Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 28
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ اس کو انہوں نے (معبود) بنالیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا
واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ من حلیہم عجلا جسدا لہ خوار اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد ان کی قوم (بنی اسرائیل (نے) اپنے (مقبوضہ) زیور کا ایک بچھڑا (پوجا کے لئے) بنا لیا جو ایک مجسمہ تھا اور اس کی ایک آواز تھی۔ قَوْمَ موسٰی یعنی بنی اسرائیل نے۔ من بعدہ یعنی جب موسیٰ طور کی طرف مقرر کردہ وقت پر (مناجات کرنے اور کتاب لینے کے لئے) چلے گئے اور تیس دن گزرنے کے بعد چلہ کا چوتھا عشرہ شروع ہوگیا۔ من حلیہم یعنی اس زیور کا جو بنی اسرائیل نے شادی کے بہانہ سے مصر سے نکلتے وقت قبطیوں سے بطور عاریت لے لیا تھا اور نکلنے کے بعد انہی کے پاس رہ گیا تھا۔ من حلیہم میں اضافت قبضہ پر دلالت کر رہی ہے یعنی وہ زیور جو ان کے قبضہ میں تھا۔ یا ملکیت کو ظاہر کر رہی ہے کیونکہ قوم فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل اس زیور کے مالک ہوگئے تھے۔ حلی بضم حاء و کسر لام حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی۔ عجلایہ پہلا مفعول ہے دوسرا مفعول محذوف ہے یعنی بنا لیا بچھڑے کو معبود۔ جَسَدًاجسم۔ یہ عجلاً سے بدل ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ قتادہ اور اہل تفسیر کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ بچھڑا سامری نے بنایا تھا اور حضرت جبرئیل کے نشان قدم کی خاک اس کے منہ میں ڈال دی تھی جس کی وجہ سے وہ گوشت اور خون والا جسم بن گیا تھا۔ سامری کے قول کو نقل کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے ( بصرت بما لم یبصروا بہ فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتہا الخ) سورة طہٰ میں ہم سامری کا قصہ نقل کریں گے۔ خوارگائے کی آواز۔ روایت میں آیا ہے کہ بچھڑے نے صرف ایک بار آواز نکالی تھی۔ بعض کا قول ہے کہ وہ برابر آوازیں نکالتا ہی تھا جب آواز نکالتا تھا بنی اسرائیل اس کے سامنے سجدے میں گرپڑتے تھے اور خاموش ہوجاتا تھا تو سجدہ سے سر اٹھا لیتے تھے۔ وہب کا قول ہے اس کی آواز ضرور تھی مگر وہ حرکت نہیں کرتا تھا۔ سدی نے کہا وہ چلتا بھی تھا۔ بعض اہل دانش نے لکھا ہے وہ سونے کا ایک مجسمہ تھا جس میں جان نہ تھی جب ہوا اس کے پیٹ کے اندر داخل ہوتی تھی (اور پھر دوسری طرف سے نکلتی تھی) تو گائے کی آواز کی طرح اس کی آواز سنائی دیتی تھی اس کی بناوٹ ہی اسی تدبیر سے کی گئی تھی۔ اس تشریح کی تردید آیت (فقبضت قبضۃ من اثر الرسول) سے ہو رہی ہے۔ الم یروا انہ لایکلمہم ولا یہدیہم سبیلاً اتخذوہ کانوا ظلمین۔ (جب ان احمقوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا تو) کیا انہوں نے اتنا نہیں دیکھا کہ وہ (کیسا معبود ہے کہ) ان سے بات بھی نہیں کرسکتا اور نہ ان کو راہ ہدایت بتاسکتا ہے۔ یعنی انسانوں کی طرح بھی اس میں قدرت نہیں ہے کہ بات کرسکے یا راستہ بتاسکے پھر کیسے انہوں نے اس کو آسمان و زمین اور ساری طاقتوں کا خالق مان لیا ایسے کو معبود بنا لیا اور وہ بڑا بےڈھنگا کام کرنے والے تھے یعنی ایک ذلیل چیزکو معبود بنا لیا یہ ظلم تھا ایک چیز کا بےمحل استعمال تھا۔
Top