Tafseer-e-Mazhari - Al-Qalam : 65
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ١ؕ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠   ۧ
رَبُّ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کا رب وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان فَاعْبُدْهُ : پس اس کی عبادت کرو وَاصْطَبِرْ : اور ثابت قدم رہو لِعِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت پر هَلْ : کیا تَعْلَمُ : تو جانتا ہے لَهٗ : اس کا سَمِيًّا : ہم نام کوئی
(یعنی) آسمان اور زمین کا اور جو ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی کی عبادت پر ثابت قدم رہو۔ بھلا تم کوئی اس کا ہم نام جانتے ہو
رب السموت والارض وما بینہما فاعبدہ واصطبر لعبادتہ وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان دونوں کے درمیان ہیں سو اسی کی عبادت کر اور اسکی عبادت پر قائم رہ۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یہ عدم نسیان کی علت ہے۔ فَاعْبُدْہُاور واصْطَبِرْ میں رسول اللہ ﷺ : کو خطاب ہے مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ اللہ کی رحمت و فضل آپ پر کامل طور پر ہے اور اللہ کی شان سے بعید ہے کہ وہ آپ کو بھول جائے لہٰذا بطور شکر نعمت آپ اس کی عبادت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجائیں اور عبادت کی پابندی کریں۔ تاخیر وحی اور استہزاء کفار سے پریشان خاطر نہ ہوں۔ (صبر کے بعد عربی میں علیٰ آتا ہے لیکن) یہاں اصطبر کے بعد لام کا استعمال کیا اشارہ اس طرف ہے کہ عبادت کی پابندی سے لذت حاصل کرو (ناگوار سمجھ کر ادا نہ کرو) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز میں میری آنکھ کی خنکی بنا دی گئی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کفار کی طرف سے ایذا رسانی اور مشکلات و شدائد پر آپ صبر کریں تاکہ اللہ کی عبادت پر آپ کو جماؤ حاصل ہو اور آپ اللہ کے عابد بن سکیں۔ (اس صورت میں لِعِبَادَتِہٖ میں لام اجلیہ ہوگا۔ ہل تعلم لہ سمیا۔ بھلا تو کسی کو اس کا ہم صفت جانتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے سمیًا کا ترجمہ کیا ایسا مثل جو عبادت کئے جانے اور الہٰ کہلانے کا مستحق ہو۔ کلبی نے کہا یعنی کیا آپ اللہ کے سوا کسی اور کو ایسا پاتے ہیں جس کا نام اللہ ہو مشرکین بتوں کو الٰہ (معبود) کہتے تھے اللہ (ذات جامع صفات کمالیہ) نہیں کہتے تھے وجہ یہ تھی کہ اللہ کی وحدانیت ظاہر تھی اس کی ذات کے کوئی مشابہ نہ تھا اس لئے لفظ اللہ کے مصداق میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ یہ جملہ حکم عبادت کی علت ہے کیونکہ جب اللہ کی وحدانیت ثابت شدہ ہے اور کوئی اس جیسا نہیں نہ کسی کو معبود ہونے کا استحقاق ہے تو لازمی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کے حکم کو تسلیم کیا جائے اور اسی کی عبادت کی جائے اور عبادت میں جو مشقت ہو اس کو برداشت کیا جائے اور صبر کیا جائے۔
Top