Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 62
ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ١ؕ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ١۫ وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ
ثُمَّ : پھر رُدُّوْٓا : لوٹائے جائیں گے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَوْلٰىهُمُ : ان کا مولی الْحَقِّ : سچا اَلَا : سن رکھو لَهُ : اسی کا الْحُكْمُ : حکم وَهُوَ : اور وہ اَسْرَعُ : بہت جلد الْحٰسِبِيْنَ : حساب لینے والا
پھر (قیامت کے دن تمام) لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے۔ سن لو کہ حکم اسی کا ہے اور وہ نہایت جلد حساب لینے والا ہے
ثم ردوا الی اللہ مولہم الحق پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جائیں گے۔ مولی مالکلفظ ثمدلالت کر رہا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹائے جانے سے مراد ہے۔ قیامت کے دن حساب کے لئے پیشی ہونا یا یہ مراد ہے کہ مرنے کے بعد رحمت یا عذاب کے فرشتے ان کو اوپر چڑھا کرلے جاتے ہیں ایک طویل حدیث میں جس کے راوی حضرت براء بن عازب ہیں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کو یعنی مؤمن کی روح کو فرشتے اوپر چڑھا کرلے جاتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت کی طرف سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں یہ پاکیزہ روح کون سی ہے لے جانے والے فرشتے اس کا دنیوی سب سے اچھا نام لے کر کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے یہاں تک کہ آسمان دنیا تک اس کو لے کر پہنچتے ہیں اور (دروازہ) کھلوانا چاہتے ہیں تو کھول دیا جاتا ہے اور ہر آسمان کے فرشتے اس کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور متصل آسمان تک پہنچا دیتے ہیں اسی طرح ساتویں آسمان تک اس کو پہنچا دیا جاتا ہے یہاں اللہ فرماتا ہے میرے بندہ کا اعمالنامہ علیین میں درج کرلو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو ۔ کافر کے بارے میں حضور نے فرمایا (ملائکہ) اس کو چڑھا کرلے جاتے ہیں اور ملائکہ کے جس گروہ کی طرف سے اس کو لے کر گزرتے ہیں تو وہ دریافت کرتے ہیں یہ گندی روح کون ہے لے جانے والے فرشتے اس کے دنیوی ناموں میں سے بدترین نام لے کر کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے یہاں تک کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور (آسمان کا دروازہ) کھلوانا چاہتے ہیں مگر وہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر حضور ﷺ نے پڑھا : لا تفتح لہم ابواب السماء الخ اللہ فرماتا ہے سب سے نچلی زمین کے اندر سجین میں اس کا اعمالنامہ درج کرلو نتیجہ میں اس کی روح کو دور پھینک دیا جاتا ہے پھر حضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (ومن یشرک باللّٰہ فکانّمَا خرمن السمآء فتخطفہ الطیر او تہوی بہ الریح فی مکان سحیق) ۔ الا لہ الحکم خوب سن لو کہ حکم بس اللہ ہی کا ہوگا یعنی کسی اور کا نہیں۔ وہو اسرع الحاسبین اور وہ بہت تیزی سے حساب لے لے گا (ایک وقت میں) ایک کا حساب اس کو دوسرے (کے) حساب سے مانع نہیں ہوسکتا۔ حدیث میں آیا ہے۔ دنیا کے آدھے دن (کے برابر وقت) میں اللہ ساری مخلوق کا حساب لے لے گا۔
Top