Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے اہل ایمان جب میدان جنگ میں کفار سے تمہار مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا
یایھا الذین امنوا اذا لقیتم الذین کفروا زحفا فلا تو لوھم الادبار۔ اے ایمان والو ! جب تم کافروں سے (جہاد میں) دوبدو مقابل ہوجاؤ تو ان کو پشت نہ دینا۔ زَخْفًا ‘ لَقِیْتُمْکے فاعل و مفعول سے حال ہے۔ تزاحف کا معنی ہے : لڑائی کے وقت ایک کا دوسرے سے قریب ہوجانا (ایک جماعت کا اپنے مقابل کی جماعت میں مخلوط ہوجانا) یعنی جب تم میں سے بعض بعض کے قریب ہوجائیں ‘ مسلمان اور کافر باہم گڈمڈ ہوجائیں۔ کذا قال البغوی۔ میں کہتا ہوں : تزاحف کے معنی باہم قرب کے اسلئے ہیں کہ یہ لفظ زَحَفَ الصَّبِیُّ کے محاورہ سے ماخوذ ہے۔ بچہ سرینوں کے بل جب سرکنے لگتا ہے تو زَحَفَ الصَّبِیُّ کہا جاتا ہے۔ یا زَحَفَ الْبَعیرُ سے ماخوذ ہے ‘ جب اونٹ تھک جانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگتا ہے اور کچھ گھسٹتا ہوا چلتا ہے تو زحف البعیرکہا جاتا ہے۔ دشمن کی مزاحمت بھی سپاہی کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے سے روکتی ہے اور وہ بچہ کی طرح سرکتا ہے۔ اس تفسیر پر زحف مصدر قرار پائے گا ‘ اسی لئے اس کو بصیغۂ جمع ذکر نہیں کیا (کیونکہ مصدر کی جمع نہیں آتی) جیسے قَوْمٌ عَدُلٌ۔ لیث کا قول ہے کہ زحف اس جماعت کو کہتے ہیں جو دشمن کی طرف اجتماعی شکل میں بڑھے۔ زُحُف اس کی جمع آتی ہے۔ قاموس میں ہے : زُحْفٌ اس لشکر کو کہتے ہیں جو دشمن کی طرف بڑھے۔ بیضاوی نے اسی معنی کو اختیار کیا ہے ‘ اسی لئے زحفًا کا تفسیری معنی اس نے کَثِیْرًا لکھا ہے۔ اس تفسیر پر زحفًا یا الذّین کفروا سے حال ہوگا ‘ یعنی جب تمہارا مقابلہ کثیر التعداد دشمن سے بھی ہو تب بھی بھاگ کر پیٹھ نہ دو ‘ تھوڑے دشمنوں کا ذکر ہی کیا ہے۔ یا فاعل و مفعول دونوں سے حال ہے ‘ یعنی تمہاری کثیر التعداد جماعت کا مقابلہ کثیر دشمنوں سے ہو ‘ اس وقت زحفًا کا لفظ (شرط احترازی کے طور پر نہ ہوگا بلکہ) واقعہ کا اظہار ہوگا۔ عام طریقہ ہی یہ ہے کہ جماعت کا جماعت سے مقابلہ ہوتا ہے۔ یا صرف فاعل سے حال ہے ‘ اس صورت میں آئندہ ہونے والے واقعہ پر تنبہ ہوگی۔ بدر کے بعد جب حنین کی لڑائی پیش آئی تو مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی مگر اس کثرت کے باوجود وہ پیٹھ پھیر کر گھبراہٹ میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ میرے نزدیک بغوی کی تفسیر زیادہ مناسب ہے ‘ اس تفسیر پر ممانعت کے حکم میں عموم ہوجائے گا۔ جماعت کا مقابلہ جماعت سے ہو یا ایک کا ایک سے ‘ بہرحال پیٹھ دینے کی ممانعت مستفاد ہوگی۔ جب جمع کا تقابل جمع سے ہوتا ہے تو افراد کا افراد سے مقابلہ لازم ہے۔ مسئلہ : اکثر اہل علم کے نزدیک میدان جنگ سے مقابلہ کے وقت بھاگنا گناہ کبیرہ ہے۔ چاروں اماموں کا قول یہی ہے مگر سب کے نزدیک یہ شرط ہے کہ مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں نصف سے کم نہ ہو ‘ اگر نصف سے کم ہو تو دشمنوں کو چھوڑ کر بھاگنا جائز ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : اَ لْاٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّأَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِأَتَیْنِالخ عطاء بن رباح کا قول ہے کہ آیت لَا تُوَلُّوھُمْ الْاَدْبَارَدوسری آیت اَ لْاٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ سے منسوخ کردی گئی۔ اس کے علاوہ حضرت ابن عمر کی روایت کردہ حدیث بھی آیت مذکورہ کے حکم کی ناسخ ہے۔ حضرت ابن عمر کا بیان ہے : رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک جہادی دستہ کے ساتھ بھیجا ‘ وہاں پہنچ کر یہ دستہ (شکست کھا کر) تتر بتر ہوگیا اور ہم سب مدینہ میں واپس آکر چھپ رہے اور آپس میں کہا : ہم (اس بھاگنے کی وجہ سے) تباہ ہوگئے (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہم سے ہوگئی جس کی وجہ سے ہماری تباہی لازمی ہے) پھر خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم بھگوڑے ہیں۔ فرمایا : (نہیں) بلکہ تم تو مڑ کر دوبارہ حملہ کرنے والے ہو (یعنی یہ تو جنگی تدبیر ہے کہ دشمن کو دھوکہ دینے کیلئے سپاہی میدان جنگ سے بھاگتا ہے اور پھر موقعہ پا کر مڑ کر حملہ کرتا ہے) اور میں تمہارے لئے جماعتی مرکز ہوں (جس کی طرف ایک دانشمند مجاہد لوٹ کر آتا ہے) رواہ الترمذی وروی ابو داؤد مثلہ۔ ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ محمد بن سرین کا بیان ہے کہ حضرت ابو عبیدہ شہید ہوگئے اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو فرمایا : اگر میری طرف سمٹ آتے تو میں ان کیلئے مرکزی پناہ گاہ (ثابت) ہوتا۔ میں ہر مسلمان کیلئے جماعتی پناہ گاہ ہوں۔ مذکورۂ بالا دونوں حدیثوں کا حکم اس وقت ہوگا جب مسلمانوں کی تعداد کافروں کی تعداد سے آدھی سے بھی کم ہو (مندرجۂ بالا دونوں صورتوں میں ایسا ہی تھا) بغوی کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جو شخص تین کے مقابلہ سے بھاگا ‘ وہ نہیں بھاگا اور جو دو کے مقابلہ سے بھاگا ‘ وہ (حقیقت میں) بھاگا۔ بعض لوگوں نے مندرجۂ بالا دونوں حدیثوں کی روشنی میں ہر صورت میں فرار کو جائز قرار دیا ہے (تعداد کی کمی بیشی کی کوئی شرط نہیں لگائی) حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا : مقابلہ سے روگرداں ہونے کی ممانعت صرف اہل بدر کے ساتھ مخصوص تھی۔ رسول اللہ ﷺ وہاں موجود تھے ‘ انہی کیلئے بھاگنا ناجائز تھا۔ اگر بھاگتے تو کہاں جاتے ‘ مشرکوں کی ہی طرف لوٹ کر جانا پڑتا۔ بدر کے بعد تو (ہر لڑائی میں) مسلمان باہم ایک دوسرے کیلئے پناہ کا مقام تھے ‘ بھاگنے والا لوٹ کر بھی مسلمان کی طرف سمٹ کر آئے گا ‘ اسلئے بدر کے بعد قتال سے فرار گناہ کبیرہ نہیں۔ حسن ‘ قتادہ اور ضحاک کا بھی یہی مسلک ہے۔ یزید بن ابی حبیب نے کہا : بدر کے دن فرار ہونے والے کیلئے تو اللہ نے دوزخی ہونے کی صراحت فرما دی لیکن اس کے بعد احد کے بعد جو لوگ میدان قتال سے روگرداں ہوئے ان کے متعلق فرمایا : اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسِبُوْا وَلَقَدْ عَفَی اللّٰہُ عَنْھُمْ ۔ پھر حنین کے دن فرار ہونے والوں کے متعلق فرمایا : ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ۔ میں کہتا ہوں : یہ قول اجماع امت کے خلاف ہے اور احد و حنین میں بھاگنے والوں کے متعلق جو آیات مذکور ہیں ‘ وہ تو ان لڑائیوں میں بھاگنے والوں کو گناہگار قرار دے رہی ہیں ‘ اوّل جگہ صراحت ہے کہ بھاگنے والوں ہی کی بعض نازیبا حرکتوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا دئیے اور اللہ نے ان کا قصور معاف کردیا۔ دوسری آیت میں ہے : تم منہ پھیر کر بھاگے ‘ پھر اللہ جس کی توبہ چاہے گا قبول فرما لے گا۔ ظاہر ہے کہ معافی اور قبول توبہ بغیر ارتکاب گناہ کے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ رسول اللہ ﷺ نے سات ہلاکت آفریں چیزوں میں قتال سے بھاگنے کا شمار کیا ہے۔ بخاری و مسلم نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور اصحاب سنن نے حضرت صفوان بن عسال کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ سورة النساء کی آیت اَنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَاءِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّر عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ کی تفسیر میں ہم نے کبائر کی تشریح کردی ہے ‘ لہٰذا مندرجۂ ذیل آیت کی وعید عام ہے (صرف اہل بدر کی خصوصیت نہیں) ۔
Top