حارثہ کی قیادت میں تین سو آدمیوں کو مقرر کردیا کہ مدینہ کے (مختلف) مقامات اور گڑھیوں کی حفاظت رکھیں۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ عباد بن بشیر اپنے ساتھیوں کو لے کر ہر رات رسول اللہ کے خیمہ کی چوکیداری کرتے تھے۔ مشرک چاہتے تھے کہ خندق کے پار آجائیں اور مسلمان سنگ باری کر کے اور تیر مار مار کر ان کو روک رہے تھے ‘ اور رسول اللہ خود بنفس نفیس بھی نگرانی رکھتے تھے۔ مسلم و بخاری نے صحیحین میں بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : رسول اللہ جب مدینہ میں تشریف لائے تو ایک رات کو بیدار رہے اور فرمایا : کاش ! کوئی نیک مرد ایسا ہوتا جو میری چوکیداری کرتا۔ اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی ‘ حضور ﷺ نے فرمایا : کون ہے ؟ جواب ملا : سعد ہے۔ فرمایا : کیوں آئے ہو ؟ سعد نے کہا : میرے دل میں رسول اللہ کے متعلق ایک اندیشہ پیدا ہوا اس لئے حضور ﷺ کی چوکیداری کیلئے فوراً حاضر ہوگیا۔ رسول اللہ نے سعد کو دعا دی ‘ پھر سو گئے۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : خندق کے زمانہ میں جس روز سے سعد نے رسول اللہ کی چوکیداری کرنی شروع کی تھی جب ہی سے مجھے سعد سے محبت ہوگئی تھی۔ خندق میں ایک مقام ایسا تھا جہاں سے کافروں کے عبور کر آنے کا اندیشہ تھا۔ رسول اللہ خود اس جگہ کی نگرانی کرتے تھے اور جب سخت سردی محسوس ہونے لگتی تو میرے پاس آجاتے اور مجھ سے (مل کر) گرمی حاصل کرتے ‘ پھر چلے جاتے اور نگرانی کرنے لگتے تھے ‘ اور فرماتے تھے : مجھے صرف اس جگہ سے لشکر (کے گھس آنے) کا اندیشہ ہے۔ ایک بار جو میرے پاس سردی سے سکون حاصل کرنے کیلئے آئے تو فرمایا : کاش ! کوئی نیک مرد ایسا ہوتا جو آج رات میری چوکیداری کرتا کہ میں سو جاتا۔ اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی ‘ حضور ﷺ نے فرمایا : کون ہے ؟ جواب ملا : سعد۔ پھر سعد نے کہا : ہم (لوگ) اس جگہ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر حضور ﷺ سو گئے ‘ یہاں تک کہ میں نے آپ کی سانس کی آواز سن لی (یعنی خراٹے لینے لگے) ۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top