Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اسے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس (تنگی) سے نجات بخشے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں
قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر آپ پوچھئے تم کو بحر و بر کی تاریکیوں سے کون بچاتا ہے چونکہ تاریکی اور مصیبت دونوں ہولناک ہوتی ہیں اس لئے بطور استعارہ آیت میں تاریکیوں سے مراد ہیں مصائب و مقامات ہلاکت۔ لوگ جب تری خشکی کا سفر کرتے اور دوران سفر میں راستہ سے بھٹک جاتے ہیں طوفانی موجیں اور بادل کی کڑک ہر طرف سے گھیر لیتی تو اس وقت خلوص کے ساتھ وہ اللہ کو پکارتے تھے کیونکہ اتنا وہ جانتے کہ پتھروں کے بت نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضرر۔ تدعونہ تضرعا و خفیۃ کہ تم اس سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کرتے ہو۔ تضرعزاری کرنا اور خوب گڑگڑا کر مانگنا۔ تضرعًا اور خفیۃً دونوں مصدر ہیں لیکن معنی اسم فاعل کے ہیں۔ چپکے چپکے دعا اور ذکر کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نہ کسی بہرے کو پکارتے ہو نہ غائب کو (یعنی اللہ نہ بہرا ہے نہ غائب کہ اس کو زور سے پکارا جائے بلکہ ہر وقت حاضر ہے اور پست ترین آواز کو بھی سنتا ہے) آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم عاجزی اور خلوص کے ساتھ دعا کرتے ہو (یعنی چپکے چپکے دعا کرنے سے مراد ہے خلوص کے ساتھ دعا کرنا) کیونکہ چپکے چپکے دعا کرنے میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا محض خلوص ٹپکتا ہے۔ لئن انجنا من ہذہ (اور کہتے ہو) کہ اگر اس (شدت اور ظلمت) سے اس نے ہمیں بچا لیا۔ ہذہٖسے ظلمت و شدت کی طرف اشارہ ہے۔ لئن انجٰنا سے پہلے یا لفظ قول محذوف ہے (یعنی کہتے ہو) یا یہ تدعونہکا بیان ہے (دعا کرتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں بچا لیا) لنکونن من الشکرین تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے شکر کی حقیقت ہے منعم کی نعمت کا اقرار کرنا اور نعمت کا حق ادا کرنا یعنی منعم کی رضامندی میں اس کو صرف کرنا۔
Top