Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Hashr : 2
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ١ؔؕ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا١ۗ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ١ۗ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
هُوَ
: وہی ہے
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَخْرَجَ
: نکالا
الَّذِيْنَ
: جن لوگوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا
مِنْ
: سے، کے
اَهْلِ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
مِنْ دِيَارِهِمْ
: ان کے گھروں سے
لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ
: پہلے اجتماع (لشکر) پر
مَا ظَنَنْتُمْ
: تمہیں گمان نہ تھا
اَنْ يَّخْرُجُوْا
: کہ وہ نکلیں گے
وَظَنُّوْٓا
: اور وہ خیال کرتے تھے
اَنَّهُمْ
: کہ وہ
مَّانِعَتُهُمْ
: انہیں بچالیں گے
حُصُوْنُهُمْ
: ان کے قلعے
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
فَاَتٰىهُمُ
: تو ان پر آیا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ حَيْثُ
: جہاں سے
لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ
: انہیں گمان نہ تھا
وَقَذَفَ
: اور اس نے ڈالا
فِيْ قُلُوْبِهِمُ
: ان کے دلوں میں
الرُّعْبَ
: رعب
يُخْرِبُوْنَ
: وہ برباد کرنے لگے
بُيُوْتَهُمْ
: اپنے گھر
بِاَيْدِيْهِمْ
: اپنے ہاتھوں سے
وَاَيْدِي
: اور ہاتھوں
الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ
: مومنوں
فَاعْتَبِرُوْا
: تو تم عبرت پکڑو
يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ
: اے نگاہ والو
وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے گھروں سے نکال دیا۔ تمہارے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے عذاب) سے بچا لیں گے۔ مگر خدا نے ان کو وہاں سے آ لیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں سے اُجاڑنے لگے تو اے (بصیرت کی) آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو
ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیارھم لاول الحشر . وہی ہے جس نے ان کفار اہل کتاب (یعنی بنی نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی بار اکٹھا کر کے نکال دیا۔ “ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ : یعنی خاندان بنی نضیر جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے تھا۔ مِنْ دِیَارِھِمْ : ان کے گھروں سے جو مدینہ میں تھے۔ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ بنی نضیر کی جلا وطنی کا واقعہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ ﷺ احد سے واپس آئے تھے اور بنی قریظہ کا واقعہ جنگ احزاب سے واپسی کے وقت ہوا۔ ان دونوں واقعات کے درمیان دو سال کی مدت ہوئی۔ بنی نضیر کو جلا وطن کرنے کا سبب یہ ہوا کہ (ہجرت کے بعد) جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو بنی نضیر سے یہ معاہدہ ہوگیا کہ فریقین میں سے کوئی کسی سے جنگ نہیں کرے گا اور بنی نضیر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر رسول اللہ ﷺ کے مخالفوں سے بھی نہیں لڑیں گے (اور نہ مسلمانوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے ہمراہ ہو کر لڑیں گے) ۔ جب رسول اللہ ﷺ کو بدر کی لڑائی میں مشرکوں پر غلبہ حاصل ہوگیا ‘ تو بنی نضیر نے کہا : خدا کی قسم ! یہ وہی نبی ہیں جن کے اوصاف توریت میں ہم کو ملتے ہیں۔ ان کا جھنڈا (کبھی) نہیں لوٹایا جاسکتا۔ اس کے بعد جب جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو بنی نضیر رسول اللہ ﷺ کی صداقت میں شک کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی دشمنی پر علی الاعلان اتر آئے اور رسول اللہ ﷺ سے جو ان کا معاہدہ تھا اس کو توڑ دیا۔ چناچہ بنی نضیر کا ایک شخص کعب ابن اشرف چالیس یہودیوں کو لے کر پہنچا اور قریش سے ملا اور فریقین نے باہم مل کر ایک معاہدہ کیا کہ سب (قریش اور بنی نضیر) رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر متحد رہیں گے۔ ابو سفیان چالیس قریشیوں کو اور کعب بن اشرف چالیس یہودیوں کو لے کر کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور ایک معاہدہ کعبہ کے پردوں کے اندر آپس میں کرلیا۔ توثیق معاہدہ کے بعد جب کعب اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ واپس آگیا اور حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے فوراً رسول اللہ ﷺ کو اس معاہدہ کی اطلاع دی اور رسول اللہ ﷺ نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم دے دیا اور حضرت محمد ؓ بن مسلمہ نے جا کر کعب کو قتل کردیا۔ کعب کو قتل کرنے کی تفصیل سورة آل عمران کی آیت : . لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِیْرًاکی تفسیر کے ذیل میں ہم نے کردی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو بنی نضیر کی بد عہدی کی متعدد اطلاعیں ملی تھیں۔ (1) بنی نضیر نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیام بھیجا کہ (ہم آپ ﷺ کا کلام سننا اور آپ ﷺ کا پیام سمجھنا چاہتے ہیں (اس لیے) آپ ﷺ اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ اور ہم اپنے تیس عالموں کے ساتھ نکل کر آجائیں اور درمیانی مقام پر سب جمع ہوجائیں اور ہمارے علماء آپ ﷺ کی باتیں سنیں ‘ اگر وہ آپ ﷺ کی تصدیق کردیں گے اور آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں گے تو ہم سب ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس گزارش کو مان لیا اور دوسرے روز تیس صحابہ کو ساتھ لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ ادھر سے تیس یہودی عالم نکل آئے۔ جب دونوں فریق کھلے میدان میں پہنچ گئے تو بنی نضیر نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : محمد ﷺ تک تمہاری رسائی کیسے ہوگی۔ ان کے ساتھ تو ان کے تیس رفیق جانثار موجود ہیں۔ جب ان کی یہ تدبیر کامیاب نہیں ہوئی تو پیام بھیجا ‘ ہم (سب) ساٹھ آدمی ہیں (اس گڑبڑ میں) آپ ﷺ کی بات کیسے سمجھ پائیں گے ‘ اس لیے آپ ﷺ اپنے تین ساتھیوں کو لے کر آئیں ‘ ہمارے بھی تین عالم آجائیں گے اور آپ ﷺ کی بات سنیں گے ‘ اگر انہوں نے تصدیق کردی اور آپ ﷺ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی مسلمان ہوجائیں گے۔ چناچہ حضور ﷺ والا تین صحابہ ؓ کے ساتھ برآمد ہوئے اور ادھر سے تین یہودی بھی آگئے جن کے پاس خنجر تھے اور رسول اللہ ﷺ کو اچانک شہید کردینا کا ارادہ تھا لیکن بنی نضیر کی ہی ایک عورت تھی جس کا بھائی مسلمان ہوگیا تھا اور انصاری تھا۔ اس عورت نے بطور خیر خواہی اپنے بھائی کو کہلا بھیجا اور بنی نضیر کے ارادہ کی اطلاع دے دی۔ اس کا بھائی فوراً دوڑا اور قبل اس کے کہ رسول اللہ ﷺ یہودیوں تک پہنچتے ‘ آپ ﷺ کو یہ مخفی طور پر اطلاع دے دی۔ آپ ﷺ فوراً مدینہ کی طرف لوٹ آئے۔ ابوداؤد ‘ بیہقی ‘ عبد بن حمید اور عبدالرزاق نے صحیح سند کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا ہے اور ایک طویل حدیث کے ذیل میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بنی نضیر نے یہ غداری اس وقت کی ‘ جب واقعۂ بدر کے بعد قریش نے ان کو لکھا تھا کہ تم لوگ مسلح زرہ پوش اور حفاظتی قلعوں والے ہو ‘ تم کو چاہیے کہ ہمارے دشمن سے لڑائی لڑیں یا ایسا ایسا کریں۔ اس تحریر کو پانے کے بعد بنی نضیر نے مذکورۂ بالا غداری کی۔ بغوی نے اس قصہ کو ذکر کرنے کے بعد بیان کیا ہے۔ جب دوسرا دن ہوا تو صبح ہی رسول اللہ ﷺ جنگی دستے لے کر ان کی طرف چل پڑے اور اکیس روز تک ان کا محاصرہ جاری رکھا۔ بنی نضیر نے ایک بدعہدی یہ کی تھی کہ بئر معونہ سے واپسی میں عمرو بن امیہ ضمری نے دو آدمیوں کو قتل کردیا تھا (حسب معاہدہ) اداء دیت میں کچھ (مالی) مدد لینے کے لیے رسول اللہ ﷺ بنی نضیر کے پاس پہنچے (اور ایک پہاڑی کے دامن میں ان سے باتیں کرنے کے لیے بیٹھ گئے) تو یہودیوں نے بالائے قلعہ سے آپ ﷺ کے اوپر پتھر لڑھکا کر گرانے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے آپ کو محفوظ رکھا اور اس کی اطلاع آپ کو دے دی۔ ہم نے یہ قصہ سورة مائدہ کی آیت : . یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہ عَلَیْکُمْ اِذْھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھَُمْ کی تفسیر میں لکھ دیا ہے۔ ابن حمید نے بروایت عکرمہ بیان کیا کہ جب اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس واقعہ کی خبر دے دی اور رسول اللہ ﷺ مدینہ کو واپس آگئے تو کنانہ بن صوریا نے یہودیوں سے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ محمد ﷺ کیوں اٹھ کر چلے گئے ؟ یہودیوں نے جواب دیا : خدا کی قسم ! اس کی وجہ نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ کنانہ نے کہا : کیوں نہیں۔ توریت کی قسم ! میں تو اس کی وجہ جانتا ہوں محمد ﷺ کو تمہارے ارادہ کی خبر مل گئی (اس لیے وہ اٹھ کھڑے ہوئے) تم لوگ خود فریبی میں مبتلا نہ ہو۔ خدا کی قسم ! وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ اللہ نے ہی ان کو تمہارے ارادہ کی اطلاع دے دی اس لیے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ بلاشبہ وہ آخری نبی ﷺ ہیں ‘ تم چاہتے تھے کہ وہ نبی ہارون کی نسل سے ہو مگر اللہ نے جہاں چاہا (اور جس کو چاہا) وہ نبوت عطا کردی۔ ہماری کتابیں اور وہ توریت جو ہم نے پڑھی ہے وہ محرف اور تغیر یافتہ بھی نہیں ہے ‘ بتارہی ہیں کہ آخری نبی کا مقام پیدائش مکہ اور مقام ہجرت یثرب ہوگا ‘ ان کے احوال و اوصاف وہی ہیں جو ہماری کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ‘ ایک حرف کا بھی فرق نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں تم یہاں سے کوچ کر رہے ہو ‘ تمہارے بچے ضائع ہو رہے ہیں ‘ تم اپنے گھروں کو چھوڑ رہے ہو اور اپنے مالوں کو خیر باد کہہ رہے ہو۔ یہ بات تمہارے لیے بہت ہی بری ہے۔ میرا کہا مانو ‘ دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلو ‘ کسی تیسری بات میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا : وہ دو باتیں کونسی ہیں ؟ کنانہ نے کہا : یا تو مسلمان ہوجاؤ ‘ محمد ﷺ کے ساتھی بن جاؤ ‘ اس صورت میں تمہارے اموال و اولاد کی حفاظت ہوجائے گی ‘ جو حال محمد ﷺ کے ساتھیوں کا ہے وہی تمہارا ہوگا ‘ تمہارے مال تمہارے قبضہ میں رہیں گے اور تم کو گھروں سے بھی باہر نہیں کیا جائے گا ‘ یہودیوں نے کہا : ہم توریت کو اور موسیٰ کی نصیحت کو تو نہیں چھوڑیں گے۔ کنانہ نے کہا : دوسری بات یہ ہے کہ وہ تمہارے پاس حکم بھیجیں گے کہ میرے شہر سے نکل جاؤ ‘ تم کہہ دینا بہت اچھا۔ اس صورت میں وہ تمہاری جانوں اور مالوں کو اپنے لیے حلال نہیں قرار دیں گے۔ تم چاہو اپنے مال فروخْت کردینا ‘ بیچنا ‘ نہ چاہو تو اپنے پاس رکھنا (اور لے جانا) یہودیوں نے کہا : ہاں ! یہ بات ٹھیک ہے۔ سلام بن مشکم بولا ‘ تم نے جو حرکت کی مجھے تو پہلے ہی وہ ناپسند تھی۔ اب وہ ہمارے پاس پیام بھیجیں گے کہ میرے شہر سے نکل جاؤ۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو محمد بن مسلمہ کو بلوایا اور حکم دیا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے بھیجا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ تم لوگ میرے شہر سے نکل جاؤ۔ حسب الحکم محمد بن مسلمہ بنی نضیر کے پاس گئے اور فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ایک پیام دے کر مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے لیکن پیام ظاہر کرنے سے پہلے میں ایک بات سے تم کو آگاہ کر دوں گا جس کو تم بھی جانتے ہو ‘ یہودیوں نے کہا : وہ کیا بات ہے ؟ ابن مسلمہ نے کہا : میں تم کو توریت کی جو موسیٰ (علیہ السلام) پر اتاری گئی تھی ‘ قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کیا تم واقف ہو کہ محمد ﷺ کی بعثت سے پہلے جب کہ توریت تمہارے پاس موجود تھی ‘ تم نے اپنی مجلسوں میں کہا تھا کہ ابن مسلمہ ! اگر تو یہودی بننا چاہتا ہے تو ہم تجھے یہودی بنا لیں گے اور اگر تو عذاب پانا پسند کرے گا تو ہم تجھے سزا دیں گے۔ میں نے جواب دیا تھا مجھے یہودی نہ بناؤ بلکہ سزا دینا چاہو تو سزا دے دو ۔ خدا کی قسم ! میں یہودی کبھی نہیں بنوں گا ‘ چناچہ تم نے مجھے سزا دی تم نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمارے دین میں داخل ہونے سے صرف یہ امر مانع ہے کہ یہ یہودیوں کا دین ہے گو یا تو شریعت حنیفہ کا طلبگار ہے جس کا ذکر تو نے سن پایا ہے ‘ لیکن یاد رکھ کہ وہ ابو عامر راہب کے پاس نہیں ہے ‘ نہ وہ حنیفہ والا ہے۔ حنیفہ والا تو وہ ہے جو بڑا ہنسوڑا اور قتال ہوگا (یعنی مسیلمہ کذاب جو بنی حنیفہ میں سے تھا) اس کی آنکھوں میں سرخی ہوگی ‘ وہ یمن کی طرف سے آئے گا اونٹ پر سوار ہوتا ہوگا اور چادر اس کا لباس ہوگی ‘ اس کی تلوار اس کے کندھے پر ہوگی اور وہ حکمت کی باتیں کرے گا اور تمہاری اس بستی میں قتل و غارت ہوگا اور مثلہ کیا جائے گا۔ (ناک ‘ کان مقتول کے کاٹنے کو مثلہ کرنا کہتے ہیں) کہنے لگے : ہاں ! خدا گواہ ہے ‘ ہم نے ایسا کہا تو تھا اور کوئی اس کو بھولا بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ تم نے غداری کر کے سابق معاہدہ جو میں نے تم سے کیا تھا ‘ توڑ دیا اور جس غداری کا یہودیوں نے ارادہ کیا تھا اس کو بیان کردیا اور یہ بھی بتادیا کہ عمرو بن حجاش مکان کی چھت کے اوپر سے اللہ کے رسول اللہ ﷺ پر پتھر لڑھکانا چاہتا تھا ‘ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم لوگ میرے شہر سے نکل جاؤ ‘ میں دس روز کی تمہیں مہلت دیتا ہوں ‘ اس کے بعد (یہاں) تم میں سے جو کوئی نظر آئے گا اس کی گردن مار دوں گا۔ یہ فرمان سننے کے بعد یہودی تیاری میں لگے اور سواریاں بھی (جنگل سے) منگوائیں۔ یہ لوگ جلا وطن ہونے کی تیاری میں مشغول ہی تھے کہ عبداللہ ابن ابی کے دو قاصد سوید اور اعمش ان سے آکر ملے اور کہا : عبداللہ بن ابی نے کہا ہے کہ تم لوگ اپنے گھر اور سامان چھوڑ کر ہرگز مدینہ سے نہ جانا بلکہ اپنے قلعوں میں رہنا ‘ میرے پاس میری قوم کے اور عرب کے دو ہزار آدمی ہیں۔ ہم سب (تمہاری حفاظت کے لیے) تمہارے قلعوں کے اندر آجائیں گے اور اس سے پہلے کہ مسلمان تم تک پہنچیں۔ ہم سب تم سے پہلے مرجائیں گے اور بنی قریظہ بھی تمہاری مدد کریں گے ‘ تم کو بےمدد نہیں چھوڑیں گے ‘ ان کے علاوہ بنی غطفان میں جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے ‘ اس کے بعد ابن ابی نے کعب بن اسد قرظی کے پاس آدمی بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ تم اور تمہارے ساتھی میری مدد کریں ‘ کعب نے کہا : ہم میں سے کوئی ایک آدمی بھی معاہدہ کو نہیں توڑے گا۔ ابن ابی اس جواب سے مایوس ہوگیا اور ارادہ کیا کہ بنی نضیر اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاملہ کو الجھا رکھے۔ پھر حیی بن اخطب قرظی کے پاس آدمی بھیجا اور امداد طلب کی۔ حیی نے شروع میں تو انکار کیا لیکن ابن ابی اس کے پاس پیام بھیجتا رہا ‘ آخر کار حیی نے کہا کہ میں محمد ﷺ کے پاس کسی کو بھیج کر یہ اطلاع دے دوں گا کہ ہم میں سے کوئی اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جائے گا ‘ آپ کو جو کچھ کرنا ہے کریں۔ حیی بن اخطب کو ابن ابی کی بات سے کچھ امید ہوگئی تھی۔ سلام بن مشکم نے کہا : اگر تیری رائے کی سبکی کا مجھے اندیشہ نہ ہوتا تو میں اپنے ساتھ والے یہودیوں کو لے کر تجھ سے الگ ہوجاتا۔ حیی ہوشیار رہ۔ خدا کی قسم ! تو جانتا ہے اور ہم بھی جانتے ہیں اور جو لوگ تیرے ساتھ ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور ان کے اوصاف ہمارے پاس (ہماری کتابوں میں لکھے ہوئے) موجود ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے ان کا اتباع نہیں کیا۔ اس کی وجہ صرف یہ جلن ہے کہ ہم کو یہ حسد ہوا کہ ہارون کی اولاد سے نبوت نکل گئی ‘ مناسب یہی ہے کہ انہوں نے ہم کو جو حکم دیا ہے ہم اس کو قبول کرلیں اور ان کے شہروں سے نکل جائیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس بد عہدی (عہد شکنی) میں تو میرا مخالف ہے (ضرور نقض معاہدہ کرے گا تو مناسب یہ ہے کہ) چھواروں کی فصل آنے دے۔ جب چھواروں کی فصل آجائے گی تو ہم آجائیں گے یا وہ ہی چھواروں کے لیے ہمارے پاس آپہنچیں گے۔ حیی نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا اور اپنے بھائی جدی بن اخطب کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ کہنے کے لیے بھیجا کہ ہم اپنے گھر بار سے نہیں ہٹیں گے ‘ تم جو کرنے والے ہو کرو۔ حیی نے اپنے بھائی جدی کو ابن ابی کے پاس بھی اس بات کی اطلاع دینے کے لیے بھیج دیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو (فسخ معاہدہ کی) خبر بھیج دی ہے ‘ اب تم نے بنی نضیر سے جو وعدہ کیا تھا اس کے موافق عمل کرو۔ غرض رسول اللہ ﷺ نے جب جدی کی زبانی حیی کا پیغام سنا تو اللہ اکبر کہا اور مسلمانوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ تکبیر کہی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اب میں یہودیوں سے مقابلہ کروں گا۔ جدی جب ابن ابی کے پاس پہنچا تو وہ گھر میں تھا اور کچھ لوگ اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ‘ ادھر رسول اللہ ﷺ نے ندا کردی تھی کہ بنی نضیر کی آبادیوں کی طرف مسلمان روانہ ہوجائیں۔ حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی ‘ ابن ابی کے پاس آئے۔ ابن ابی کے پاس ایک جماعت موجود ہی تھی اور جدی بن اخطب بھی تھا۔ آپ نے آکر اپنی زرہ پہنی اور تلوار لی اور (بنی نضیر کی طرف) چل دیئے۔ جدی بن اخطب حی کے پاس پہنچا ‘ حیی نے پوچھا : کیا خبر ہے ؟ جدی نے کہا : بری ‘ جس وقت میں نے جا کر محمد ﷺ کو وہ پیام پہنچایا جس کے لیے مجھے بھیجا گیا تھا تو انہوں نے اللہ اکبر کہا اور کہا : اب میں یہودیوں سے جنگ کروں گا۔ میں ابن ابی کے پاس پہنچا تو وہاں کوئی خبر ہی نہ تھی۔ ابن ابی نے اتنا کہا تھا کہ میں قبیلۂ غطفان کے ان لوگوں کے پاس اطلاع بھیج رہا ہوں جو حلیف ہیں ‘ وہ آکر تمہارے ساتھ ہوجائیں گے۔ غرض رسول اللہ ﷺ بنی نضیر کی طرف روانہ ہوگئے اور مدینہ میں اپنی جگہ ابن امّ مکتوم کو مقرر کردیا۔ عصر کی نماز بنی نضیر کے میدان میں پہنچ کر پڑھی۔ جب رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو بنی نضیر قلعوں کی دیواروں پر چڑھ گئے اور وہاں سے پتھر اور تیر برسانے لگے۔ بنی قریظہ الگ رہے ‘ انہوں نے بنی نضیر کی مدد نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز پڑھ کر دس صحابیوں کے ساتھ اپنے گھر واپس آگئے اور اپنی جگہ حضرت علی کو لشکر کا امیر مقرر کردیا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔ رات بھر مسلمانوں نے محاصرہ قائم رکھا۔ جب صبح ہوئی تو بلال ؓ نے اذان دی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان صحابہ کے ساتھ جو آپ ﷺ کے ہمراہ واپس آئے تھے (یعنی محافظ دستہ) فجر کی نماز بنی خطم کے میدان میں پڑھی ‘ اسی حالت میں حیی ابن اخطب نے پیام بھیجا کہ جو کچھ آپ چاہتے ہیں ‘ ہم دینے کو تیار ہیں ‘ ہم آپ کی بستیوں سے نکل جائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں آج اس کو منظور نہیں کرتا ‘ البتہ جتنا سامان ‘ زرہ اور اسلحہ کے علاوہ تم اونٹ پر لاد سکتے ہو ‘ لے جاؤ اور اپنے گھروں سے نکل جاؤ۔ سلام بن مشکم نے کہا : کم بخت اس بات کو قبول کرلے ‘ قبل اس کے کہ اس سے بھی بری بات تجھے قبول کرنی پڑے۔ حیی نے کہا : اس سے زیادہ بری بات اور کیا ہوگی ؟ سلام نے کہا) آئندہ) بچے باندی غلام بنا لیے جائیں گے اور مال کے ساتھ جانیں بھی جائیں گی۔ اس سے تو آسان ہے کہ مال ہی چلا جائے۔ حیی نے ایک یا دو روز اس بات کو ماننے سے انکار کردیا۔ یامین بن عمیر اور ابو سعید بن رہب نے جب یہ کیفیت دیکھی تو ایک دوسرے سے کہا : خدا کی قسم ! تم یقینی طور پر جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ پھر مسلمان ہونے میں تامل کیا ہے ‘ ہم مسلمان ہوجائیں۔ ہماری جانیں بھی محفوظ ہوجائیں گی اور مال بھی۔ یہ گفتگو کرنے کے بعد رات کو یہ دونوں نیچے اتر آئے اور مسلمان ہوگئے اور ان کا جان و مال محفوظ ہوگیا۔ محمد بن عمرو بن سعد ‘ بلاذری ‘ ابو معشر اور ابن حبان کے قول پر رسول اللہ ﷺ نے محاصرہ جاری رکھا۔ ابن اسحاق اور ابو عمرو نے مدت حصار چھ روز اور سلیمان تیمی نے تقریباً بیس روز اور ابن کلاع نے 23 روز بتائی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں پچیس روز تک محاصرہ رکھنے کا ذکر آیا ہے۔ دوران محاصرہ جو مکان یہودیوں کے متصل اور قریب تھا وہ خود ان کو ڈھا رہے تھے اور جو مکان مسلمانوں کے قریب تھے مسلمان ان کو گرا رہے تھے اور آگ لگا رہے تھے۔ آخر صلح ہوگئی ‘ یہودی نیچے اتر آئے اور اسلحہ کو چھوڑ کر باقی سامان اونٹوں پر لادنے لگے۔ عمرو بن حجاش کو کسی نے اچانک قتل کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر سن کر خوشی ہوئی۔ بنی نضیر نے کہا : کچھ لوگوں پر ہمارا قرض ہے (اتنی مہلت دی جائے کہ ہم قرضہ وصول کرلیں) حضور ﷺ نے فرمایا : جلدی کرو۔ حضرت اسید ؓ بن حضیر پر ابو رافع کے 120 دینار ایک سال کی ادائیگی کے وعدہ پر قرض تھے ‘ ابو رافع نے میعاد آنے سے پہلے مطالبہ کیا ‘ آخر فریقین میں 120 دینار کے بجائے اسّی دینار پر صلح ہوگئی۔ بنی نضیر نے عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر سوار کیا اور جو سامان لاد سکتے تھے ‘ وہ لاد لیا ‘ یہاں تک کہ گھر کو ڈھا کر دروازوں کی چوکھٹیں بھی اکھاڑ لیں ‘ باقی مال و اسباب اور اسلحہ پر رسول اللہ ﷺ نے قبضہ کرلیا۔ پچاس زرہیں ‘ پچاس خود اور 34 تلواریں دستیاب ہوئیں۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ تین گھروں والے ایک اونٹ (مشترک طور سے) جتنا سامان لاد کرلے جاسکتے ہوں ‘ لے جائیں ‘ باقی جو رہ جائے گا وہ رسول اللہ ﷺ کا ہوگا۔ ضحاک کا بیان ہے کہ ہر تین آدمیوں کو (سامان لادنے کے لیے) ایک اونٹ دیا گیا تھا۔ غرض بنی نضیر اس طرح (خانہ بدوش ہو کر) مدینہ سے شام کی طرف یعنی اذرعات اور اریحا کو چلے گئے۔ صرف دو خاندان ایک آل حقیق اور دوسرا حیی بن اخطب کا قبیلہ (بجائے شام کے) خیبر کو چلے گئے ‘ ان میں کا ایک گروہ حیرہ کو چلا گیا (حیرہ اس وقت عراق کی راجدھانی تھا) یہی مراد ہے آیت : ھُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِھِمْ کی۔ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ : میں امام بمعنی وقت ہے (پہلے حشر کے وقت) جیسے آیۃ : قَدَّمْتُ لِحَیٰوتِیْ میں لام بمعنی وقت ہے۔ اوّل حشر سے کیا مراد ہے اور حشر ثانی کونسا ہوگا ؟ زہری کا بیان ہے کہ بنی نضیر اس سبط میں سے تھے جن کو کبھی جلاوطن نہیں کیا گیا۔ باوجودیکہ اللہ نے ان کے لیے جلا وطن ہونا لکھ دیا تھا ‘ اگر ان کو جلا وطن نہ کیا جاتا تو دنیا میں ہی ان پر عذاب آجاتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : میدان حشر ملک شام میں ہوگا ‘ جس شخص کو اس آیت میں شک ہو وہ یہ آیت پڑھے۔ ملک شام کی طرف یہ پہلا حشر ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا ‘ تم لوگ نکل جاؤ ‘ انہوں نے پوچھا : کہاں جائیں ؟ فرمایا : ارض محشر کی طرف۔ قیامت کے دن سب مخلوق کو جمع کر کے ارض شام کی طرف لایا جائے گا۔ کلبی نے کہا : اوّل حشر اس لیے فرمایا کہ یہ پہلا واقعہ تھا ‘ جس میں اہل کتاب کو جزیرۂ عرب سے رسول اللہ ﷺ نے نکالا ‘ پھر حضرت عمر ؓ نے (اپنے زمانہ میں) سب ہی اہل کتاب کو جزیرۂ عرب سے نکال باہر کردیا۔ مرہ ہمدانی نے کہا : یہ پہلا حشر مدینہ سے ہوا اور دوسرا حشر حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں خیبر اور سارے جزیرۂ عرب سے ملک شام کے اذرعات اور اریحا کی طرف ہوا۔ قتادہ نے کہا : یہ پہلا حشر سب کو سمیت کر ملک شام میں جمع کردینا ہوا اور دوسرا حشر وہ ہوگا کہ ایک آگ مشرق کی طرف سے (کسی غار سے نکل کر) ان کو ہنکا کر مغرب کی طرف لے جائے گی۔ جہاں رات کو وہ ٹھہریں گے ‘ وہیں آگ بھی ٹھہر جائے گی اور جہاں وہ دوپہر کو رکیں گے ‘ وہیں آگ بھی رک جائے گی۔ بخاری (رح) نے حضرت انس کی روایت سے لکھا ہے کہ قیامت کی سب سے پہلی علامت یہ ہوگی کہ ایک آگ لوگوں کو مشرق سے ہنکا کر مغرب کی طرف لے جائے گی ‘ اس روایت میں آیت کا ذکر نہیں ہے۔ حشر کا معنی ہے کسی جماعت کو ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا۔ ما ظننتم ان یخرجوا و ظنوا انھم ما نعتھم حصونھم من اللہ فاتھام اللہ من حیث لم یحتسبوا و قذف فی قلوبھم الرعب یخربون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین فاعتبروا یاولی الابصار . ” تمہارا تو گمان بھی نہ تھا کہ (وہ اپنے گھروں سے) نکل جائیں گے اور خود انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ سے بچا لیں گے۔ سو ان کو اللہ (کا عتاب) ایسی جگہ سے آپہنچا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے۔ سو اے دانشمندو ! اس حالت کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔ “ مَا ظَنَنْتُمْ : یعنی اے مسلمانو ! تمہارا تو یہ گمان بھی نہ تھا کہ بنی نضیر نکل جائیں گے کیونکہ ان کے پاس مضبوط طاقت تھی اور وہ محفوظ تھے اور ان کو اعتماد تھا کہ ان کے قلعے اللہ کے عذاب سے ان کی حفاظت کریں گے کیونکہ قلعے بہت مضبوط اور محفوظ تھے۔ فَاَتٰھُمُ اللہ : یعنی اللہ کا حکم اور عذاب ان پر آگیا اور وہ جلاوطنی پر مجبور ہوگئے۔ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ : رعب ‘ گھبراہٹ ‘ خوف (قاموس) یعنی اللہ نے ان کے دلوں میں خوف ڈال دیا یا خوف بھر دیا۔ (بیضاوی) صاحب قاموس نے لکھا ہے : رَعَبَہٗ : اس کو بھر دیا۔ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ : وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے برباد کرتے تھے۔ وبایدی المؤمنین کا عطف بایدیھم پر ہے۔ مسلمانوں نے جو ان کے گھروں کو تباہ کیا ‘ وہ نتیجہ تھا بنی نضیر کے بغض اور عہد شکنی کا ‘ گویا (عہد شکنی کر کے) انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے گھر برباد کیے۔ اخراب کا معنی ہے بیکار کر کے اور کسی چیز کو برباد کر کے چھوڑنا۔ تخریب کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ن کو اختیار دیا تھا کہ جو چیز چاہیں (سوائے اسلحہ کے) اونٹ پر لاد کرلے جائیں۔ انہوں نے اسی بنیاد پر اپنے گھر ڈھا کر ‘ دروازہ کی چوکھٹیں اور لکڑی کے تختے نکالے اور اونٹوں پر لاد کرلے گئے اور جو حصۂ مکان باقی رہا ‘ اس کو مسلمانوں نے ڈھا دیا۔ ابن زید نے کہا : انہوں نے ستون اکھاڑے ‘ چھتیں توڑ ڈالیں ‘ دیواروں میں نقب لگائے ‘ لکڑیاں ‘ تختے ‘ یہاں تک کہ کیلیں بھی اکھاڑ لیں اور مکانوں کو ڈھا دیا ‘ تاکہ مسلمان ان میں نہ رہ سکیں۔ قتادہ نے کہا : مسلمان بیرونی جانب سے اپنی طرف کے حصہ کو اور یہودی اندرونی جانب سے مکانوں کو ڈھا رہے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : مسلمان جب کسی گھر پر قابض ہوتے تو اس کو گرا دیتے تھے تاکہ لڑائی کا میدان وسیع ہوجائے اور یہودی گھروں میں نقب لگا کر پشت کی طرف سے دوسرے مکانوں میں چلے جاتے اور پشت والے مکانوں میں قلعہ بند ہو کر خالی کیے ہوئے مکانوں پر پتھر برساتے تھے تاکہ جو مسلمان وہاں داخْل ہوچکے ہوں وہ زخمی ہوجائیں ‘ یہی مطلب ہے آیت : یخربون بیوتھم ..... کا۔ فَاعْتَبِرُوْا : پس ان یہودیوں کے حال کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو اور ان کی طرح کفر اور معصیت میں مبتلا نہ ہو : تاکہ جو مصیبت ان پر پڑی ‘ ویسی مصیبت تم پر نہ آجائے۔ جو علماء قیاس کو دلیل شرعی مانتے ہیں ‘ انہوں نے اس آیت پر استدلال کیا ہے۔ اصل اور فرع کے درمیان میں کسی ایسی صفت میں اشتراک ہوتا ہے جو سبب حکم بننے کی صلاحیت رکھتی ہے ‘ اسی مشترکہ صفت کی وجہ سے اصل کا حکم فرع کی طرف تجاوز کرتا ہے ‘ یہی معنی اعتبار کے ہیں اور اعتبار کا حکم آیت میں دیا گیا ہے۔ یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ : اے عقل و بصیرت والو (بصر سے مراد ذہنی بصیرت) محمد بن یوسف صالحی نے سبیل الرشاد میں بیان کیا ہے کہ محمد بن عمر نے حضرت ابراہیم بن جعفر کی وساطت سے حضرت جعفر کی طرف اس بیان کی نسبت کی ہے۔ جعفر نے کہا : جب بنی نضیر (مدینہؔ سے نکل گئے تو عمرو بن سعد یہودی مدینہ میں آیا اور بنی نضیر کے مکانوں کا اس نے چکر لگایا اور ان کو اجاڑ پا کر سوچ میں پڑگیا ‘ پھر بنی قریظہ کے پاس واپس گیا اور کہنے لگا : میں نے آج (بڑا) عبرت آفریں منظر دیکھا اپنے بھائیوں کی بستی کو ویران پایا (ایک وقت تھا کہ) وہاں میرے بھائی غیرت مند ‘ صاحب شرف اور بہادر تھے۔ فیصلہ کُن رائے اور عقل رسا کے مالک تھے۔ لیکن (افسوس کہ) ذلت کے ساتھ نکل گئے۔ اپنے مال چھوڑ گئے اور دوسرے لوگ اس مال کے مالک ہوگئے۔ اس سے پہلے کعب بن اشرف کا واقعہ ہوا تھا ‘ رات کو اس کے گھر کے اندر شب خون مار کر اس کو قتل کردیا گیا۔ ابن سنیہ کا واقعہ بھی اس سے پہلے ہوچکا ہے ‘ ابن سنیہ یہودیوں کا سردار تھا ‘ بڑا جیوٹ 1 اور طاقتور تھا اور پھر بنی قینقاع کی جلا وطنی بھی ہوگئی۔ بنی قینقاع یہودیوں کی دھار (یعنی عزت اور طاقت) تھے۔ ان کا محاصرہ کرلیا گیا ‘ کوئی شخص سر بھی (حصار سے) باہر نہیں نکال سکا۔ سب قیدی ہوگئے۔ آخر سب کے جلا وطن ہونے کی شرط پر ان کو چھوڑا گیا ‘ برادران ملت ! تم نے یہ سب واقعات دیکھے۔ اب میرا کہا مانو۔ آؤ سب محمد ﷺ کے تابع ہوجائیں۔ خدا کی قسم ! تم جانتے ہو کہ وہ نبی ہیں۔ ہم کو ان کی بشارت ہمارے علماء دیتے چلے آئے ہیں۔ آخر میں ابن السیان ابو عمیر اور ابن حواس بیت المقدس سے آئے۔ یہ دونوں یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان دونوں نے ہم کو (آنے والے اس) نبی کے اتباع کا حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ دونوں (بزرگوں) کا سلام اس نبی کو پہنچا دیا جائے۔ اس کے بعد ان دونوں کی اسی دین (اسلام) پر وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا۔ ان دونوں بزرگوں نے یہ باتیں ہماری اس عبرت کے لیے کہی تھیں۔ عمرو بن سعد کا یہ کلام سن کر سب خاموش رہے ‘ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ عمرو بن سعد نے پھر دوبارہ اپنی بات لوٹائی اور بنی قریظہ کو لڑائی ‘ گرفتاری اور جلا وطنی سے ڈرایا۔ اس وقت زبیر بن باطا نے کہا : توریت کی قسم ! میں نے ان کے حالات ابن باطا کی اس (اصل) توریت میں پڑھے ہیں جو موسیٰ پر نازل ہوئی تھی اور وہ توریت ان نسخوں میں سے نہیں تھی جو ہم نے لکھ رکھے ہیں۔ کعب بن سعد بولا ‘ ابو عبدالرحمن ! پھر آپ کو محمد ﷺ کے اتباع سے روکنے والا کون ہے ؟ زبیر نے کہا : آپ (روکنے والے) ہیں۔ کعب نے کہا : یہ کیسے ؟ توریت کی قسم ! میں تو آپ کے اور محمد ﷺ کے درمیان کبھی حائل نہیں ہوا۔ زبیر نے کہا : آپ ہی (ساری قوم کی طرف سے) عہد و پیمان کرنے کے مختار ہیں۔ آپ ان کی اتباع کریں گے تو ہم بھی اتباع کریں گے ‘ آپ ان کی پیروی سے انکار کردیں گے تو ہم بھی انکار کردیں گے۔ عمرو بن سعد نے کعب کی طرف متوجہ ہو کر کہا : سنو ! قسم توریت کی جو موسیٰ پر طور سینا میں نازل ہوئی۔ بلاشبہ ان کو دنیا میں عزت اور غلبہ حاصل ہوگیا۔ وہ بلاشک موسیٰ کے راستہ پر ہیں اور کل کو جنت میں وہ اور ان کی امت موسیٰ کے ساتھ فروکش ہوگی۔ کعب نے کہا : ہم تو اپنے وعدہ اور معاہدہ پر قائم رہیں گے اور محمد ﷺ بھی معاہدہ کی ذمہ داری کو نہیں توڑیں گے لیکن ہم دیکھیں گے کہ حیی کیا کرتا ہے ؟ اس کو تو بڑی ذلّت و خواری کے ساتھ نکالا گیا ہے۔ میرا خیال ہے وہ محمد ﷺ سے ضرور جنگ کرے گا ‘ اگر وہ فتح یاب ہوگیا تو ہم یہی چاہتے ہیں۔ ہم اپنے دین پر قائم رہیں گے اور اگر حیی پر محمد ﷺ کو غلبہ حاصل ہوگیا تو پھر زندگی میں کوئی خیر نہیں۔ ہم محمد ﷺ کے ساتھ رہنا چھوڑ دیں گے اور منتقل ہوجائیں گے۔ عمرو بن سعد نے کہا : پھر اس معاملہ میں ( یعنی منتقل ہونے میں) آپ تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔ یہ بات تو سامنے آ ہی گئی ہے ‘ کعب نے کہا : اس بات کا وقت ہاتھ سے نہیں نکلے گا۔ میں جب یہ بات چاہوں گا (یعنی مدینہ چھوڑ دینے کا ارادہ کروں گا) محمد ﷺ مان لیں گے ‘ عمرو نے کہا : کیوں نہیں (موقع اور وقت ہاتھ سے ضرور نکل جائے گا) توریت کی قسم ! جب محمد ﷺ چل کر ہماری طرف آجائیں گے تو ہم کو اپنے قلعوں میں چھپ جانا پڑے گا۔ پھر ان کے حکم پر ہم کو نیچے اترنا ہوگا اور وہ ہماری گردنیں مار دیں گے۔ کعب نے کہا : اس معاملہ میں میری رائے تو یہی ہے جو میں کہہ چکا۔ میرا دل تو گوارا نہیں کرتا کہ میں اس کا تابع ہوجاؤں اور وہ نہ (میرے) خاندان نبوت کی فضیلت کو پہچانے اور نہ میرے کارناموں کی قدر کرے اور (معمولی شخص کی طرح) مجھے اسرائیلی کہے۔ عمرو بن سعد نے کہا : کیوں نہیں ‘ اپنی جان کی قسم وہ ضرور (اس فضیلت حسب و نسب سے) واقف ہے۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اطلاع ملی کہ رسول اللہ ﷺ بنی قریظہ کے میدان میں آکر فروکش ہوگئے۔ عمرو بن سعد نے کہا : یہی وہ بات ہے جو میں نے تم سے کہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی قریظہ نے رسول اللہ ﷺ سے کیے ہوئے معاہدہ کو توڑ دیا تھا اور معرکہ خندق میں (قریش کے ساتھ مل کر) رسول اللہ ﷺ سے لڑے تھے۔
Top