Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 39
فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ
فَتَوَلّٰى : تو وہ پھر گیا بِرُكْنِهٖ : اپنی قوت کے ساتھ وَقَالَ سٰحِرٌ : اور کہنے لگا ایک جادوگر ہے اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون ہے
تو اس نے اپنی جماعت (کے گھمنڈ) پر منہ موڑ لیا اور کہنے لگا یہ تو جادوگر ہے یا دیوانہ
فتولی برکنہ و قال سحر او مجنون . سو اس نے مع اپنے ارکان سلطنت کے سرتابی کی اور کہنے لگا کہ موسیٰ ساحر ہے یا مجنون ہے۔ فَتَوَلّٰی : یعنی فرعون نے ایمان لانے سے اعراض کیا۔ بِرُکْنِہٖ : یعنی اپنے جتھے اور لشکر کے ساتھ۔ وَقَالَ : اور فرعون نے کہا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) ۔ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ : جادوگر ہے یا پاگل۔ ابوعبیدہ نے کہا : اس جگہ او بمعنی واؤ ہے یعنی موسیٰ جادوگر اور پاگل ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ فرعون نے حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے معجزات صادر ہوتے ہوئے دیکھ کر آپ کو جادوگر کہا اور چونکہ اس کی بیمار ‘ کور بصیرت والی عقل میں موسیٰ کی دعوت توحید نہیں آتی تھی ‘ اسلئے آپ کو پاگل کہنے لگا (حالانکہ محروم العقل خود تھا ‘ مترجم) اسکے دونوں کلاموں میں باہم تضاد تھا (اگر موسیٰ مجنون تھے تو ساحر کیسے ہوگئے ؟ ساحر تو دانشمند ہوتا ہے اور دانشمند تھے تو مجنون کیسے ہوئے ؟ دانشمند تو مجنون نہیں کہا جاسکتا۔ مترجم) بیضاوی نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ کے معجزات کو دیکھ کر فرعون نے آپ کو آسیب زدہ سمجھا ‘ پھر سوچنے لگا کہ ان افعال کے اظہار میں موسیٰ کے اپنے اختیار اور کوشش کو دخل ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو یہ جادوگر ہے اور بےختیار ہے تو پاگل ہے۔ وہ فیصلہ نہ کرسکا کہ اظہار معجزات میں موسیٰ ( علیہ السلام) کے ارادے اور اختیار کو دخل ہے یا نہیں ؟
Top