Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو؟
افتمرونہ علی ما یری . کیا تم ان سے ان کی دیکھی ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو ؟ تَمَارُوْنَ ‘ مِرَا ءٌ : سے مشتق ہے۔ مراء : کا معنی جھگڑا کرنا۔ مری الناقۃ : دودھ نکالنے کے لیے اونٹنی کے تھن کو ملنا۔ باہم جھگڑنے والے بھی اپنے مخالف کی دلیلوں کو نکلوانا چاہتے ہیں۔ اس لغوی مناسبت سے مراء کا معنی ہوگیا ‘ جھگڑا کرنا۔ اصل کلام اس طرح تھا : کیا تم رسول اللہ ﷺ کی بات کا انکار کرتے ہو اور ان سے جھگڑا کرتے ہو۔ استفہام توبیخی اور انکاری ہے یعنی محمد ﷺ جس چیز کے دیکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں تمہیں اسکا انکار اور جھگڑا نہ کرنا چاہیے۔ صیغۂ مضارع کا استعمال ماضی کے استحضار اور حکایت کے لیے ہے یا زمانۂ حال میں رسول اللہ ﷺ کو جو کچھ دکھایا گیا ہے یا دکھایا جائے گا اس کے انکار پر بصورت استفہام توبیخ کرنی مقصود ہے۔
Top