Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور یقینا اس سیپ ہلے ہم نے ابراہیم کو عقل سلیم (ٹھیک سمجھ) عطا کی تھی اور ہم ان کو خوب جانتے تھے
لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 70 رشد ٹھیک سمجھ، عقل سلیم۔ تماثیل (تمثال) جانداروں کی شکل، موتریاں۔ عاکفون جم کر بیٹھنے والے۔ وجدنا ہم نے پایا۔ لاعبین ہنسی دل لگی کرنے والے۔ تاللہ اللہ کی قسم۔ لاکیدن میں ضرور تدبیر کروں گا۔ اصنام (صنم) بت۔ مدبرین پلٹنے والے۔ پیٹھ پھیرنے والے۔ جذاذ (جذیذ) ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔ سمعنا ہم نے سنا۔ اعین الناس لوگوں کی آنکھوں کے سامنے۔ ینطقون وہ بات چیت کرتے ہیں۔ نکسوا اوندھے کردیئے گئے۔ حرقوا جلا ڈال۔ کونی ہوجا۔ برداو سلاماً سلامتی کے ساتھ ٹھنڈا ہوجانا۔ کید فریب، دھوکہ، تدبیر۔ اخسرین زیادہ نقصان اٹھانے والے۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 70 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات بڑی سورتوں، بقرہ، انعام، توبہ، ہود، ابراہیم، الحجر اور النحل کے بعد سورة الانبیا میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا ذکر خیر فرمایا ہے۔ عرب کے تقریباً تمام قبائل حضرت ابراہیم کی طرف نسبت کرنے پر ایک خاص فخر محسوس کرتے تھے لیکن یہ نسبت عمل کرنے کے لئے نہیں بلکہ حسب نسب پر فخر کرنے کی غرض سے ہوتی تھی کیونکہ جب ہم ان کو عملی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ان میں حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد میں آنے والے نبیوں اور رسولوں کی بہت سی اچھی باتیں نہ تھیں بلکہ کفر و شرک اور اپنے بچوں کو قتل کرنے اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) تو بت شکن تھے مگر ان پر فخر کرنے والوں نے بیت اللہ شریف میں سینکڑوں بت رکھے ہوئے تھے۔ اللہ کو چھوڑ کر وہ ان سے اپنی مرادیں مانگنے پر فخر کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ بات ہمارے سفارشی ہیں۔ اگر ہم نے ان کی عبادت و بندگی نہ کی تو ہماری دعا کو قبول نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا واقعہ سنا کر ان بت پرستوں کو یاد دلایا ہے کہ وہ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ذرا بھی مناسبت ہے۔ کیونکہ ان کے اعمال ان کی اس خوش فہمی کی تردید کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ وہ لکڑی، پتھر اور مٹی کے بت جن کے سامنے تم جھکتے ہو اور ان کی عبادت و بندگی کرتے ہو وہ اس قدر بےحقیقت ہیں کہ خود اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں اگر ایک مکھی ان کی ناک پر بیٹھ جائے یا (حضرت ابراہیم کی طرح) ان بتوں کو کوئی شخص توڑ دے تو وہ ایک مکھی کو اپنے اوپر سے نہیں اڑا سکتے ہیں اور نہ بچاؤ کرسکتے ہیں فرمایا کہ یہ بت جتنے بےبس اور بےاختیار ہیں وہ دنیا بھر کے لوگوں کے نفع نقصان اور سکھ چین کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ حضرت ابراہیم کے واقعہ میں اسی بات کو یاد دلایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے ایک ایسے کافر گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاں دن رات ان کے والد آذر پتھروں ، لکڑیوں اور مٹی کے بت بناتے اور ان من گھڑت صورتوں، شکلوں کو اپنا معبود اور مشکل کشا مانتے تھے۔ گھر سے باہر کا ماحول اس سے زیادہ گھناؤنا اور مشرکانہ تھا جہاں ہر شخص چاند، سورج، ستاروں، درختوں اور پانی کو اپنا معبود بنائے ہوئے تھا اور ان کے سامنے ” ہاتھ جوڑے “ بیٹھا رہتا اور مرادیں مانگتا رہتا تھا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کو بھی یہی بتایا گیا تھا کہ یہ سب چیزیں تمہارے معبود ہیں مگر حضرت ابراہیم یہ سوچتے تھے کہ چاند، سورج، ستارے، نکلتے ہیں ڈوب جاتے ہیں، غائب ہوجاتے ہیں ہر وہ ایک کو دیکھتے تو یہ گمان ہوتا تھا کہ شاید یہی چیزیں جن کو میرا مبود بتایا جاتا ہے یہ میرے معبود نہیں ہیں بلکہ جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے وہی میرا رب ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ میں صرف ایک اللہ کا اپنا معبود مانتا ہوں اور بس ، میں کسی کے شرک کرنے میں شریک نہیں ہوں۔ جب انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آذر سے کہا کہ ابا جان آپ اور آپ کی قوم کے لوگ جن تصویروں پر جمے بیٹھے ہیں اور ان سے اپنی مرادیں مانگ رہے ہیں یہ سب کیا ہے ؟ یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت و بندگی کرتے دیکھا ہے لہٰذہم بھی ان کی عبادت کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ ان کے پاس ان کو معبود بنانے کی کوئی دلیل نہیں ہے سب لوگ رسموں اور گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ تو کھلی گمراہی ہے جس میں لوگ مبتلا ہیں حیرت سے کہنے لگے ابراہیم سنجیدگی سے کہہ رہے ہو یا ہسنی دلگی کے طور پر کہہ رہے ہو ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت وقار اور سنجیدگی سے جواب دیا کہ یہ مٹی، پتھر اور لکڑی کے بت تمہارے معود نہیں ہیں۔ بلکہ جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، جس نے تمہیں اور انہیں بنایا ہے وہی سب کا پروردگار ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے دل میں قسم کھا کر کہا کہ تمہارے جانے کے بعد پھر میں تمہارے ان بتوں کی دھجیاں بکھیروں گا اور پوری طرح خبر لوں گا۔ جب اس قوم کے میلے کا دن آیا جس میں وہ بڑی خوشیاں مناتے شہر سے باہر جاتے تھے سب کے سب جانے لگے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی کہا گیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ اس میلے ٹھیلے میں چلیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آسامان کے ستاروں کی طرف دیکھا اور پھر کہا کہ میں ” سقیم “ ہوں سقیم کے معنی بیمار ہونے کے بھی ہے اور غمگین اور رنجیدہ ہونے کے بھی ہے۔ ان سب لوگوں کے میلے میں جانے کے بعد حضرات ابراہیم السلام نے ایک کلہاڑا لیا اور اس سے ان تمام چھوٹے بڑے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور جوان میں سب سے بڑا بت تھا اور کلہاڑا اس کے گلے میں لٹکا دیا۔ جب پوری قوم میلے سے لوٹی اور اپنے بتوں کا یہ حال دیکھا تو پوری شہر میں کہرام مچ گیا ۔ ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ ہمارے بتوں کے ساتھ ایسا معاملہ کس نے کیا ہے ؟ کسی نے کہا کہ ہماری قوم میں تو صرف آذر کا بیٹا ابراہیم ہی ہے جو ہمارے بتوں کو برا کہتا ہے اور وہ میلے میں بھی نہیں کی گیا تھا۔ پوری قوم جمع تھیی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طلب کرکے پوچھا گیا کہ اے ابراہیم کیا تم نے یہ کیا ہے ؟ تم نے ہمارے بتوں کی یہ درگت بنائی ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اصل حقیقت پر بات کرنے سے پہلے ان کی ناسمجھی اور بےعقلی پر بھرپور طنز کیا، وہ بڑا بت جس کے گلے میں وہ کلہاڑا لٹکا ہوا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ان کے بڑے نے کیا ہوگا۔ اگر یہ بت تم سے بات کرسکتا ہے تو اس سے پوچھ لو۔ ان بےعقلوں پر یہ اتنا بڑا حملہ تھا کہ ان کی زبانیں بند ہو کر رہ گئیں۔ دل میں سوچنے لگے کہ یہ پتھر کے بےجان بت کیسے بتا سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے جھکے ہوئے سروں کو دیکھا تو فرمایا تم ایسے بتوں کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو جو نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچانے کی طاقت و قوت رکھتے ہیں۔ کیا تم لوگ اتنی سی بات بھی نہیں مجھ سکتے۔ ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے گویا ان سے یہ فرمایا کہ جب تمہارے یہ معبود اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے اپنے نفع نقصان کے مالک نہیں وہ تمہارے نفع نقصان کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں۔ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ وہ تمام لوگ اپنے بتوں کی درگت اور پانی توہین کو برداشت نہ کرسکے۔ کہنے لگے کہ لوگو ! اس کو مار ڈالو ! اس کو مار ڈالو، جلا ڈالو، اپنے معبودوں کی مدد کرو، تم جو کچھ کرسکتے ہو وہ کرو، آپس میں مشورہ کر کے طے کیا گیا کہ اتنے بڑے جرم کی سزا تو یہی ہو سکتی ہے کہ ابراہیم کو جلا کر خاک کردیا جائے جب قوم نے فیصلہ کرلیا تو ہر شخص اس کو کار ثواب سمجھ کر لکڑیاں جمع کرنے کے لئے بھاگ دوڑ میں لگ گیا ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کافی دنوں تک لکڑیاں جمع کی گئیں۔ پھر ان کو دھونکا دیا گیا۔ جب آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے تب رسیوں سے ہاتھ پیر باندھ کر کسی ذریعہ سے حضرت ابراہیم کو اچھا ل کر آگ میں پھینکا گیا۔ ادھر تمام مشرکین نے اپنی تدبیریں کر کے حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا۔ ادھر اللہ نے آگ سے فرمایا اے آگ تو ابراہیم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا۔ چناچہ وہ آگ بہترین باغ بن گئی۔ کفار اور مشرکین یہ سمجھ رہے تھے کہ اس آگ سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اس آگ کی لپیٹیں تانی تیز اور اونچی تھیں کہ اگر اس کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی گذر جاتا تو وہ جل بھن کر کباب ہوجاتا، وہ اپنی جگہ مطمئن تھے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم کو آگ میں بھسم کردیا لیکن جب آگ کو سلامتی کے ساتھ ٹھنڈا ہونے کا حکم الٰہی پہنچا تو حضرت ابراہیم اس آگ میں سات دن تک رہے اور فرماتے ہیں کہ ان سات دنوں میں مجھے جتنا سکون اور اطمینان نصیب ہوا پوری زندگی ایسا سکون نہیں ملا۔ بیشک جس کی حفاظت اللہ کرتا ہے اس کو سایر دنیا مل کر بھی نقصان ہیں پہنچا سکتی۔ شرط یہ ہے کہ اللہ کے لئے قربانی پیش کرنے کیلئے حضرت ابراہیم کا جیسا جگر اور ایمان ہونا چاہئے ۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا اس طرح اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دشمنوں سے بچا لیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اہلیہ حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کے ساتھ عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرما گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف اپنا پیغام بنایا بلکہ ان کی قربانیوں کے صلے میں ساری دنیا کی امامت و پیشوائی بھی عطا فرمائی صرف اولاد ہی نہیں بلکہ وہ صالح اولاد عطا فرمائی جن سے سینکڑوں نبی اور رسول دنیا میں تشریف لائے اور رشد اور ہدایت کا یہ سلسلہ جاری ہوا۔ فلسطین میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد اور حجاز میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کا سلسلہ قائم ہوا۔ اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم کو اسی لئے ابو الانبیاء کہا اجتا ہے کہ ان کی نسل میں ہزاروں پیغمبر آئے تھے۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتوں کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ 1- بخاری اور مسلم میں یہ روایت موجود ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ان ابراھیم (علیہ السلام) لم یکذب غیر ثلاثہ “ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تین موقعہ کے سوا کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس حدیث کے مطابق وہ تین موقعے یہ تھے (1) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لوگوں نے میلے میں چلنے کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا تھا ” انی سقیم “ یعنی میں بیمار ہوں۔ (2) دوسرا موقع وہ تھا کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا تھا اور بت پرستوں نے پوچھا تھا کہ اے ابراہیم کیا یہ کام تم نے کا ہے ؟ اس پر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ ان کے بڑے نے کیا ہوگا۔ (3) تیسرا موقع وہ ہے جس کو اسرائیلی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ظالم کے ظلم سے بچنے کے لئے اپنی بیوی حضرت سارہ کو اپنی بہن بتایا تھا۔ اس حدیث میں ان تین مواقع کے لئے حضور ﷺ ارشاد فرما رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس حدیث پر بڑا شور مچایا ہے اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہونے کے باوجود درایت کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ ایسے موقع پر منکرین حدیث کا شور مچانا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ منکرین حدیث کا تو بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ کسی طرح حدیث رسول کو اس قدر غیر معتبر کردیا جائے کہ پھر قرآن کریم کی من مانی تاویلات کر کے ” ماڈرن اسلام “ بنانے میں ہر طرح کی سہولت حاصل ہوجائے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے ہیں ان کو اس طرح حدیث کا بےبے با کانہ انداز سے انکار کرنا یا تنقید کرنا بہت بڑی جسارت ہے جس سے انہیں یا ان کے ماننے والوں کو توبہ کرنی چاہئے کیونکہ ان تینوں موقعوں پر تاویل کی جاسکتی ہے بعض باتیں ایسی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کین گاہ میں جھوٹ محسوس ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ جھوٹ نہیں ہوتیں۔ اس کو عربی میں ” توریہ “ کہتے ہیں توریہ کے معنی ہے ایسا ذومعنی کلام جس سے کہنے والا جو کہہ رہا ہے کچھ ہے اور جو سننے والا ہے وہ اپنے انداز پر بات کو کچھ اور سمجھ رہا ہے ۔ یہ بظاہر جھوٹ لگتا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ان الفاظ کے پیچھے جھوٹ کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا بلکہ جس سے کہا جا رہا ہے اس کے شر سے محفوظ رہنے یا پوری طرح متوجہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے مکہ کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ بتاؤ اگر میں کہتا ہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو عنقریب تمہارے اوپر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے۔ سب نے کہا ہاں ہم آپ کی ہر بات پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس پہاڑ کے پیھچے کوئی لشکر نہیں ہے بلکہ شیطان کا لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہے اس جگہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نبی کریم ﷺ نے کوئی غلط بیانی کی تھی بلکہ آپ ذہنوں کو اپنی بات کے لئے تیار کر رہے تھے تاکہ آپ کی بات پر پورا دھیان دیا جاسکے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھو۔ اس جگہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے ہی کہہ دیتے کہ یہ کام میں نے نہیں کیا تو اس سے وہ پوری طور متوجہ نہ ہوتے۔ جب وہ متوجہ ہوگئے تب آپ نے ان کو نصیحت فرمائی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ بظاہر جھوٹ لگتا ہے لیکن حقیقت میں جھوٹ نہیں ہے۔ یہ ایک استثنا کی شکل ہے جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن اس پر کوئی اصول نہیں بنایا جاسکتا جس طرح کچھ لوگوں نے ” تقیہ “ کا ڈھونک رچایا ہوا ہے کہ اگر کسی سے تقیہ کرلیا جائے یعنی جھوٹ بول دیا جائے تو یہ کوئی گناہ نہیں ہے۔ میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم عل یہ السلام نے جو توریہ فرمایا ہے اس کی تاویل کرنا آسان ہے لیکن تم نے جو تقیہ کا ایک اصول بنا کر جھوٹ کو اسلام بنا دیا ہے اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔ شریعت میں تقیہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ کچھ لوگوں نے اپنی اغراض اور جھوٹ کا سہارا لینے کے لئے گھڑ لیا ہے۔
Top