Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 99
فَاُولٰٓئِكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْهُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا
فَاُولٰٓئِكَ : سو ایسے لوگ ہیں عَسَى : امید ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ يَّعْفُوَ : کہ معاف فرمائے عَنْھُمْ : ان سے (ان کو) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
قریب ہے کہ خدا ایسوں کو معاف کردے اور خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
فاولئک عسی اللہ ان یعفو عنہم سو ان کے لئے۔ امید ہے کہ اللہ معاف کر دے۔ ایک سوال : معذور دین کی مجبوری ظاہر ہے وہ مکلف نہیں۔ پھر یقین کی جگہ امید کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا اور جب وہ مکلف ہی نہیں تو پھر معافی کی صراحت کیوں فرمائی۔ جواب : امید اور عفو کا لفظ استعمال کرنے پر اس امر پر تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ ترک ہجرت کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ معذور کو بھی بےخطر نہ ہونا چاہئے ‘ موقع کی تاک میں لگا رہے اور ہجرت سے دل کو وابستہ رکھے۔ وکان اللہ عفوا غفورا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا میں اور میری ماں ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ نے معذور قرار دیا تھا یعنی مستضعفین میں سے تھے اور رسول اللہ : ﷺ ان مستضعفینکے لئے نماز میں دعا کرتے تھے۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ عشاء کی نماز کی آخری رکعت میں سمع اللّٰہ لمن حمدہکہنے کے بعد رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے : اَللّٰہُمَّ الْجِ عَیَّاشَ بْنَ اَبِیْ رَبِیْعَۃ۔ اَللّٰہُمَّ الْجِ الْوَلِیْدِ بْنَ الْوَلِیْدِ ۔ اَللّٰہُمَّ الْجِ سَلَمَۃَ بْنَ ہِشَامٍ ۔ اَللّٰہُمَّ الْجِ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ اَللّٰہُمَّ اشْدُوْ طَأَتَکَ عَلٰی مُضَرَ ۔ اَلّٰلُہَّم اجْعَلْہَا سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوْسُفَاے اللہ عیاش بن ربیعہ کو رہائی عطا کر ‘ اے اللہ ولید ؓ بن ولید کو نجات دے ‘ اے اللہ سلمہ ؓ بن ہشام کو خلاصی دے۔ اے اللہ مغلوب مسلمانوں کو بچا اے اللہ (قبائل) مضر کو سخت پامال کر دے اے اللہ ان کے سالوں کو یوسف کے سالوں کی طرح (قحط) کے بنا دے۔
Top