Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 38
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ صَفًّا١ۙۗؕ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا
يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ الرُّوْحُ : قیام کریں گے روح/ روح الامین وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے صَفًّا ٷ : صف در صف لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ : نہ کلام کرسکیں گے/ نہ بات کرسیں گے اِلَّا : مگر مَنْ اَذِنَ : جس کو اجازت دے لَهُ : اس کے لئے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَقَالَ صَوَابًا : اور وہ کہے درست بات
جس دن روح (الامین) اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو (خدائے رحمٰن) اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو
یوم یقوم الروح والملٰئکۃ صفا . یوم کا تعلق لا یملکون سے ہے یعنی جس روز روح و ملائکہ کا قیام ہوگا ‘ اس روز اللہ سے کوئی خطاب نہ کرسکے گا یا لا یتکلمون سے متعلق ہے ‘ یعنی اس روز سوائے اس کے جس کو خدا اذن دے اور کوئی اللہ سے کلام نہیں کرسکے گا ‘ اوّل صورت زیادہ ظاہر ہے۔ روح کے متعلق علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ ابن جریر ؓ نے حضرت ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے کہ روح چوتھے آسمان پر ہے ‘ تمام آسمانوں سے ‘ پہاڑوں سے اور ملائکہ سے بڑا ہے۔ بغوی نے اتنا اور بھی بیان کیا ہے کہ وہ روزانہ بارہ ہزار تسبیح (سبحان اللہ) پڑھتا ہے اور اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ ایک فرشتہ کو پیدا کردیتا ہے۔ قیامت کے دن روح تنہا ایک صف ہوگا۔ اس آیت کے ذیل میں ابو الشیخ نے ضحاک کا قول بیان کیا ہے کہ روح اللہ کا صاحب ہے ‘ اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ تمام فرشتوں سے بڑا ہے ‘ اگر منہ کھول دے تو سارے ملائکہ اس میں سما جائیں۔ فرشتے اس کی ہیبت سے اس کی طرف نظر نہیں اٹھاتے اور اوپر کو نہیں دیکھتے۔ ابو الشیخ نے حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ روح ایک فرشتہ ہے جس کے ستّر ہزار منہ ہیں ‘ ہر منہ میں ستّر ہزار زبانیں ہیں۔ ہر زبان میں ستّر ہزار بولیاں ہیں اور ان تمام بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے۔ ابو الشیخ نے باسناد عطاء حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ روح ایک فرشتہ ہے ‘ جس کے دس ہزار بازو ہیں۔ باسناد ابوطلحہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول مروی ہے کہ وہ جسمانیت میں سب فرشتوں سے بڑا ہے۔ بغوی نے عطاء کی روایت میں اتنا اور نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن تنہا روح ایک صف میں اور باقی ملائکہ ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ پس اس کی جسمانیت ان سب کے برابر ہوگی۔ ابو الشیخ نے مقاتل بن حبان کا قول نقل کیا ہے کہ روح ‘ اشرف الملائکہ ہے۔ تمام ملائکہ سے زیادہ خدا کا مقرب ہے۔ صاحب وحی ہے۔ اسی آیت کے ذیل میں ضحاک کا قول بروایت ابو الشیخ آیا ہے کہ روح جبرئیل ( علیہ السلام) ہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ حضرت جبرئیل قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور اللہ کے خوف سے ان کے شانے لرز رہے ہوں گے اور عرض کرتے ہوں گے : تو پاک ہے ‘ سوائے تیرے کوئی معبود نہیں۔ ہم نے اور مشرق سے لے کر مغرب تک کسی نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔ آیت : یوم یقوم الروح و الملٰئکۃ صفًّا کا یہی مطلب ہے۔ ابو نعیم نے مجاہد کا اور ابن مبارک نے ابو صالح مولیٰ ام ہانی کا قول نقل کیا ہے کہ روح آدمی کی شکل کی ایک اور مخلوق ہے ‘ جو آدمی نہیں ہے۔ بغوی نے اتنا زائد بیان کیا کہ وہ ایک قطار میں ہوگی اور ملائکہ ایک قطار میں ‘ ان کی بھی ایک جماعت ہوگی اور ان کی بھی ایک جماعت۔ بغوی نے یہی قول قتادہ کا نقل کیا ہے۔ ابو الشیخ نے باسناد مجاہد حضرت ابن عباس کی حدیث مرفوعاً نقل کی ہے کہ اللہ کی فوجوں میں سے روح ایک فوج (جماعت) ہے جو ملائکہ نہیں ‘ اس کے سر بھی ہیں اور ہاتھ ‘ پاؤں بھی ‘ پھر یہ آیت تلاوت کی : یوم یقوم الروح والملآئکۃ صفًّا۔ اور فرمایا : ایک ان کی جماعت ہوگی اور ایک ان کی۔ بغوی نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے روح کو اولاد آدم کی شکل پر پیدا کیا ہے ‘ جو فرشتہ آسمان سے اترتا ہے اس کے ساتھ روح کا ایک شخص ضرور ہوتا ہے۔ ابن مبارک اور ابو الشیخ نے بیہقی کا قول : یوم یقوم الروح والملائکۃ صفّا کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن ربّ العالمین کے سامنے دو قطاریں کھڑی ہوں گی ‘ ایک ملائکہ کی دوسری روح کی۔ بغوی نے حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ روح اولاد آدم ہے (یعنی آیت میں روح سے مراد آدمی ہیں) بروایت قتادہ ابن عباس کا بھی یہی قول ہے۔ قتادہ نے کہا : اس کو ابن عباس چھپایا کرتے تھے (یعنی یہ ابن عباس کے اسرار میں سے ہے) ۔ صفًّا ‘ یقومون کے فاعل سے حال ہے یا فعل محذوف کا مصدر (مفعول مطلق) ہے یعنی وہ صف بستہ ہوں گے۔ لا یتکلمون . لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا کی تاکید ہے کیونکہ جب روح و ملائکہ جو تمام مخلوق سے افضل اور اللہ کے سب سے زیادہ مقرب ہیں ‘ اللہ کے سامنے بول نہیں سکتے تو دوسروں کا ذکر ہی کیا ہے۔ الا من اذن لہ الرحمن . یعنی کوئی بول نہ سکے گا ‘ سوائے اس کے جس کو بولنے یا شفاعت کرنے کی اللہ اجازت دے دے۔ یہ لا یتکلمون کی ضمیر فاعل یا لا یملکون کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔ اوّل لفظی قرب کی وجہ سے زیادہ ظاہر ہے اور دوسرا معنی کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ شفاعت کرنے اور بولنے کی اجازت روح و ملائکہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ و قال صوابا . اور وہ صحیح اور حق بات کہے اور اس پر اعتقاد بھی رکھتا ہو ‘ قول سے بطور کنایہ اعتقاد مراد ہے کیونکہ اعتقاد کا اظہار قول سے ہی ہوتا ہے۔ قَالَ کا عطف ہے اَذِنَ پر۔ یعنی دنیا میں اس نے اعترافِ حق کیا ہو اور جھوٹی بات نہیں کہی ہو اور سب سے بڑا جھوٹ کفر ہے کیونکہ کسی تاویل سے بھی کفر کا سچ ہونا ممکن نہیں ‘ کفر کے بعد اہل بدعت کے قول کا درجہ ہے کیونکہ قرآن ان کی تکذیب کر رہا ہے ‘ بعض لوگوں نے قول صواب لا الٰہ الاّ اللہ کو قرار دیا ہے۔ پس کفارکو تو بولنے اور معذرت پیش کرنے کی بھی اجازت نہ ہوگی اور اہل بدعت کو شفاعت کی اجازت نہ ہوگی (کیونکہ دنیا میں وہ شفاعت کے منکر تھے ‘ اس سے اشارہ معتزلہ کی طرف ہے) ۔
Top