Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 11
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى
مَا : نہیں كَذَبَ : جھوٹ بولا الْفُؤَادُ : دل نے مَا رَاٰى : جو اس نے دیکھا
نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں ذرا بھی جھوٹ نہ ملایا
آپ ﷺ کی نظر نے جو دیکھا دل نے اس میں ایک ذرہ بات کی ملاوٹ نہ کی 11 ؎ آپ ﷺ نے کیا دیکھا ؟ وہی جس کی پیچھے وضاحت چلی آرہی ہے کہ آپ ﷺ نے (بین النوم والیقظان) اپنے مثالی جسم اور روح کے ساتھ ایک سفر کیا جس سفر پر آپ ﷺ کو بلایا گیا تھا بلانے والا اللہ رب ذوالجلال والا کرام تھا ‘ لے جانے والے جبریل تھے اور جانے والے محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپ ﷺ کو ایک بلند افق تک لے جایا گیا جہاں تک مخلوق خداوندی کے جانے کی گویا آخری سرحد ہے وہاں نہ تو کوئی آپ ﷺ نے ظاہری شکل و صورت دیکھی اور نہ کوئی جسمانی چیز آپ ﷺ کو وہاں نظر آئی لیکن اللہ تعالیٰ کا وہ نور جس کی تجلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بےہوش کردیا تھا اپنے سامنے پایا لیکن آپ کو کوئی بےہوشی اور غشی نہ ہوئی لیکن چونکہ آپ ﷺ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ذات کے دیکھنے کی کوئی تمنا نہ کی تھی اس لئے آپ ﷺ پر اس تجلی نے ایسا کوئی اثر نہ کیا کہ آپ کو اعتراف کرنا پڑے کہ بس میں اس سے آگے کا کوئی مطالبہ نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ کو رب ذوالجلال والا کرام نے وہ کچھ سکھایا اور وہ پڑھایا جو کچھ سکھانے اور پڑھانے کے لئے بلایا گیا تھا اور پھر اس سے بھی زیادہ قریب آپ کو نصیب ہوا جو کسی دوسرے نبی و رسول کو بھی نصیب نہیں ہوا تھا اور اس طرح آپ کو ایک مزید بلند افق پر پہنچایا گا ۔ پھر آپ ﷺ مزید قریب ہوئے جتنا کہ قریب ہو سکتے تھے جو قریب یقینا حبل الورید سے اقرب تھا جس کو قاب قوسین سے ادا کیا جاسکتا ہے یا اس سے بھی قریب ہونے کے لئے زبان کا کوئی محاورہ بولا جاسکتا ہے تو پھر اس قرب کے بعد آپ ﷺ کی طرف مزید وحی کی گئی جو وحی بھی کی گئی یعنی اس وحی کے اندر جو پروگرام بھی پیش کیا گیا تھا وہ آپ ﷺ کے سامنے پیش کردیا گیا اور اس طرح جو کچھ آپ ﷺ کو پیش آیا وہ من و عن آپ ﷺ کو یاد رہا اس میں کسی طرح کی کوئی کمی و بیشی نہیں کی گئی اور آپ ﷺ کے دل نے اس میں کسی طرح کی کوئی ملاوٹ نہیں کی اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہے جو آپ ﷺ کو یاد نہ رہی یا آپ ﷺ کے مشاہدہ میں نہ آئی اور آپ ﷺ نے اس کو بیان کردیا جیسا کہ رویا میں اکثر ہوجایا کرتا ہے لیکن چونکہ یہ رویا کسی ایرے غیرے اور نتھو خیرے کی رویا نہیں تھی یہ ان روئیائے صادقہ کا نچوڑ اور خلاصہ تھا جو نبوت و رسالت کے ملنے کے بعد دیکھا گیا پھر جب نبوت سی پہلے جو کچھ آپ ﷺ نے دیکھا وہ صبح صادق کی طرح واضح اور صاف ہوگیا اور اس کی حقیقت کھلی تو وہ ہر زاویہ و کونہ سے فٹ آتا رہا تو آپ ﷺ کے نبوت کے بعد کے اس رئویا صادقہ کی جو صورت حال ہے اس میں تو کسی قسم کا کوئی شبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کوئی نظر کا فریب نہیں تھا اور آپ ﷺ کی نگاہوں نے کوئی دھوکہ نہیں کھایا تھا کہ حقیقت کچھ ہو اور آپ کچھ بیان کر رہے ہوں۔ لاریب اس کے اندر اج کچھ آپ ﷺ نے دیکھا وہ زیادہ حصہ عالم آخرت سے متعلق تھا اور جو عالم دنیا کے متعلق تھا وہ بھی من و عن ثابت ہوا اور جو آخرت میں پیش آنے والے واقعات آپ ﷺ نے بیان کئے وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ بیان کئے چونکہ وہ ابھی مشاہد میں نہیں آسکتے اس لئے اس کی زیادہ تاکید کر کے وضاحت کردی گئی تو ویہ وحی الٰہی کی بتائے ہوئے واقعات ہیں جو عین ًہادت سے بھی زیادہ صاف اور واضح ہیں کیونکہ عین شہادت میں بھی بعض اوقات کمی بیشی کا امکان موجود ہوتا ہے کہ ہوتا کچھ ہے اور نظر کچھ آتا ہے۔ اس جگہ نظر آنے والے اکثر واقعات ایسے تھے جن کا تعلق عالم دنیا سے نہیں تھا اس لئے اس کی اتنی وضاحت فرما دی گئی تاکہ کسی کو کسی قسم کا ابہام نہ رہے اور یہ تاکید اس لئے کہ نبی و رسول کو تو کسی قسم کا ابہام پہلے ہی نہیں تھا لیکن سامعین بھی ان واقعات کو صرف ایک خواب اور خیال ہی کہہ کر ٹال نہ دیں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کو کبھی بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس کا دکھلانے والا خود رب ذوالجلال والاکرام ہے اور دیکھنے والی ذات محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے اور معیت جبریل (علیہ السلام) کی۔ ذرا غور کرو کہ اس جگہ کوئی کمی بیشی کا سوال پیدا ہو سکتا ہے ؟
Top