Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 179
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا اِنَّا : ہم قَتَلْنَا : ہم نے قتل کیا الْمَسِيْحَ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم رَسُوْلَ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَمَا قَتَلُوْهُ : اور نہیں قتل کیا اس کو وَمَا صَلَبُوْهُ : اور نہیں سولی دی اس کو وَلٰكِنْ : اور بلکہ شُبِّهَ : صورت بنادی گئی لَهُمْ : ان کے لیے وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا : جو لوگ اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مَا لَهُمْ : نہیں ان کو بِهٖ : اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِلَّا : مگر اتِّبَاعَ : پیروی الظَّنِّ : اٹکل وَ : اور مَا قَتَلُوْهُ : اس کو قتل نہیں کیا يَقِيْنًۢا : یقیناً
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کردیا ہے (خدا نے ان کو معلون کردیا) اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا
وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) کو (جو بزعم خود) رسول اللہ تھا قتل کردیا یا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ﷺ کو رسول اللہ بطور استہزاء کہا ہو (کیونکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی رسالت کا اعتقاد ان کا نہ تھا) یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کی جگہ برا لفظ کہا ہو ‘ لیکن اللہ نے ان کے لفظ کی جگہ اپنی طرف سے لفظ رسول اللہ بطور مدح فرما دیا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ رسول اللہ کو برے الفاظ سے ذکر کرنے والے مستحق ملامت ہیں۔ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم اور انہوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نہ قتل کیا نہ صلیب دی بلکہ ان کو اشتباہ ہوگیا۔ روایت میں آیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کو گالیاں دیں آپ نے ان کے لئے بددعا کی حضرت کی بددعا سے اللہ نے ان کی صورتیں بندروں اور سوروں کی طرح کردیں اس پر سب یہودی آپ کے قتل پر متفق الرائے ہوگئے مگر اللہ نے آپ کو اطلاع دے دی کہ تم کو آسمان کی طرف اٹھا لیا جائے گا۔ یہ قصہ سورت آل عمران میں گزر چکا ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں سے کون اس بات پر راضی ہے کہ اس کو میری شکل دے دی جائے اور اس کو قتل کر کے صلیب پر لٹکا دیا جائے اور جنت میں داخل ہوجائے ایک شخص نے اٹھ کر اظہار رضامندی کیا اللہ نے اس کی شکل حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) جیسی کردی۔ اس کو قتل کر کے صلیب دے دی گئی۔ کذا اخرج النسائی عن ابن عباس ؓ ۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ اللہ نے اس شخص کی شکل عیسیٰ ( علیہ السلام) جیسی بنا دی تھی جس نے یہودیوں کو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نشان دہی کی تھی۔ ہم نے سورت آل عمران میں کلبی کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ یہودیوں کے سردار یہودا نے ایک شخص کو جس کا نام طیطانوس تھا مقرر کیا تھا کہ گھر میں گھس کر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کر دے مگر اللہ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لیا اور طیطانوس کی صورت عیسیٰ ( علیہ السلام) جیسی بنا دی جب وہ باہر نکل کر آیا تو لوگوں نے اس کو عیسیٰ سمجھ کر پکڑ کر مار ڈالا اور صلیب دے دی۔ بعض کا قول ہے کہ لوگوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو ایک مکان میں بند کردیا تھا اور ایک چوکیدار نگرانی کے لئے مقرر کردیا تھا۔ اللہ نے اس چوکیدار کی صورت عیسیٰ جیسی کردی اور لوگوں نے اسی کو قتل کردیا۔ واللہ اعلم۔ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ کوئی شبہ نہیں کہ جن لوگوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل کے معاملہ میں اختلاف کیا وہ اس کے قتل کے متعلق تردد میں ہیں۔ کلبی نے کہا ان کا اختلاف یہ تھا کہ یہودی مدعی تھے ہم نے عیسیٰ ( علیہ السلام) قتل نہیں کیا اور نصاریٰ کا ایک گروہ قائل تھا کہ ہم نے قتل کیا اور نصاریٰ ہی کا ایک گروہ کہتا تھا نہ یہودیوں نے قتل کیا نہ عیسائیوں نے بلکہ اللہ نے ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا ہماری نظروں کے سامنے ایسا ہوا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ نے طیطانوس کی صرف شکل عیسیٰ ( علیہ السلام) کی طرح کردی تھی باقی جسمانی حالت اس کی اصلی تھی اس لئے کچھ لوگ کہنے لگے ہم نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کردیا صورت اسی کی تھی دوسرے لوگوں نے کہا نہیں قتل نہیں کیا جسم عیسیٰ ( علیہ السلام) کا نہ تھا۔ سدی کا قول ہے اختلاف کی صورت یہ تھی کہ ان لوگوں نے کہا اگر یہ عیسیٰ ( علیہ السلام) ہے توہمہارا آدمی کہاں گیا اور یہ ہمارا آدمی ہے تو عیسیٰ ( علیہ السلام) کہاں گیا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ فیہ کی ضمیر عیسیٰ کی طرف راجع ہے مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے معاملہ میں لوگوں نے اختلاف کیا کسی نے کہا عیسیٰ جھوٹا تھا ہم نے اس کو قتل کردیا اور ٹھیک کیا کچھ لوگوں کو تردد ہوا (کہ معلوم نہیں عیسیٰ جھوٹا تھا یا سچا اور ہم نے قتل صحیح کیا یا غلط) بعض لوگوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے سن لیا تھا کہ اللہ مجھے آسمان پر اٹھا لے گا انہوں نے کہا کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔ مالہم بہ من علم الا اتباع الظن سوائے تخمین پر چلنے کے ان کے پاس (عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل وعدم قتل کا) کوئی یقینی علم نہیں (یا یوں ترجمہ کیا جائے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں) وما قتلوہ یقینا اور یقینی امر ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کو انہوں نے قتل نہیں کیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان کا خود بھی خیال ہے کہ عیسیٰ کو قتل کردینا یقینی امر نہیں فراء نے یہ مطلب بیان کیا کہ جس کو انہوں نے قتل کیا اس کے عیسیٰ ( علیہ السلام) ہونے کا ان کو یقین نہیں۔
Top