Mutaliya-e-Quran - Ibrahim : 33
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
یایہا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم اے اہل ایمان اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور تم میں سے جو حاکم ہوں (ان کا حکم مانو) بخاری ‘ مسلم اور اصحاب سنن (ابن ماجہ ‘ نسائی ‘ ابوداؤد وغیرہ) نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت عبداللہ بن حذافہ کے حق میں ہوا تھا جن کو ایک دستہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا۔ ابن جریر ؓ اور ابن ابی حاتم نے سدی کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد ؓ بن ولید کو ایک فوجی دستہ کے ساتھ بھیجا۔ اس دستہ میں حضرت عمار بن یاسر بھی تھے۔ فوجی دستہ ان لوگوں کی طرف روانہ ہوگیا جن پر چڑھائی کرنی مقصود تھی۔ صبح کو جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو سارے آدمی بھاگ چکے تھے صرف ایک شخص باقی تھا۔ اس نے حضرت عمار ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اظہار اسلام کردیا اور کلمۂ شہادت پڑھ دیا۔ حضرت عمار ؓ نے فرمایا ٹھہرو تم کو مسلمان ہونے سے فائدہ ہوگا۔ صبح کو جب حضرت خالد ؓ نے (اس بستی پر) حملہ کیا تو حضرت عمار نے فرمایا اس شخص کو رہنے دو یہ مسلمان ہوچکا ہے اور میری پناہ میں آگیا ہے۔ دونوں میں سخت کلامی ہوئی اور (واپسی کے بعد) دونوں نے معاملہ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور ﷺ نے حضرت عمار ؓ کی پناہ دہی کو قائم رکھا مگر آئندہ سردار کے خلاف ایسا کرنے کی ممانعت فرما دی۔ حضور ﷺ کے سامنے بھی دونوں میں درشت کلامی ہوئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا خالد ؓ عمار کو گالی نہ دو جو عمار ؓ : کو گالی دے گا اللہ تعالیٰ اس کو برے کہے گا اور جو عمار ؓ سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے نفرت کرے گا اور جو عمار ؓ پر لعنت کرے گا اللہ اس پر لعنت کرے گا۔ یہ فرمان سن کر حضرت خالد فوراً حضرت عمار ؓ سے معذرت خواہ ہوئے اور حضرت عمار ؓ ان سے راضی ہوگئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابو شیبہ وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول بیان کیا ہے کہ اولی الامر سے مراد ہیں حکام۔ دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں ‘ فوجی دستوں کے سردار (مراد) ہیں۔ اولی الامر کا لفظ عام ہے اس میں بادشاہ بھی داخل ہیں اور شہروں کے حکام بھی اور جج مجسٹریٹ بھی اور فوجی دستوں اور لشکروں کے کمانڈر بھی۔ حضرت علی ؓ : کا ارشاد ہے۔ امام (حاکم) پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ کرے اور امانت کو ادا کرے جب وہ ایسا کرے تو رعیت پر لازم ہے کہ اس کی بات سنیں اور حکم مانیں۔ حضرت حذیفہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان لوگوں کا اتباع کرنے جو میرے بعد ہوں گے یعنی ابوبکر و عمر ؓ ۔ رواہ الترمذی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جو حاکم کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے جو حاکم کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم۔ حضرت عبادہ ؓ بن صامت کا بیان ہے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی اس امر پر کہ حضور ﷺ : کا حکم سنیں گے اور مانیں گے۔ دشواری میں بھی اور آسانی میں بھی ‘ خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی اور حکام سے ان کے حکم میں کوئی کشاکشی نہیں کریں گے اور جہاں ہوں گے حق کو قائم کریں گے اور حق بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (حاکم کا حکم) سننا اور ماننا خواہ کسی ایسے (حقیر) حبشی غلام کا حکم ہو جس کا سر کشمش کی طرح ہو۔ رواہ البخاری۔ حضرت ابوامامہ ؓ : کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ نے حج وداع کے خطبہ میں فرمایا تھا ‘ اللہ سے ڈرو پانچویں نمازیں پڑھو۔ اپنے مہینے کے روزے رکھو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اور جب بھی کوئی تم کو حکم دے اس کو مانو تو اپنے رب کی طرف سے عطا کی ہوئی جنت میں داخل ہو گے۔ رواہ الترمذی۔ شوہر بیوی کو حکم دیتا ہے آقا غلام کو حکم دیتا ہے باپ اولاد کو حکم دیتا ہے۔ یہ سب اولی الامر کی فہرست میں داخل ہیں۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ خوب سن لو تم میں سے ہر ایک (ذمہ دار) نگران ہے اور جس کی نگرانی اس کے سپرد ہے۔ اس کے متعلق وہ جواب دہ بھی ہوگا۔ حاکم رعایا کا نگراں ہے رعایا کے متعلق باز پرس اس سے ہوگی۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے گھر والوں کے متعلق سوال اس سے ہوگا۔ غلام اپنے آقا کے مال (مویشی وغیرہ) کا نگراں ہے اس کی باز پرس اس سے ہوگی (بہرحال) تم میں سے ہر ایک (کسی نہ کسی کا ذمہ دار) نگراں ہے اور اس سے اسی کی باز پرس ہوگی۔ صحیح بخاری و مسلم۔ (1) [ عکرمہ نے اولی الامر کی تفسیر میں کہا ابوبکر و عمر (اولی الامر) تھے۔ کلبی نے کہا ابوبکر و عمر و عثمان و علی اور ابن مسعود ؓ مراد ہیں۔ عکرمہ سے دریافت کیا گیا کہ جن باندیوں کے اولاد ہوجائے ان کا کیا حکم ہے عکرمہ نے کہا وہ آزاد ہوجاتی ہیں سائل نے سوال کیا۔ آپ کے قول کی دلیل کیا ہے۔ عکرمہ نے کہا قرآن۔ لوگوں نے پوچھا قرآن کی کون سی آیت فرمایا اَطِیُعْوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسْوُلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِمِنْکُمْحضرت عمر ؓ نے جو اولی الامر میں سے تھے فرمایا ہے کہ باندی خواہ ناتمام بچہ ہی جنے مگر (جننے کے بعد) آزاد ہوجاتی ہے۔ حضرت عمران ؓ بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ جب کسی کو کہیں کا حاکم بناتے تو فرمان میں یہ لکھ دیتے تھے کہ اس کا حکم سنو اور جب تک یہ انصاف کرے اس کا حکم مانو۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بھی فرمایا تھا سننا اور (حاکم کا) حکم ماننا خواہ کسی حبشی نکٹے غلام کو تمہارا غلام بنا دیا جائے اگر وہ تم کو مارے تو صبر کرنا۔ اگر وہ تم کو مارے تو صبر کرنا اور اگر وہ کوئی ایسا حکم دے جس سے تمہارے دین کی شکست ہوتی ہو تو کہہ دینا اپنا خون دے دیں گے دین نہیں دیں گے۔] اولی الامر کا لفظ فقہاء علماء اور مشائخ کو بدرجۂ اولی شامل ہے کیونکہ یہی گروہ انبیاء کا وارث ہے اور خدا و رسول کے احکام کا امین ہے۔ ابن جریر اور حاکم وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اولی الامر ہیں فقہ اور دین والے۔ دوسری روایت میں ہے اولی الامر ہیں اہل علم۔ ابن ابی شیبہ اور حاکم وغیرہ نے بھی اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے۔ ابوالعالیہ اور مجاہد کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اللہ نے خود ہی فرمایا ہے : وَلَوْا رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰی اُوْلِی الْاَمْرِ وَمِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ رواہ احمد والترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا (تمام) لوگ تمہارے پیرو ہیں اور بہت سے لوگ دنیا کے کناروں سے تمہارے پاس دین کے مسائل سمجھنے کے لئے آئیں گے۔ رواہ الترمذی عن ابی سعید الخدری۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ : حاکم کی اطاعت صرف اس وقت واجب ہے جب اس کا حکم شرع کے خلاف نہ ہو آیت کی رفتار سے یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلے اللہ نے انصاف کرنے کا حکم دیا اس کے بعد حاکموں کی اطاعت کا امر کیا اس سے معلوم ہوا کہ جب تک حکام عدل پر قائم ہوں ان کی اطاعت واجب ہے اس سے آگے خود صراحت فرما دی : فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ءٍ فَرْدُّوْہُ ۔۔ اگر کسی مسئلہ میں تمہارے آپس میں اختلاف ہوجائے تو (صحیح فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول ﷺ کے (احکام کی) طرف رجوع کرو۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اولی الامر کا لفظ بتارہا ہے کہ جن امور کا حکام کو اختیار دیا گیا ہے اور جن چیزوں کا ان کو حاکم بنایا گیا ہے یعنی حکم میں اگر وہ عدل کریں تو ان امور میں اطاعت واجب ہے اور جن امور کو واجب کرنے کا اللہ نے ان کو اختیار نہیں دیا ہے ان امور میں اطاعت واجب نہیں (بلکہ بعض صورتوں میں اطاعت حرام ہے) اس لئے اگر کوئی حاکم کسی کو حکم دے کہ اپنے مال میں سے ہزار روپیہ فلاں شخص کو دے دو تو حکم کی تعمیل ضروری نہیں۔ مسئلہ : اگر قاضی کسی سے کہے میں نے فلاں شخص کو سنگسار کرنے یا مارنے یا اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دے دیا ہے تم یہ خدمت انجام دو تو جس شخص کو حکم دیا جا رہا ہے وہ (بلا تحقیق) حکم کی تعمیل کرسکتا ہے۔ لیکن ایک روایت میں آیا ہے کہ امام محمد نے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا تھا اور فرمایا تھا جب تک قاضی کے فیصلہ کی اطمینان بخش دلیل نہ معلوم ہوجائے صرف حکم کی تعمیل جائز نہیں۔ مشائخ نے اسی قول کو پسند کیا ہے کیونکہ اس زمانہ میں قاضیوں کے حالات بگڑ چکے ہیں۔ امام ابو منصور (ماتریدی) نے فرمایا ‘ اگر قاضی متقی اور عالم ہو اس کا حکم واجب القبول ہے کیونکہ غلطی اور بددیانتی کا احتمال نہیں ہے اور اگر جاہل متقی ہو تو فیصلہ کی (مدلل) تشریح اس سے پوچھی جائے گی اگر وہ صحیح تشریح کر دے گا تو حکم قبول کیا جائے گا ورنہ تعمیل نہیں کی جائے گی اگر فاسق ہو (خواہ عالم ہی ہو) تو چونکہ بددیانتی اور غلطی کا احتمال ہے اس لئے بغیر تحقیقی دلیل سمجھے اس کا حکم قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہدایہ۔ بخاری وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول عبداللہ بن حذافہ بن قیس کے متعلق ہوا تھا۔ عبداللہ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔ داؤدی نے (اس کی تشریح میں اس طرح) بیان کیا کہ عبداللہ ؓ بن حذافہ ایک لشکر کے قائد بنا کر بھیجے گئے۔ کسی جگہ پہنچ کر اپنے لشکر پر عبداللہ ؓ کو غصہ آگیا اور آگ بھڑکا کر آپ نے حکم دیا اس میں (سب) گھس جاؤ۔ اس حکم کی تعمیل سے بعض لوگوں نے انکار کردیا اور بعض نے تعمیل کا ارادہ کرلیا۔ حافظ ابن حجر (رح) نے لکھا ہے کہ اس قصہ میں اس آیت کے نزول کا مقصد ہے یہ حکم جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ فان تنازعتم فی شی . کہ اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے (تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو) یہ قول مجاہد کا ہے کہ اگر علماء کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو۔ شی : (بات یا مسئلہ) سے مراد ہے امیر کا حکم یعنی امیر کے حکم کے متعلق اختلاف ہوجائے ‘ کوئی اس مسئلہ میں اطاعت امیر کو ناجائز کہتا ہو اور کوئی واجب قرار دیتا ہو۔ فردوہ الی اللہ تو اس مسئلہ کو اللہ کی طرف یعنی اللہ کی کتاب کی طرف موڑ دو ۔ والرسول اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پھیر دو ۔ جب تک رسول ﷺ زندہ ہیں اور وفات کے بعد ان کی سنت کی جانب رجوع کرو۔ رہے وہ مسائل جن کی صراحت نہ قرآن میں ہے نہ فرمان رسول ﷺ میں تو ان میں اجماع اور قیاس کی طرف رجوع کرنا چاہئے کیونکہ اجماع اور قیاس (خود مستقل حیثیت نہیں رکھتے بلکہ) کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ رجوع کے بعد اگر شرعاً اس کی اطاعت واجب ہوتی ہو تو اطاعت کرو ورنہ مت کرو۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (امیر کا حکم) سننا اور اس کو ماننا مسلمان شخص پر واجب ہے خواہ پسند ہو یا ناپسند بشرطیکہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیا گیا ہو۔ اگر معصیت کا حکم دیا گیا ہو تو نہ سننا جائز ہے نہ ماننا (صحیحین) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ گناہ کے کام میں کسی کی اطاعت درست نہیں ‘ اطاعت صرف نیکی میں ہونی چاہئے۔ صحیحین۔ حضرت عمران ؓ بن حصین اور حضرت حکیم بن عمرو غفاری کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ خالق کی نافرمانی ہو تو مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ رواہ احمد والحاکم۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ مسلمہ بن عبدالملک بن مروان نے ابوحازم سے کہا۔ کیا تم کو آیت وَاُولِی الْاَمِرْ مِنْکُمْمیں ہماری اطاعت کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابوحازم نے فرمایا آیت فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیَْ شْئٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ : میں تمہاری اطاعت کے حکم کی نفی نہیں کردی گئی جب کہ تم حق کی مخالفت کرو (یعنی تم حق کے خلاف کرتے ہو تو اس آیت میں تمہاری اطاعت نہ کرنے کا حکم ہے) (مدارک) مسئلہ : اگر کسی حاکم کا حکم قاضی کے پاس اجراء کی غرض سے آئے تو اس کو جاری کردینا چاہئے بشرطیکہ قرآن کے مخالف نہ ہو۔ مثلاً مدعی کی قسم اور ثبوت کی ایک شہادت پر اگر حاکم نے کسی کو ڈگری دے دی ہو تو ایسے حکم کو جاری نہ کرنا چاہئے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : فَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالَکُمْ الخ۔ اگر حدیث مشہور کے خلاف ہو تب بھی جاری نہ کرنا چاہئے جیسے اگر کسی نے بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ہوں اور (حلالہ کے طور پر) کسی دوسرے مرد نے نکاح کرلیا اور بغیر قربت صنفی کے اس نے طلاق دے دی ہو اور حاکم حکم دے کہ اب اس عورت سے پہلے شوہر کے لئے نکاح حلال ہوگیا تو ایسا حکم جاری نہ کرنا چاہئے کیونکہ حضرت رفاعہ ؓ کی بیوی کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیرا نکاح اس سے درست نہیں ہوسکتا۔ جب تک دوسرا شوہر تیری چاشنی نہ چکھ لے اور تو اس کی چاشنی نہ چکھ لے۔ ہم نے یہ حدیث سورة بقرہ میں ذکر کردی ہے۔ اگر حاکم کا حکم اجماع کے خلاف ہو تب بھی قاضی اس کا اجراء نہ کرے جیسے حاکم نے اگر حکم دیا ہو کہ جس جانور کو ذبح کرتے وقت قصداً اگر بسم اللہ پڑھنی ترک کردی تو ایسا ذبیحہ حلال ہے یہ حکم صحابہ ؓ کے اجماع کے خلاف ہے اس لئے ناقابل اجراء ہے۔ ہدایہ مسئلہ : اگر مجتہد کا فتویٰ قرآن اور حدیث کے خلاف ہو اور یہ معلوم بھی ہوجائے تو قرآن و حدیث پر چلنا (اور اجتہادی فتویٰ کو ترک کرنا) ہم پر لازم ہے۔ بیہقی نے مدخل میں صحیح اسناد کے ساتھ لکھا ہے کہ عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ میں نے خود سنا امام ابوحنیفہ فرما رہے تھے اگر رسول اللہ ﷺ : کی کوئی حدیث آجائے (یعنی مل جائے) تو بسروچشم (میں اس کو قبول کروں گا) روضۃ العلماء میں ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ‘ میرے قول کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان اور صحابہ ؓ کے قول کے مقابلہ میں ترک کر دو ۔ امام صاحب (رح) کا یہ قول بھی روایت میں آیا ہے کہ اگر حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔ فان تنازعتم : میں خطاب حکام کو بھی ہوسکتا ہے پہلے بصیغۂ غائب ذکر تھا اس جگہ بصورت خطاب ہوگا۔ ان کنتم تو منون باللہ والیوم الاخر . اگر اللہ اور روز آخرت پر تم ایمان رکھتے ہو۔ کلام سابق جزاء پر دلالت کر رہا ہے اس لئے جزا (کو ذکر کرنے یا محذوف قرار دینے) کی ضرورت نہیں۔ ذلک . یہ یعنی اللہ اور رسول کی طرف رجوع۔ خیر . تمہارے لئے بہتر ہے یعنی اپنے ذہنی خیال پر جمے رہنے سے بہتر ہے۔ واحسن تاویلا . اور تاویل کے اعتبار سے بہتر ہے۔ ابن جریر نے بحوالۂ شعبی لکھا ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق میں کچھ جھگڑا تھا۔ یہودی معاملہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ حضور ﷺ فیصلہ رشوت کھا کر نہیں کرسکتے اور منافق یہودیوں سے فیصلہ کرانا چاہتا تھا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ وہ رشوت لے لیں گے اور رشوت لے کر فیصلہ میں جنبہ داری کرسکیں گے۔ بالآخر دونوں باتفاق رائے قبیلۂ جہینہ کے ایک کاہن کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا مقدمہ فیصلہ کے لئے اس کے سامنے رکھا۔ ثعلبی نے ابن عباس ؓ سے اور ابن ابی حاتم نے ابوالاسود سے مرسلاً نیز بغوی نے کلبی کا قول بواسطۂ ابو صالح از حضرت ابن عباس ؓ نقل کیا ہے کہ ایک یہودی سے ایک منافق کا جس کا نام بقول کلبی بشر تھا۔ کچھ جھگڑا تھا یہودی نے فیصلہ کرانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی منافق کو دعوت دی اور منافق نے کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کرانے کے لئے یہودی سے خواہش کی۔ یہودی نے کعب بن اشرف کے پاس جانے سے انکار کردیا اور رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا مجبوراً منافق کو بھی حضور اقدس ﷺ کی طرف آنا پڑا۔ غرض دونوں خدمت گرامی میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا جب دونوں خدمت اقدس سے اٹھ کر باہر آئے تو منافق یہودی کو چمٹ گیا اور بولا (فیصلہ کے لئے) عمر ؓ کے پاس چل۔ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچے یہودی نے عرض کیا میں اور یہ شخص اپنا باہمی مقدمہ لے کر محمد ﷺ کے پاس گئے تھے انہوں نے اس کے خلاف مجھے ڈگری دے دی لیکن یہ ان کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور مجھے آپ کے پاس لے کر آیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے منافق سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے۔ منافق نے کہا جی ہاں ! حضرت عمر ؓ نے فرمایا ذرا ٹھہرو وہیں (اندر جا کر ابھی) باہر آتا ہوں چناچہ آپ گھر میں گئے۔ وہاں سے تلوار لی ‘ پھر باہر نکل کر منافق کو قتل کردیا اور فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو میں اس کا فیصلہ اسی طرح کرتا ہوں اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top