Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 200
وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِيَقُوْلُوْا : اور تاکہ وہ کہیں دَرَسْتَ : تونے پڑھا ہے وَلِنُبَيِّنَهٗ : اور تاکہ ہم واضح کردیں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
اور ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم (یہ باتیں اہل کتاب سے) سیکھے ہوئے ہو اور تاکہ سمجھنے والے لوگوں کے لئے تشریح کردیں
وکذلک نصرف الایت ہم اسی طرح آیات کی تفصیل کرتے ہیں یا کھول کر بیان کرتے ہیں صُرْفٌکا لغوی معنی ہے کسی چیز کو ایک حال سے دوسرے حال کی جانب منتقل کرنا (تبدیل حالت تغییر وغیرہ کا مفہوم صرف کے مفہوم کے قریب ہے) کسی معنی کی تفصیل بھی اسی طرح ہوتی ہے کہ ایک عبارت سے دوسری عبارت کی طرف اداء معنی کے لئے انتقال کیا جاتا ہے تاکہ مخاطب سمجھ لے۔ قاموس میں ہے صرف الحدیث کا معنی ہے بات میں کچھ بڑھانا اور اس کو خوبصورت بنا دینا۔ یہ لفظ صرف فی الدراہم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے بعض دراہم کی قیمت کا بعض دراہم سے زیادہ ہونا۔ صرف الکلام کا معنی بھی صرف الحدیث کی طرح ہے لَہ ( علیہ السلام) عَلَیْہِ صرفٌاس کی اس پر بیشی ہے برتری ہے برتر چیز ممتاز ہوتی ہی ہے۔ ولیقولوا درست (تاکہ تبلیغ پورے طور پر ہوجائے) اور اس لئے بھی کہ اس کے نتیجہ میں کفار کہہ دیں کہ تم تو (کسی سے) سیکھ آئے ہو (جب ہی ایسی باتیں کہہ رہے ہو) ولیقولوا کا عطف محذوف ہے اور اس میں لام عاقبت ہے (یعنی تفصیل آیات کا لازمی نتیجہ یہ نکلے کہ کافر کہہ دیں تم یہ باتیں کسی سے پڑھ آئے ہو) دَرَسْتَ الکتٰبَتم نے کتاب کسی سے پڑھ لی (گویا درس کتاب کا معنی ہے کسی سے کتاب پڑھنا سیکھنا) حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کا توصیحی مطلب اس طرح بیان کیا ہے جب اہل مکہ کے سامنے تم قرآن پڑھو تو وہ کہیں کہ تم یسار اور جبر سے یہ کلام سیکھ آئے ہو یہ دونوں شخص رومی غلام تھے (اور شاید انجیل سے واقف تھے) اور پھر ہم کو پڑھ کر سناتے ہو اور دعویٰ یہ کرتے ہو کہ اللہ کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہے۔ ولنبینہ لقوم یعلمون اور تاکہ جاننے والے لوگوں کے (فائدہ کے لئے) ہم اس قرآن کو کھول کر بیان کردیں (قرآن کا نزول اگرچہ سارے جہان کے لئے ہے صرف اہل علم کے لئے خاص نہیں لیکن) اس سے فائدہ اندوز صرف اہل علم ہوتے ہیں اس لئے گویا قرآن کا نزول انہی کے لئے ہوا) بیِنُّۂ میں ضمیر غائب قرآن کی طرف راجع ہے آیات کا لفظ سابق کلام میں آگیا ہے اور آیات سے مراد ہے قرآن اس لئے قرآن کی طرف ضمیر راجع ہونا صحیح ہے۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ تصریف آیات کے تین مقصد ہیں۔ (1) تکمیل تبلیغ (2) جو شخص اس کو کسی انسان کا سکھلایا ہوا کلام کہے اس کا بدنصیب ہوجانا (3) جس کے سامنے حق واضح ہوجائے اور وہ مان لے تو اس کا سعادت مند ہوجانا۔
Top