Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 133
اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ١ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ١ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآئِكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖۚ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
اَمْ كُنْتُمْ : کیا تم تھے شُهَدَآءَ : موجود اِذْ حَضَرَ : جب آئی يَعْقُوْبَ : یعقوب الْمَوْتُ : موت اِذْ : جب قَالَ : اس نے کہا لِبَنِيهِ : اپنے بیٹوں کو مَا : تم کس کی تَعْبُدُوْنَ : عبادت کرو گے مِنْ بَعْدِیْ : میرے بعد قَالُوْا : انہوں نے کہا نَعْبُدُ : ہم عبادت کریں گے اِلٰهَکَ : تیرے معبود کی وَاِلٰهَ : اور معبود اٰبَائِکَ : تیرے اٰبا اِبْرَاهِيْمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيْلَ : اور اسماعیل وَاِسْحَاقَ : اور اسحٰق اِلَٰهًا : معبود وَاحِدًا : واحد وَنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اسی کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار ہیں
بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اسی کے حکم بردار ہیں
دادا کی میراث قول باری ہے : ام کنتم شھدآء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الھلک والہ والہ آبآئک ابراھیم و اسمعیل فراسحق الھا واحدا (پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا ؟ اس نے وفات کے وقت اپنے بیٹوں سے پوچا۔ بچو، میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ ان سب نے جواب دیا : ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگ ابراہیم، اسمعیل اور اسحاق نے مانا ہے) یہاں دادا اور چچا کو باپ کا نام دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : واتبعت ملۃ ابائی ابراھیم و اسحق ویعقوبا میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم، اسحق اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے) حضرت ابن عباس نے میت کے دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں بھائیوں کے بجائے دادا کو وارث قرار دینے کے لئے ان آیات سے استدلال کیا ہے۔ الحجاج نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ حجر اسود کے پاس جا کر اس بات پر لعان کرسکتا ہوں کہ دادا باپ ہے، بخدا ، اللہ نے دادا اور دادی کا ذکر آباء کے الفاظ میں کیا ہے : واتبعت ملۃ ابائی ابراہیم و اسحق و یعقوب ۔ بھائیوں کے بجائے دادا کو وارث قرار دینے اور باپ کی عدم موجودگی میں دادا کو باپ کا درجہ دینے کے سلسلے میں حضرت ابن عباس کا استدلال اس امر کا مقتضی ہے کہ قول باری : وورثہ ابواہ فلامہ الثلث (اور اس کے ابوین اس کے وارث ہوں : تو اس کی ماں کے لئے تہائی حصہ ہے) کے ظاہر سے اس امر پر استدلال جائز ہے کہ بھائیوں کے بجائے میت کا دادا دو تہائی ترکے کا مستحق ہوگا، جس طرح میت کا باپ میت کے بھائیوں کے بجائے اس کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ زندہ ہو۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کے اسم کا اطلاق دادا کو شامل ہوتا ہے اور اس امر کا مقتضی ہے کہ میراث کے اندر باپ کی عدم موجودگی میں دادا اور باپ کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت ابوبکر اور دیگر صحابہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا : ابوبکر نے فیصلہ دیا تھا کہ دادا باپ ہے، اور انہوں نے دادا پر باپ ہونے کے اسم کا اطلاق کیا تھا۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی نے دادا کے بارے میں حضرت زید بن ثابت کا قول اختیار کیا ہے کہ دادا اس وقت تک بھائیوں کی طرح شمار ہوگیا جب تک مقاسمہ کے طور پر اسے ملنے والا حصہ کل ترکہ کے تہائی سے کم نہ ہو۔ اگر کم ہوگا تو اسے ترکہ کا تہائی حصہ دیا جائے گا اور اس کا حصہ تہائی حصے سے کم ہونے نہیں دیا جائے گا (مقاسمہ اسے کہتے ہیں کہ دادا کو ایک بھائی فرض کر کے اسے میت کے دیگر موجود بھائیوں کے برابر حصہ دے دیا جائے۔ مترجم) قاضی ابن ابی لیلیٰ نے دادا کے بارے میں حضرت علی کا قول اختیار کیا ہے کہ دادا اس وقت تک بھائیوں کی طرح شمار ہوگا جب تک مقاسمہ کے طور پر اسے ملنے والا حصہ کل ترکہ کے چھٹے حصے سے کم نہ ہو۔ اگر کم ہوگا تو اسے ترکہ کا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ ہم نے مختصر الطحاوی “ کی شرح میں دادا کی میراث کے سلسلے میں صحابہ کرام کے اختلاف اور ان کے دلائل کا ذکر کردیا ہے، البتہ زیر حث آیت سے اس سلسلے میں دو طریقفوں سے استدلال کیا گیا ہے۔ اول یہ کہ آیت کا ظاہر اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اللہ سبحانہ نے دادا کو باپ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ دوم یہ کہ حضرت ابن عباس نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے دادا پر باپ کا اطلاق کیا ہے۔ حضرت ابوبکر نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات چونکہ اہل زبان تھے اس لئے ان سے لغت کے اعتبار سے اسماء کا حکم مخفی نہیں رہ سکتا۔ اگر ان حضرات نے شرعی طور پر اس کا اطلاق کیا ہے تو بھی ان کی حجت ثابت ہوجائے گی کیونکہ شرعی ور پر اسماء کا استعمال توقیف کے طریقے پر ہوتا ہے۔ یعنی ایک اسم کے متعلق جب شریعت کی طرف سے رہنمائی کردی جاتی ہے تو پھر شرعی طور پر اس کا استعمال درست ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص آیت کے ظاہر سے مذکورہ بالا استدلال کو رد کرنا چاہے، تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ زیر بحث آیت میں اللہ سبحانہ نے چچا کو باپ کا نام دیا ہے کیونکہ آیت میں حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کا ذکر ہے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چچا تھے اور ظاہر ہے کہ چچا باپ کے قائم مقام نہیں ہوتا، نیز حضور ﷺ کا ارشاد ہے : میرے باپ کو میرے پاس واپس لائو، یعنی حضرت عباس کو اور حضرت عباس آپ کے چچا تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دادا کو باپ قرار دینے کے گزشتہ استدلال پر اس جہت سے بھی اعتراض ہوسکتا ہے کہ دادا کو بطریق مجاز باپ کہا جاتا ہے دادا سے باپ کے اسم کا انتفاء جائز ہے اس لیے کہ اگر آپ دادا کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ باپ نہیں ہے تو یہ نفی درست ہوگی جبکہ اسمائقے حقائق کسی بھی حال میں اپنے مسمیات سے منتفی نہیں ہوتے۔ اعتراض کی ایک اور جہت بھی دیکھے، دادا کا تقید کے ساتھ باپ کا نام دیاجاتا ہے اور باپ کے اسم کا علی الاطلاق ذکر دادا کو شامل نہیں ہوتا اس لیے آیت میں لفظ ابوین کے عموم سے اس سلسلے میں استدلال درست نہیں ہے نیز اعتراض کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ ارشاد ربانی : ورثہ ابواہ میں میت کا قریب ترین باپ، یعنی حقیقی باپ مراد ہے، اس لیے اس سے جد مراد لیناجائز نہیں ہے کیونکہ وہ مجاز ہے اور طلاق میں ایک ہی لفظ کے اندر حقیقت اور مجاز شامل نہیں ہوتا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ دادا کو باپ ثابت کرنے کے لیے اب یعنی باپ کے لفظ کے عموم سے کیے گئے استدلال کو جو یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ آیت میں چچا کو باپ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ چچا کسی بھی حال میں باپ کا قائم مقام نہیں ہوتا، تو اس رد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ باپ کے اسم کا اطلاق اگر نعت اور شرع کے اعتبار سے دادا اور چچا دونوں کو شامل ہے تو پھر ان تمام صورتوں میں اس لفظ کے عموم کا اعتبار جائز ہوگا، جن میں اس کا اطلاق ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر چچا ایک کے حکم کے ساتھ خاص ہو، اور اس میں دادا شامل نہ ہو تو یہ بات دادا کے اندر عموم کے حکم کی بقا کے لیے مانع نہیں بنے گی۔ چچا اور دادا معنی کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیونکہ باپ کو باپ کے نام سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ بیٹا ولادت کے واسطے سے اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور یہی معنی داد ا کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔ اگرچہ باپ اور دادا میں اس اعتبار سے فرق ہے کہ دادا اور پوتے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا، تاہم دادا والا مذکورہ بالا مرتبہ چچا کو حاصل نہیں ہوتا کیونکہ چچا اور بھتیجے کے درمیان ولادت کا کوئی رشتہ اور واسطہ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ داد ا خواہ معنی کے اعتبار سے بعید ہی کیوں نہ ہو لیکن باپ کی عدم موجودگی میں اسم کے اطلاق اور حکم دونوں اعتبار سے اس میں قریب کا معنی پایاجاتا ہے۔ اس طرح دادا کو ایک گونہ اختصاص حاصل ہوتا ہے چناچہ یہ جائز ہے کہ باپ کے اسم کا اطلاق اسے بھی شامل ہوجائے۔ چچا کو چونکہ یہ مزیت حاصل نہیں ہوتی اس لیے علی الاطلاق چچا کو باپ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور باپ کے لفظ سے تقلید کے بغیر چچا کا مفہوم اخذ نہیں ہوتا۔ دادا چونکہ توالد کے معنی میں باپ کے مساوی ہوتا ہے اس لیے باپ کے اسم کا دادا کو شامل ہوناجائز ہے، نیز باپ کی عدم موجودگی میں دادا کا حکم باپ کے حکم کی طرح ہوجاتا ہے۔ جن حضرات نے داد ا کو باپ قرار دینے کے سلسلے میں کیے گئے زیر بحث استدلال کو یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ دادا کو باپ کا نام دینا بطور مجاز ہے، نیز یہ کہ آیت میں میت کا قریب ترین باپ یعنی حقیقی باپ مراد ہے۔ اس لیے آیت کے لفظ سے دادا امر لینا اس بنا پر جائز نہیں ہے کہ ایک ہی اسم کا حقیقت اور مجاز دونوں ہونا منتفی ہوتا ہے، تو ان حضرات کی یہ بات اس بنا پر پکی اور ٹھوس نہیں ہے کہ جس معنی کی بنا پر باپ کو باپ کا نام دیا جاتا ہے یعنی بیٹے کی طرف والد کے واسطے سے اس کی نسبت ہو تو یہ معنی داد ا میں بھی موجود ہے اور اس معنی میں کوئی فرق نہیں ہے جس کی وجہ سے ان دونوں میں ہر ایک کو باپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لیے باپ کے اسم کا اطلاق ان دونوں پر جائز ہے۔ اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے کی بہ نسبت اخص ہے جس طرح لفظ اخوت ( بھائی) تمام بھائیوں کو شامل ہوتا ہے، خواہ وہ سگے ہوں یا ان کا باپ ایک ہو اور مائیں مختلف ہوں، البتہ سگا بھائی میراث تمام دیگر احکام میں علاتی یعنی باپ شریک بھائیوں سے اولیٰ ہوتا ہے لیکن اخوۃ کا اسم دونوں قسم کے بھائیوں میں بطور حقیقت استعمال ہوتا ہے اور اس میں کوئی امتناع نہیں کہ ایک ہی اسم دو معنوں میں بطور حقیقت استعمال کیا جائے۔ اگرچہ اسم کا علی الاطلاق ذکران میں سے صرف ایک معنی کو شامل ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ نجم کا اسم آسمان کے تمام ستاروں میں سے ہر ایک ستارے پر حقیقی طورپر واقع ہوتا ہے، جبکہ عربوں کے نزدیک اس اسم کا علی الاطلاق ذکر صرف اس ستارے کو شامل ہوتا ہے جسے ثریا کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ ایک عرب جب یہ کہتا ہے :” کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا اور نجم سر کے اوپر تھا “ تو اس کی مراد ثریا ستارہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جب یہ کہاجاتا ہے کہ ” طلع النجم ( نجم طلوع ہوگیا) تو اس اطلاق سے عرب کے لوگ ثریا ستارے کے سوا کوئی اور مفہوم اخذ نہیں کرتے۔ حالانکہ انہوں نے آسمان کے تمام ستاروں کو بطورحقیقت یہی نام دیا ہے۔ اسی طرح باپ کے اسم کا بھی زیربحث استدلال کے مستدلین کے نزدیک حقیقی طورپر باپ اور دادا دونوں کو شامل ہونا ممتنع نہیں ہے۔ اگرچہ بعض احوال میں سے اس اسم کے ساتھ باپ مختص ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کے اسم کا حقیقی باپ اور دادا دونوں کے لئے استعمال ایک لفظ کو بیک وقت حقیقت اور مجاز دونوں پر محمول کرنے کا موجب بنتا ہے۔ اگر یہاں یہ کہاجائے کہ جب تولید کی نسبت کے اعتبار سے باپ کا اسم مختص ہوتا ہے تو پھر یہ اسم ماں کو بھی لاحق ہونا چاہیے کیونکہ ماں کے اندر بھی توالدکا مفہوم پایاجاتا ہے اس لیے یہ واجب ہوجائے گا کہ ماں کو بھی باپ کا نام دیاجائے اور اس بنا پر ماں دادا اور باپ کی بہ نسبت اولیٰ قرار پائے کیونکہ بچہ پیدا کرنے کا کام حقیقی طورپر ماں سر انجام دیتی ہے ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات ضروری نہیں ہے اس لیے کہ عربوں نے ماں کو باپ کے اسم کے سوا ایک اور نام یعنی لفظ ام کے ساتھ خاص کردیا ہے، تاکہ دو مختلف ناموں کے ذریعے ماں اور باپ کے درمیان فرق کیا جاسکے ، اگرچہ ولد ولادت کی نسبت سے ان میں سے ہر ایک طرف منسوب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو بھی باپ کا نام دیا ہے اور دونوں کو مجموعی طورپر ابوین کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : (اور میت کے ابوین، یعنی ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے) حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے ہم خیال حضرات کے حق میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ دادا کے اندر میت کی طرف نسبت اور تعصب دونوں کی بنا پر ترکہ کا استحقاق اکٹھا ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور دادا پنے پیچھے چھوڑ کر وفات پا جائے تو اس صورت میں بیٹی کو ترکے کا نصف حصہ۔ دادا کو چھٹا حصہ اور عصیہ ہونے کی بنا پر باقی ماندہ تیرا حصہ بھی مل جائے گا جس طرح اگر مرنے والا اپنے پیچھے ایک بیٹی اور باپ چھوڑ کر مرجائے تو باپ ایک ہی حالت کے اندر میت کی طرف نسبت اور تعصیب دونوں کی بنا پر ترکہ کا مستحق ہوگا۔ یہ واجب ہے کہ دادا کو میراث کے استحقاق کے اندر باپ کی طرح قرار دیاجائے اور میت کے بھائی بہنوں کو محروم رکھاجائے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ دادا ازروئے تولید عصیہ بننے کا مستحق ہوتا ہے، اس بنا پر یہ واجب ہے کہ بھائی بہنوں کے ساتھ عدم مشارکت کے اندر دادا کو باپ جیسا قرار دیاجائے کیونکہ بھائی بہن صرف عصبہ ہونے کی بنا پر ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں اور میت کے ساتھ ان کا توالدی رشتہ نہیں ہوتا۔ بھائیوں اور دادا کے درمیان مقاسم کے طورپر مشارکت کی نفی کی ایک دلیل یہ ہے کہ دادا میت کے بیٹے کی موجودگی میں ترکہ کے چھٹے حصے کا مستحق ہوتا ہے جس طرح میت کا باپ میت کے بیٹے کی موجودگی میں مذکورہ حصے کا حقدار قرار پاتا ہے۔ جب اسے علت کی بنا پر باپ کی موجودگی میں میت کے بھائی بہن ترکہ کے مستحق نہیں ہوتے تو پھر ضروری ہے کہ دادا کی موجودگی میں ان کے لیے ترکے میں کوئی استحقاق واجب نہ ہو۔ اگر یہاں کہا جائے کہ ماں میت کے بیٹے کی موجودگی میں چھٹے حصے کی حقدار ہوتی ہے لیکن یہ بات ماں کی موجودگی میں میت کے بھائی بہنوں کے وارث بننے کی نفی نہیں کرتی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم مذکورہ بالا علت کا ذکر بھائیوں کے ساتھ بطور مقاسمہ دادا کی مشارکت کی نفی کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے جس مقاسمہ کے اندر بھائیوں کے ساتھ دادا کی مشارکت منتفی ہوجائے گی جبکہ دادا کے ساتھ صرف بھائی بہن ہوں تو میراث کا سقوط ہوجائے گا۔ اس لیے کہ جب دادا کے ساتھ صرف یہی ہوں اور دیگر ورثا نہ ہوں تو اس صورت میں ان میں سے ہر ایک اپنے اور دادا کے درمیان تہائی یا چھٹے حصے کو تقسیم کرلے گا۔ مقاسمہ کی صورت میں تہائی یا چھٹے حصے کے سلسلے میں سلف کے دو اقوال اوپر گزر چکے ہیں۔ جہاں تک ماں کا تعلق ہے تو میت کے بھائی بہنوں کے ساتھ کسی بھی صورت میں اس کا مقاسمہ نہیں ہوتا۔ تقسیم کی نفی سے میراث کی نفی لازم نہیں ہوتی، لیکن اگر دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کے مقاسمے کی نفی ہوجائے جبکہ دیگر ورثاء نہ ہوں تو یہ بات دادا کے ساتھ ان کی میراث کے اسقاط کی موجب بن جاتی ہے کیونکہ جو حضرات دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کو وارث قرار دیتے ہیں وہ مقاسمہ کی صورت کے تحت نیز ان کے اور دادا کے درمیان مشارکت کے ایجاب کے تحت وارث بناتے ہیں۔ اس لیے جب ہماری ذکر کردہ باتوں کی بنا پر مقاسمہ ساقط ہوجائے گا تودادا کے ساتھ ان کی میراث بھی ساقط ہوجائے گی۔ اس لیے کہ دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کے وارث ہونے کے متعلق صرف دو ہی اقوال ہیں۔ ایک قو ل تو ان لوگوں کا ہے جو دادا کی موجودگی میں بھائی بہنوں کو سرے سے وارث قرار نہیں دیتے اور ان کی میراث ساقط کردیتے ہیں۔ دوسرا قول ان حضرات کا ہے جو مقاسمہ واجب کرتے ہیں اس لیے جب ہماری ذکر کردہ باتوں کی بنا پر مقاسمہ باطل ہوجائے گا تو دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کی میراث کا سقوط بھی ثابت ہوجائے گا۔ یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ میت کی طرف دادا کی نسبت اپنے بیٹے یعنی میت کے باپ کے واسطے سے ہوتی ہے اور بھائی کی نسبت بھی میت کے باپ کے واسطے سے ہوتی ہے، اس لیے دونوں میں مشارکت واجب ہوجانی چاہیے جس طرح ایک شخص باپ اور ایک بیٹا چھوڑکر مرجائے تو ترکہ میں دونوں شریک ہوتے ہیں اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اگر مذکورہ اعتبار کو درست تسلیم کرلیاجائے تو پھر دادا اور بھائی کے درمیان مقاسمہ واجب ہی نہ ہوگا بلکہ یہ بات واجب ہوگی کہ دادا کو چھٹا حصہ مل جائے اور بھائی کو باقی ماندہ ترکہ دے دیاجائے جس طرح اس صورت میں ہوتا ہے۔ جب ایک شخص باپ اور ایک بیٹا چھوڑ کر مرجائے تو باپ کو چھٹا حصہ مل جاتا ہے اور باقی ماندہ ترکہ بیٹے کے ہاتھ آجاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ درج بالا اعتبار اس امر کو واجب کردیتا ہے کہ اگر میت ایک چچا اور ایک پڑدادا ( باپ کا دادا) چھوڑ کر مرجائے توچچا اس کے ساتھ مقاسمہ کرے، اس لیے کہ باپ کا داد امیت کی طرف قریب ترین عزیز ، دادا کے ذریعے نسبت رکھتا ہے اور چچا بھی اس کے ذریعے ہی اس کی طرف نسبت رکھتا ہے، کیونکہ چچا میت کے اس قریب ترین دادا کا بیٹا ہوتا ہے لیکن جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ باپ کے داد ا کی موجودگی میں چچا کی میراث ساقط ہوجاتی ہے حالانکہ وہ علط موجود ہوتی ہے جس کا اوپر بیان ہوا ہے تو یہ امر اس علت کے فساد اور اس کے انتقاض پر دلالت بن جائے گا اور اس علت کے بیان سے معترض پر یہ بھی لازم آ جائے گا کہ بھائی کا بیٹا بھی میراث میں دادا کا شریک بن جائے، اس لیے کہ معترض یہ کہتا ہے کہ میت کا بھتیجا باپ کے بیٹے کا بیٹا ہے اور میت کا دادا باپ کا باپ ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص باپ اور ایک توپا چھوڑ کر وفات پا جائے تو باپ کو چھٹا حصہ اور باقی ماندہ ترکہ پوتے کو مل جائے گا۔
Top