Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 51
لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
لَوْ : اگر اَرَادَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ بنائے وَلَدًا : اولاد لَّاصْطَفٰى : البتہ وہ چن لیتا مِمَّا : اس سے جو يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۙ : وہ پیدا کرتا ہے (مخلوق) جسے وہ چاہتا ہے سُبْحٰنَهٗ ۭ : وہ پاک ہے هُوَ اللّٰهُ : وہی اللہ الْوَاحِدُ : واحد (یکتا) الْقَهَّارُ : زبردست
اگر خدا کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا انتخاب کرلیتا۔ وہ پاک ہے وہی تو خدا یکتا (اور) غالب ہے
لو اراد اللہ ان یتخذ ولدا لا صطفے مما یخلق ما یشاء سبحنہ ھو اللہ الواحد القھار اگر (بالفرض) اللہ کسی کو اپنی اولاد بنانے کا ارادہ کرتا تو ضرور اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا ‘ منتخب فرماتا (مگر) وہ پاک ہے۔ وہ ایسا اللہ ہے جو واحد ہے ‘ زبردست ہے۔ یعنی اللہ اگر اولاد بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کرلیتا ‘ کیونکہ جو چیز موجود ہے وہ اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ دو واجبوں کا وجود محال ہے ‘ یہ بات دلائل سے ثابت ہے اور ہر موجود کا موجد وہی ہے ‘ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور مخلوق خالق کی مثل نہیں ہوسکتی کہ خالق کی اولاد کے قائم مقام ہو سکے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اگر اللہ کسی کو اپنی مخلوق بنانا چاہتا تو اس کو اولاد بناتا جو اپنی مشیت کے مطابق تخلیق کرسکتی اور اللہ کے سوا کسی اور کا خالق ہونا ناممکن ہے ‘ اللہ متعدد نہیں ہوسکتے۔ اس صورت میں یہ آیت نفی ارادۂ ولد کی دلیل ہوجائے گی۔ سُبْحَانَہٗ یعنی اللہ اس بات سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو۔ ھُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ یعنی الوہیت تو وجوب پر منبی ہے (جب کوئی دوسرا واجب نہیں ‘ ہر موجود مخلوق ہے اور ہر مخلوق ممکن ہے) تو اِلٰہ اپنی ذات وصفات میں واحد ہو ‘ نہ اس کا کوئی مثل ہو نہ شریک ‘ اور جب اس کی مثل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا تو اس کی اولاد ہونا کس طرح ممکن ہے۔ اولاد تو باپ کے بعض اجزاء سے بنتی ہے ‘ اسلئے اپنے والد کی ہم جنس ہوتی ہے۔ الْقَھَّارُسب سے زبردست ‘ سب پر غالب ‘ ہمہ گیر قہاریت شرکت کی نفی کرتی ہے۔ اولاد کی حاجت تو اس کو ہوتی ہے جو روبہ زوال ہو اور اللہ قہار مطلق ہے ‘ ممکن الزوال نہیں ہے۔
Top