Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 14
ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَ اَنَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ
ذٰلِكُمْ : تو تم فَذُوْقُوْهُ : پس چکھو وَاَنَّ : اور یقیناً لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابَ : عذاب النَّارِ : دوزخ
یہ (مزہ تو یہاں) چکھو اور یہ (جانے رہو) کہ کافروں کے لیے (آخرت میں) دوزخ کا عذاب (بھی تیار) ہے
ذلکم فذوقوہ وان للکافرین عذاب النار : یہ مزہ (تو یہاں) چکھو اور (جانے رہو کہ) کافروں کیلئے دوزخ کا عذاب بھی (آخرت میں تیار) ہے۔ ذٰلِکُمْ پہلا خطاب رسول اللہ ﷺ کو تھا ‘ اب کلام کا رخ بطور خطاب کافروں کی طرف پھیر دیا گیا۔ شاقوا صیغۂ غائب تھا اور ذلکم ضمیر خطاب ہے ‘ غیبت سے خطاب کی طرف (کلام میں رنگینی پیدا کرنے یا براہ راست دھمکی دینے کیلئے) کلام کو منتقل کیا گیا ہے۔ ذلکم فعل محذوف کا مفعول ہے اور فذوقوا میں فاء عاطفہ (تفسیری یا تاکیدی) ہے ‘ یعنی اس کو چکھو یا ایسا کئے جاؤ ‘ پھر عذاب کا مزہ چکھو۔ وَاَنَّ لِلْکَافِرِیْنَ یعنی کافروں کیلئے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے۔ اس کا عطف ذلکم پر ہے یا وَاَنَّ میں واؤ معیت کیلئے ہے ‘ یعنی یہ سزا جو فوری طور پر تم کو دی گئی ہے ‘ اس کو مع اس سزا کے چکھو جو آخرت میں تمہارے لئے تیار کی گئی ہے۔ لَھُمْ کی جگہ صراحت کے ساتھ لِلْکَافِرِیْنَ کہنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ آخرت میں عذاب اور دنیوی سزا کے ساتھ آخرت کے عذاب میں بھی مبتلا ہونا محض کفر کی وجہ سے ہے۔ مؤمن پر بداعمالی کی وجہ سے اگر دنیا میں کوئی مصیبت آ بھی جاتی ہے تو وہ کفارہ ہوجاتی ہے ‘ انشاء اللہ آخرت میں اس پر عذاب نہیں ہوگا۔ بغوی نے آیت مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : کیا میں تم کو اللہ کی کتاب کی ایک بزرگ ترین آیت بتاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان فرمائی تھی ‘ وہ آیت ہے : مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْعَنْ کَثِیْر۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : اے علی ! میں اس کی تم سے تفسیر بیان کرتا ہوں : مراد یہ ہے کہ جو بیماری ‘ یا سزا ‘ یا مصیبت تم پر دنیا میں آتی ہے ‘ وہ تمہارے اعمال سے آتی ہے اور اللہ آخرت میں اس کی دوبارہ سزا دینے سے بہت بزرگ ہے (یعنی دوبارہ آخرت میں سزا نہیں دے گا) اور جس عمل کی سزا سے اس نے دنیا میں درگذر فرما دی تو معافی کے بعد پھر آخرت میں اس کی سزا دینے سے اللہ لاپرواہ ہے۔ ترمذی اور حاکم نے بوساطت عکرمہ ‘ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے اور ترمذی نے اس روایت کو حسن بھی کہا ہے کہ خدمت گرامی میں عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! قافلہ کا پیچھا کرنا آپ کیلئے ضروری ہے ‘ قافلہ سے کوئی مانع نہیں ہے۔ حضرت عباس اس وقت قیدی کی حیثیت میں تھے اور بندھے ہوئے تھے ‘ اسی حالت میں آپ نے پکار کر کہا : یہ بات نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیوں ؟ حضرت عباس نے عرض کیا : اللہ نے آپ سے دونوں گروہوں میں سے ایک پر فتحیابی کا وعدہ کیا تھا اور جو وعدہ کیا تھا ‘ وہ دے دیا (یعنی قریش پر آپ کو فتح حاصل ہوگئی ‘ دوسرے گروہ پر فتحیاب کرنے کا وعدہ نہیں فرمایا) حضور ﷺ نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔
Top