Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 11
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى
مَا : نہیں كَذَبَ : جھوٹ بولا الْفُؤَادُ : دل نے مَا رَاٰى : جو اس نے دیکھا
جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ مانا
ما کذب الفواء دما رای . قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں کوئی غلطی نہیں کی۔ اَلْفُؤَادُ : یعنی رسول اللہ ﷺ کا دِل۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پنکھ تھے۔ حضرت عائشہ کا قول بھی اسی طرح آیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ (معراج میں) اللہ کو دیکھنے کی منکر تھیں۔ مسروق کا بیان ہے میں نے عرض کیا : اماں کیا رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ فرمایا : تمہارے اس قول سے تو (خوف کی وجہ سے) میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کیا تم کو دو تین باتیں معلوم نہیں کہ جو ان کا قائل ہے وہ جھوٹا ہے۔ (1) جو شخص کہتا ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو وہ جھوٹا ہے یہ کہہ کر ام المؤمنین نے آیت : لَا تُدْرِکُہُ الْاَنْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ تلاوت فرمائی اور یہ آیت بھی پڑھی : وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہ الاَّ وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ (اس کے بعد فرمایا :) ‘(2) اور جو شخص تم سے کہے کہ رسول اللہ ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے تو وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر آپ ؓ نے آیت : مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا تلاوت فرمائی (پھر فرمایا :) ‘(3) اور جو شخص تم سے کہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وحی کا کوئی حصہ پوشیدہ کرلیا تھا وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر آپ ؓ نے آیت : یٰٓایُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّک تلاوت فرمائی۔ ہاں ! جبرئیل کو ان کی (اصل) شکل میں دو بار دیکھا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی وَلَقَدْ رَاہُ نَزَلَۃً اُخْرٰی : محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو بار اپنے دل سے دیکھا تھا۔ (رواہ مسلم) ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : محمد نے اپنے رب کو دیکھا تھا۔ عکرمہ ؓ نے عرض کیا : اللہ نے نہیں فرمایا ہے : لاَ تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ : ارے یہ (روایت) تو اس وقت ہوئی تھی جب اللہ اپنے نور (اخلاص) سے جلوہ اندوز ہوا تھا۔ بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا تھا۔ حضرت انس ‘ حسن اور عکرمہ کا قول ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا یعنی اپنی آنکھ سے۔ بغوی نے بروایت عکرمہ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے ابراہیم کو خلت کے لیے چن لیا اور خلیل اللہ فرما دیا اور موسیٰ کو کلام کے لیے اور محمد ﷺ کو (اپنی) رؤیت کے لیے۔ ابن جریر ؓ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا ‘ کیا آپ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا : میں نے اپنے دل سے اس کو دیکھا۔ ترمذی نے بروایت شعبی بیان کیا کہ کعب احبار نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا : اللہ نے اپنے کلام اور دیدار کو موسیٰ اور محمد کے درمیان تقسیم کردیا۔ موسیٰ سے دو بار کلام کیا اور محمد ﷺ نے دو بار (اس کو) دیکھا۔ میں کہتا ہوں جس رؤیت میں اختلاف علماء ہے وہ قلبی رؤیت نہیں ‘ چشم سر کی رؤیت میں اختلاف ہے۔ کیونکہ رؤیت قلبی جس کو مشاہدہ بھی کہا جائے (انبیاء تو درکنار) بعض اولیاء امت کو بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ بعض اولیاء نے تو رؤیت چشم کے حصول کا بھی دعویٰ کیا ہے مگر یہ خلاف اجماع ہے۔ اتفاق علماء ہے کہ رؤیت چشم سوائے رسول اللہ ﷺ کے کسی امتی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض صوفیہ کو اشتباہ ہوجاتا ہے ‘ وہ بیداری کی حالت میں مشاہدۂ قلبی میں ایسے غرق ہوجاتے ہیں کہ باوجود آنکھیں کھلی ہونے کے قوّت بصر معطل ہوجاتی ہے۔ وہ غلبۂ حال کی وجہ سے خیال کرتے ہیں کہ ہم آنکھوں سے رب کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ ان کی بینائی چشم معطل ہوتی ہے ‘ دل سے مشاہدہ میں غرق ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ میں نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا اگر ثابت ہوجائے تو اس سے رؤیت چشم کی نفی صراحتہً ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں ! اس کا مفہوم ضرور یہ نکلتا ہے (اور دلالت مفہوم معتبر نہیں) البتہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت عائشہ کا قول ضرور صراحتہً نفی رؤیت چشم پر دلالت کر رہا ہے لیکن یہ شہادت علی النفی ہے اور شہادت اثبات کے مقابلہ میں شہادت نفی مرجوع (اور غیر معتبر) ہے۔ شہادت ثبوت راجح ہے۔ نفی رؤیت پر حضرت عائشہ کا استدلال کمزور ہے۔ سورة انعام میں لَا یُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ کی تفسیر میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے۔ اسلئے نفی ادراک سے نفی رویت لازم نہیں آتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : قَالَ اَصْحَابُ مُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ قَالَ کَلاَّ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ : (حضرت موسیٰ نے نفی ادراک کے باوجودیکہ آپ کے ساتھ فرعون کے لشکر کو آتا دیکھ رہے تھے ‘ رؤیت کا انکار ممکن نہیں تھا) اس کے علاوہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگ ادراک نہیں کریں گے (سلب عموم ادراک) اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی بھی ادراک نہ کرے گا (عموم سلب ادراک) رہی آیت : مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُکَلِّمَہُ اللہ ُ..... تو اس میں وحی کے دو طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ پس پردہ سے وحی اور بلا حجاب وحی۔ اس سے نفی رؤیت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم نے حضرت ابوذر کا قول نقل کیا ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا : وہ نور ہے ‘ میں اس کو کیسے دیکھتا ؟ انّٰی بمعنی کیف استفہام انکاری ہے۔ بعض روایات میں نُوْراَنِیٌ کے بجائے نُوْرَانِیٌّ اَرَاہُ اَنّٰی آیا ہے۔ اس روایت کے بموجب رؤیت کا ثبوت ہوتا ہے لیکن مشہور روایت کے بموجب بھی صراحۃً مطلق رؤیت کی نفی نہیں ہوتی۔ میں کہتا ہوں اگر رؤیت چشم ثابت بھی ہوجائے جیسا کہ حضرت ابن عباس اور کعب احبار کے مکالمہ میں ہے۔ تب بھی آیت میں رؤیت قلبی ہی مراد ہوگی۔ کیونکہ ہر وحی کے وقت قلبی رؤیت کا ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ رؤیت چشم مراد نہ ہوگی کیونکہ (اگر اس کا وقوع ہوا تو) اس کی خصوصیت شب معراج کے ساتھ ہے۔ ابو جعفر اور ہشام کی قراءت میں بحوالہ ابو عباس کذب (باب تفعیل) سے آیا ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ اپنی آنکھ یا اپنے دل سے دیکھا۔ دل نے اس کی تصدیق کی ‘ تکذیب نہیں کی بلکہ یقین کرلیا ‘ محقق مان لیا۔ بات یہ ہے کہ امور قدسیہ کا ادراک سب سے پہلے قلب سے ہوتا ہے پھر یہ ادراک چشم بصیرت کی طرف منتقل ہوتا ہے (یعنی بصر و بصیرت اس کا ادراک کرتے ہیں) پس اگر ادراک قلبی کے موافق ادراک چشم و بصیرت ہو تو دل اس کی تصدیق کرتا ہے لیکن بصر و بصیرت کی رسائی ادراک قلبی تک نہ ہو بلکہ اس کے خلاف ہو تو قلب اس کی تکذیب کرتا ہے۔ سچے علوم رحمانی اور جھوٹے خیالات اور اشتباہات شیطانی میں یہی فرق ہے۔ کبھی صوفی کے مکاشفات اور رحمانی الہام میں وہم و خیال کی بنائی ہوئی جھوٹی علمی تصویریں اور شیطانی الہامات اشتباہ پیدا کردیتے ہیں ‘ اس وقت صوفی اپنے دل سے پوچھتا ہے اگر دل اس کی تصدیق کرتا ہے اور مطمئن ہوتا ہے اور یقین کی خنکی اس کو مل جاتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ مکاشفات رحمانی ہیں اور سچے ہیں اور اگر دل ان کی تکذیب کرتا ہے ‘ دل کو ان پر اطمینان نہیں ہوتا تو قلب ان کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ الہامات شیطانی اور اختراعات وہمی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تمہارے سینہ میں کوئی چیز پیدا ہو یعنی خلجان پیدا کر دے تو اس کو چھوڑ دو (یعنی اگر کوئی الہامی خیال تمہارے دل میں اطمینان پیدا نہ کرسکے تو اس کو ترک کر دو اور سمجھ لو کہ وہ شیطانی ہے یا وہم کا کرشمہ ہے ‘ مترجم) ۔ (رواہ احمد عن ابی امامۃ) رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : اگرچہ مفتی تم کو فتویٰ دے دیں پھر بھی (اطمینان کے لیے) اپنے دل سے فتویٰ طلب کرو۔ کیا تصدیق قلبی رؤیت قلبی سے کوئی الگ چیز ہے ؟ بے شک دونوں الگ الگ چیزیں ہیں تنقیح مسئلہ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جب اللہ کو مؤمن بندے سے بےکیف ذاتی محبت ہوجاتی ہے تو مؤمن کو اللہ کی بےکیف ذاتی معیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بندہ کو اللہ کی ذات وصفات کا ادراک میسر ہوجاتا ہے لیکن رؤیت حاصل نہیں ہوتی۔ رؤیت کا تعلق صرف مرتبہ ظلیت سے ہے (یعنی رؤیت ظلال کی ہوتی یہ ذات وصفات کی نہیں ہوتی) قلب تو ممکنات ذات کو بھی نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ظل اور شبیہ کو دیکھتا ہے کیونکہ ذہن میں کسی چیز کی ذات حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کی صورت اور شبیہ حاصل ہوتی ہے۔ ہاں نفس شئی اور ذات شئی کی رؤیت قوّ تِ باصرہ کی وساطت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے ذات خداوندی کی رؤیت تو دنیا میں ممکن نہیں (معراج میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا یا نہیں دیکھا ‘ اس اختلاف کا ذکر سطور بالا میں کردیا گیا ہے) کیونکہ دنیا میں حاسۂ بصری اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ البتہ آخرت میں (قوّ تِ باصرہ میں) اس کی صلاحیت و استعداد پیدا ہوجائے گی۔ اس لیے عام مؤمنوں کو دیدارِ الٰہی ہو سکے گا اور ادراک کا تعلق چونکہ صرف دل سے ہے بصارت چشم سے نہیں ہے۔ اس لیے نہ دنیا میں ادراک ذات باری کا ہوسکتا ہے نہ آخرت میں ممکن ہے۔ پس رؤیت قلبی خواہ بوساطت چشم ہو یا بلا توسط ‘ اس میں اختراع وہم ‘ ایجاد خیال اور تلبیس شیطانی کی کبھی آمیزش ہوجاتی ہے ‘ جس کی وجہ سے حق کو باطل کے ساتھ اختلاط ہوجاتا ہے یا بصیرت میں کمی آجاتی ہے اور بینائی اصل مرئی سے ہٹ جاتی ہے اس لیے غلطی ہوجاتی ہے۔ ادراک سادہ میں سے نہ وہم کی رخنہ اندازی ہوتی ہے ‘ نہ شیطان کی ‘ نہ نظر کی کج روی۔ اسلئے اطمینان بالحق ‘ تصدیق قلب اور تکذیب باطل پیدا ہوتی ہے ‘ واللہ اعلم۔
Top