Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 98
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًاۙ
اِلَّا : مگر الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : بےبس مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَالنِّسَآءِ : اور عورتیں وَالْوِلْدَانِ : اور بچے لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہیں کرسکتے حِيْلَةً : کوئی تدبیر وَّلَا : اور نہ يَهْتَدُوْنَ : پاتے ہیں سَبِيْلًا : کوئی راستہ
ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں
الا المستضعفین من الرجال والنسآء والولدان لیکن جو مرد اور عورتیں اور بچے قادر نہ ہوں۔ یہ استثناء منقطع ہے کیونکہ ہجرت پر قدرت نہ رکھنے والے مرد اور عورتیں اور بچے الذین یا اس کی ضمیر کے تحت داخل ہی نہیں ہیں (وہ غیر معذور ہیں قادر ہیں اور یہ معذور اور عاجز ہیں) یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہی نہیں ہیں ‘ حکم کا وجوب بغیر تعمیل کی قدرت کے کسی پر نہیں ہوتا لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا۔ عاجز مردوں کی مثال ایسی ہے جیسے بہت زیادہ بوڑھا فرتوت بہت بیمار بہت کمزور اپاہج کہ پیدل سفر کر نہیں سکتا اور سواری کی استطاعت نہ ہو یا کوئی عیالدار ہو کہ سب کو لے کر جانے کی استطاعت نہ ہو اور تنہا جانے میں پیچھے اہل و عیال کی تباہی کا خطرہ ہو۔ استثناء میں بچوں کا ذکر صرف کلام میں زور پیدا کرنے اور یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ (ہجرت کا حکم اتنا اہم ہے کہ) بچوں پر بھی لاگو ہے اگر وہ بالغ ہوجائیں اور ہجرت کرسکیں۔ یا بچوں سے مراد ان کے ولی ہیں کیونکہ بچوں کے ولی اگر بچوں کو لے کر منتقل ہوسکتے ہوں تو ان پر مع بچوں کے ہجرت واجب ہے ورنہ ان کو عاجز قرار دیا جائے گا۔ آیت میں غلاموں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ اگر غلام میں ہجرت کی قدرت ہو تو اس پر ہجرت واجب ہے ‘ آقا کا حق اس کے لئے سنگ راہ نہیں ہوسکتا ‘ فرض عینی سے حق عباد مانع نہیں ہے۔ محمد بن اسحاق نے یونس بن بکیر کی روایت میں بیان کیا ہے کہ محاصرۂ طائف کے وقت رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا دی جو غلام قلعہ سے اتر کر ہمارے پاس آجائے گا وہ آزاد ہے ‘ یہ سن کر قلعہ سے کچھ اوپر دس آدمی نکلے حافظ محمد بن یوسف صالحی شافعی نے سبیل الرشاد میں ان کے نام ذکر کئے ہیں۔ امام احمد (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا غلاموں میں سے جو نکل کر ہمارے پاس آجائے گا وہ آزاد ہے ‘ یہ سن کر غلام نکل آئے جن میں ابوبکرہ بھی تھے ‘ حضور ﷺ نے ان کو آزاد کردیا صحیحین میں عثمان ؓ نہدی کی روایت سے نقل کیا گیا ہے۔ بقول سعد ابو عثمان ؓ نہدی ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا تھا۔ ابوبکرہ ؓ جو طائف کے قلعہ کی فصیل پر تھے ‘ اتر کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے آپ طائف (کے قلعہ) سے نکل کر آنے والوں میں تئیسویں آدمی تھے۔ یہ بات اہل طائف کو بہت ہی شاق گزری اور غلاموں پر ان کو سخت غصہ آیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا اور ایک ایک غلام سپرد کردیا تاکہ اس کی ضروریات کی دیکھ بھال رکھے اور سوار کرلے ‘ آپ ﷺ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ غلاموں کو قرآن پڑھاؤ اور مسائل اسلام سکھاؤ۔ آخر جب بنی ثقیف مسلمان ہوگئے تو ان کے سردار نے ان آزاد کردہ غلاموں کے بارے میں درخواست کی کہ ان کو دوبارہ غلامی کی طرف لوٹا دیا جائے اور ہم کو دے دیا جائے انہی میں سے حارث ؓ بن کلدہ بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اللہ کے آزاد کردہ ہیں ‘ اب ان تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ لا یستطعیون حیلۃ ولا یہتدون سبیلا کہ نہ کوئی تدبیر کرسکتے ہیں نہ راستہ سے واقف ہیں۔ حیلہ کا معنی ہے مہارت اچھی نظر اور کام کرنے کی قدرت یعنی ہجرت کرنے کی ان کو قدرت نہیں نہ اسباب ہجرت ان کے پاس ہے اور راستہ سے خود واقف نہیں نہ کوئی راہ نما ملتا ہے۔
Top