Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 66
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا لَنَرٰكَ : البتہ ہم تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں سَفَاهَةٍ : بےوقوفی وَّ : اور اِنَّا لَنَظُنُّكَ : ہم بیشک تجھے گمان کرتے ہیں مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ تم ہمیں احمق نظر آتے ہو اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں
قال الملا الذین کفروا من قومہ انا لنرک فی سفاہۃ وانا لنظنک من الکذبین : قوم ہود کے کافروں میں سے زوردار لوگوں نے جواب دیا کوئی شک نہیں کہ ہم تم کو حماقت میں مبتلا پاتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ تم جھوٹوں کے گروہ میں سے ہو۔ قَالَ یٰقَوْمجملہ استینافیہ ہے اس لئے فَقَال نہیں فرمایا تتقون کا مفعول محذوف ہے یعنی کیا تم اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتے۔ حضرت ہود کی قوم حضرت نوح کی قوم سے ملتی جلتی تھی۔ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْملاً کی صفت تقییدی ہے اس شرط کو بڑھانے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ہود ( علیہ السلام) کی قوم کے کچھ سردار ایمان لے آئے تھے۔ جیسے مرثد بن سعد اور حضرت نوح کی قوم کا کوئی سردار ایمان نہیں لایا تھا (اس لئے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے قصہ میں الملأکے بعد کَفَرُوْاکی شرط لگانے کی ضرورت نہیں تھی) فی سَفَاہۃ سفاہت سبک سری۔ حماقت یعنی سرداروں نے کہا تم احمق ہو اپنی قوم کے دین کو تم نے چھوڑ دیا اور ایک ناممکن امر یعنی رسالت کا دعویٰ کر بیٹھے یہ سبک سری ہے فی سفاہۃ کہنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ سفاہت پر تم جم گئے یہ سبک سری تم سے کبھی دور نہیں ہوگی۔ من الکاذبین یعنی رسالت کا دعویٰ کرنے میں تم جھوٹے ہو۔
Top