Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور تم جان لو
اَنَّمَا
: جو کچھ
غَنِمْتُمْ
: تم غنیمت لو
مِّنْ
: سے
شَيْءٍ
: کسی چیز
فَاَنَّ
: سو
لِلّٰهِ
: اللہ کے واسطے
خُمُسَهٗ
: اس کا پانچوا حصہ
وَلِلرَّسُوْلِ
: اور رسول کے لیے
وَ
: اور
لِذِي الْقُرْبٰي
: قرابت داروں کے لیے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیموں
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور مسکینوں
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافروں
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
اٰمَنْتُمْ
: ایمان رکھتے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَمَآ
: اور جو
اَنْزَلْنَا
: ہم نے نازل کیا
عَلٰي
: پر
عَبْدِنَا
: اپنا بندہ
يَوْمَ الْفُرْقَانِ
: فیصلہ کے دن
يَوْمَ
: جس دن
الْتَقَى الْجَمْعٰنِ
: دونوں فوجیں بھڑ گئیں
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمدﷺ) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
واعلموا انما غنمتم من شئ اور جان لو کہ جو شے بطور غنیمت تم کو (کافروں سے) حاصل ہو۔ مَا بمعنی اَلَّذِیْ ہے اور غَنِمْتُمْ صلہ ہے اور موصول کی طرف راجع ہونے والی ضمیر محذوف ہے ‘ یعنی جو کچھ مال غنیمت تم کو حاصل ہو۔ مَا کو (اَنَّ کے ساتھ) ملا کر لکھنادرست نہیں ورنہ مَا کافہ ہوجائے گا (موصولہ نہ ہوگا) غنیمت کافر حربی کے اس مال کو کہتے ہیں جو جبراً یا غالب آکر حاصل کیا گیا ہو (چونکہ خطاب مسلمانوں کی جماعت کو ہے) اسی لئے امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ امام (یعنی مسلمانوں کے حاکم یا قائم مقام) کی اجازت کے بغیر ایک یا دو مسلمان دارالحرب میں جا کر حربی کافروں سے کچھ مال چھین لیں گے یا چرا لیں گے تو اس میں خمس (پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنا واجب نہیں ‘ لیکن اگر امام کی اجازت کے بغیر چار آدمیوں نے دارالحرب میں جا کر کچھ مال حربیوں کا لے لیا تو اس میں خمس واجب ہے۔ محیط میں ہے کہ امام ابو یوسف کے نزدیک جماعت کی تعداد سات ہونی چاہئے ‘ اگر حفاظتی طاقت نہ ہو ‘ اور اگر حفاظتی طاقت حاصل ہو تو دس آدمیوں کا دستہ جماعت کہلائے گا۔ امام شافعی اور امام مالک اور اکثر علماء کا قول ہے کہ اگر ایک شخص بھی دارالحرب میں جا کر کسی حربی کا مال چرا کرلے آئے گا تو اس میں بھی خمس واجب ہوگا کیونکہ وہ حربی کا مال ہے جو جبراً حاصل کیا گیا ہے ‘ لہٰذا غنیمت کے حکم میں ہے۔ امام اعظم اور ایک روایت میں امام احمد کا قول ہے کہ چوری کا مال غنیمت کا مال نہیں ہے ‘ چوری کا مال جبراً نہیں حاصل کیا جاتا بلکہ جھپٹ کر یا خفیہ طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ چور تدبیر سے چوری کرتا ہے اور یہ دوسرے مباحات کی طرح مال حاصل کرنے کا ایک مباح طریقہ ہے ‘ جیسے جنگل سے لکڑیاں جمع کرنا یا شکار کرنا اور خمس کے وجوب کیلئے مال غنیمت ہونا ضروری ہے ‘ ہاں اگر امام کی اجازت سے ایک دو آدمیوں نے دارالحرب میں جا کر کسی تدبیر سے کچھ مال حاصل کرلیا تو باتفاق اس میں خموس واجب ہے کیونکہ امام کی اجازت کے بعد جانے والے کی مدد کرنا امام پر لازم ہے اور حفاظتی طاقت رکھنے والی جماعت خواہ چار کی ہو یا زائد کی ہو ‘ اگر امام کی اجازت کے بغیر بھی دارالحرب میں جائے گی تو ان کی مدد امام پر لازم ہے تاکہ مسلمانوں کی اور اسلام کی توہین نہ ہو اور جب امام کی پشت پناہی حاصل ہو تو پھر وہ لوگ چور نہیں کہلائے جاسکتے۔ منْ شیءٍ کے لفظ سے تمیم ہوگئی ‘ یعنی مال غنیمت کتنا ہی ہو خواہ صرف دھاگہ اور سوئی ہو (سب کا پانچواں حصہ واجب ہے) حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : دھاگہ اور سوئی بھی داخل کرو اور مال غنیمت کی چوری سے اجتناب رکھو ‘ قیامت کے دن چور کیلئے یہ چوری باعث عار ہوگی۔ رواہ الدارمی۔ امام شافعی نے یہ حدیث عمرو بن شعیب کی روایت سے بیان کی ہے۔ ابو داؤد نے بھی عمرو بن شعیب کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے ‘ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ یہ سن کر ایک شخص جس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا ‘ بولا : میں نے یہ خچر کے زمین کی مرمت کرنے کیلئے لے لیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میرا اور بنی عبدالمطلب کا جو حصہ ہے ‘ وہ تیرا ہے۔ فان اللہ خمسہ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے۔ چونکہ لفظ مَا میں شرط کا معنی ہے ‘ اسلئے فَاَنَّمیں فاء لائی گئی اور چونکہ یہ فقرہ محل رفع میں ہے ‘ خواہ اس کو مبتداء محذوف الخبر قرار دیا جائے یا خبر محذوف المبتداء ‘ اسلئے اِنَّ نہیں ذکر کیا ‘ اَنَّ فرمایا۔ یعنی اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہونا واجب ہے یا واجب یہ ہے کہ اس کا خمس اللہ کا ہو۔ غنیمت کا پانچواں حصہ اپنی ملک میں مخصوص طور پر رکھا ‘ اہل غنیمت کی ملک نہیں قرار دیا ‘ اسی لئے حنفیہ قائل ہیں کہ مال خمس کی ادائیگی اہل غنیمت پر واجب نہیں ‘ وہ تو ان کی ملک میں داخل ہی نہیں ہوا ‘ شروع سے ہی ہو اللہ کی ملک ہے ‘ ہاں زکوٰۃ ادا کرنی اہل مال پر واجب ہے (کیونکہ مال زکوٰۃ کی ملکیت اہل مال کی ہوتی ہے) اللہ نے اہل مال کو ہی حکم دیا ہے کہ زکوٰۃ ادا کریں (یعنی اپنی ملکیت سے نکال کر اہل استحقاق کی ملکیت میں داخل کردیں) یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ کا مال لوگوں کے مال کا میل کچیل قرار دیا گیا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کیلئے حرام کردیا گیا اور (خمس کے مال کا چونکہ شروع سے ہی اللہ کے سوا کوئی مالک نہیں ہوتا ‘ اسلئے) خمس آپ کیلئے حلال کیا گیا۔ اس سے آگے اللہ نے اپنے خالص حق کے مصرف کی تفصیل بیان کردی اور فرمایا۔ وللرسول ولذی القربٰی اور رسول ﷺ کا اور رسول ﷺ کے اقارب کا حق ہے۔ اقارب کی تفصیل میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک تمام قریش اقارب ہیں۔ مجاہد اور امام زین العابدین کے نزدیک صرف بنی ہاشم اقارب ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک عبدمناف کے دو بیٹوں ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد اقارب ہیں اور عبدمناف کے دوسرے دو بیٹوں عبدالشمس اور نوفل کی نسل اقارب میں داخل نہیں۔ امام شافعی نے بسند معتبر حضرت جبیر بن مطعم کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی القربیٰ کا حصہ صرف بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو تقسیم کیا ‘ بنی عبدالشمس اور بنی نوفل کو کچھ نہیں دیا۔ بخاری نے صحیح میں بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ امام شافعی کی روایت ہے کہ حضرت جبیر بن مطعم نے فرمایا : جب رسول اللہ ﷺ نے ذوی القربیٰ کا حصہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو تقسیم فرمایا تو میں اور عثمان بن عفان خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کو اپنے ہاشمی بھائیوں کی فضیلت کا تو انکار نہیں کیونکہ آپ بنی ہاشم میں سے ہیں ‘ لیکن بنی عبدالمطلب کی قرابت اور ہماری قرابت تو ایک ہی ہے ‘ پھر حضور ﷺ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا ‘ یہ ترجیح کیوں ہے ؟ حضور ﷺ نے اپنی انگلیاں انگلیوں میں ڈال کر جال بنا کر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب تو اسی طرح (باہم وابستہ اور) ایک ہی ہیں۔ ابو داؤد اور نسائی نے یہ حدیث نقل کی ہے اور برقانی نے اس کو شرط مسلم کے موافق قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں اشارہ اس معاہدہ کی دستاویز کی طرف ہے جس میں قریش نے لکھا تھا کہ بنی ہاشم کے ساتھ نہ بیٹھیں گے ‘ نہ ان سے خریدو فروخت کریں گے ‘ نہ نکاح کا رشتہ قائم کریں گے۔ ایک سال تک قریش اس معاہدہ پر قائم رہے۔ اس دستاویز میں اگرچہ بنی عبدالمطلب کا ذکر نہ تھا مگر بنی عبدالمطلب نے بنی ہاشم کا ساتھ نہیں چھوڑا ‘ شعب ابی طالب میں ان کے ساتھ جا کر رہے۔ کذا فی السنن والمغازی وکذا روی البیہقی فی السنن والدلائل۔ خطابی نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : بس بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب تو ایک جیسے ہیں۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی عبدالمطلب کو بنی ہاشم کے ساتھ ملا دیا اور ان کو بنی ہاشم میں سے شمار کیا ‘ اس کی علت صرف یہ تھی کہ اسلام اور جاہلیت دونوں زمانوں میں دونوں خاندان باہم موافق اور مددگار تھے ‘ محض نسبی قرابت ہی ظاہر کرنی مقصود نہیں ہے ورنہ بنی عبدالشمس اور بنی نوفل کا رشتہ بھی بنی عبدالمطلب ہی کی طرح تھا۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ محض قرب نصرت مراد ہے ‘ قرابت مراد نہیں ہے (بنی ہاشم کے مددگار بنی عبدالمطلب تھے ‘ اسلئے ان کو ذوی القربیٰ قرار دیا اور بنی عبدالشمس اور بنی نوفل ‘ بنی ہاشم کے مددگار نہ تھے ‘ اسلئے ان کو اقارب نہیں مانا گیا) صاحب ہدایہ کا یہ قول غلط ہے ‘ اگر صرف قرب نصرت مراد ہوتا تو حضرت عثمان بہ نسبت حضرت عباس کے اس کے زیادہ مستحق تھے۔ آپ آغاز اسلام میں ہی اسلام لے آئے تھے اور حضرت عباس بدر کی لڑائی کے بعد مسلمان ہوئے بلکہ جو مہاجرین و انصار رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار نہ تھے اور قرب نصرت رکھتے تھے ‘ ان کو خمس کا استحقاق زیادہ ہونا چاہئے۔ والیتمٰی اور یتیموں کیلئے۔ یتٰمٰییتیم کی جمع ہے۔ یتیم بن باپ کے بچہ کو کہتے ہیں۔ قاموس میں ہے : یتیم کا معنی ہے باپ کا مرجانا۔ بچہ ہونے کی شرط اسلئے ضروری ہے کہ ایک حدیث میں ابو داؤد نے حضرت علی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ جوان ہونے کے بعد یتیمی نہیں رہتی۔ اس حدیث کو عقیلی ‘ عبدالحق ‘ ابن القطان اور منذری وغیرہ نے معطل قرار دیا ہے اور نووی نے اس کو حسن کہا ہے۔ طبرانی نے دوسری سند سے حضرت علی ہی کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے۔ طبرانی نے دوسری سند سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے اور ابو داؤد وطیالسی نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ اسی موضوع کی ایک حدیث حضرت طلحہ بن حذیفہ ؓ سے بھی آئی جو طبرانی کبیر میں منقول ہے ‘ اس کی سند غنیمت ہے۔ ابن عدی نے حضرت جابر کی روایت سے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی حزام بن عثمان بھی ہے جو (محدثین کے نزدیک) متروک ہے۔ حضرت انس سے بھی یہی حدیث مروی ہے۔ والمسکین اور مسکینوں کیلئے۔ اس کی تحقیقات ہم سورة توبہ میں مصارف صدقات کے ذیل میں کریں گے۔ وابن السبیل اور مسافر کیلئے جو اپنے گھر سے دور ہوتا ہے۔ چونکہ مسافر عموماً راہ نوردی میں مشغول رہتا ہے ‘ اسلئے گویا راستہ کی اولاد ہوتا ہے ‘ اسی وجہ سے اس کو ابن السبیل کہا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر تینوں اقسام کو خمس کا حقدار صرف ناداری اور احتیاج کی بناء پر کیا گیا ہے ‘ اسی لئے ائمہ کا اتفاق رائے ہے کہ اگر یہ لوگ مالدار اور غنی ہوں تو ان کو خمس نہ دیا جائے۔ بعض لوگوں نے ذوی القربیٰ کے استحقاق خمس کی علت فقر و ناداری کو ہی قرار دیا ‘ مالدار اقارب بھی خمس کے مستحق نہیں۔ مگر یہ قول غلط ہے کیونکہ ذوی القربیٰ کے لفظ سے فقر کی طرف اشارہ بھی نہیں اور یتیم و ابن السبیل کے الفاظ ناداری کی غماضی کرتے ہیں۔ حضرت عباس باوجودیکہ بڑے مالدار تھے مگر رسول اللہ ﷺ ان کو بھی خمس میں سے دیا کرتے تھے۔ تمام ائمہ کا اجماع ہے اور تمام راوی بھی اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کے پانچ حصے کرتے تھے جن میں سے چار حصے تو شرکاء جہاد کو عطا فرما دیتے تھے اور پانچویں حصہ کے پھر پانچ حصے کرتے تھے جن میں سے ایک حصہ تو اپنے اور اپنے متعلقین کیلئے لے لیتے تھے ‘ اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ اسی سے چلاتے تھے اور کچھ بچ رہتا تھا تو اس سے جہاد کیلئے ہتھیار اور گھوڑے خریدتے تھے اور مسلمانوں کے مصالح میں صرف کرتے تھے اور ایک حصہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو بانٹ دیتے تھے ‘ مالدار ‘ نادار ‘ مرد ‘ عورت سب کو دیتے تھے اور تین حصے یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کو عنایت کرتے تھے۔ قابل غور یہ امر ہے کہ جن پانچ اقسام کو اللہ نے قرآن میں مستحق قرار دیا ہے ‘ کیا ان پانچوں اقسام کو دینا ضروری ہے اور ایک کا حصہ ‘ دوسری قسم والوں کو دینا جائز نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ یہ پانچوں اقسام مصرف خمس ہیں ان کے علاوہ دوسروں کو دینا جائز نہیں ‘ لیکن امام کو اختیار ہے کہ کسی ایک ہی قسم کو دے دے ‘ دوسرے گروہ کو نہ دے اور ایک گروہ میں سے بھی صرف ایک ہی شخص کو سب دے دے ‘ دوسرے شخص کو بالکل نہ دے۔ مؤخر الذکر قول کو امام اعظم نے اختیار کیا ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ تحفہ میں مذکورہ ہے : مؤخر الذکر تینوں اقسام یعنی یتٰمٰی ‘ مسکین اور مسافر ہمارے نزدیک مصارف خمس ہیں لیکن (وجوبی) مستحق ان میں سے کوئی بھی نہیں ‘ اگر ایک ہی قسم کو سب مال دے دے تو جائز ہے۔ لیکن امام شافعی اور متقدمین ومتاخرین کی ایک جماعت قائل ہے کہ ہر گروہ کو اس کا حصہ دینا ضروری ہے ‘ امام کسی ایک قسم یا دو قسموں کو مخصوص طور پر نہیں دے سکتا بلکہ تمام اقسام کو تقسیم کرنا لازم ہے۔ اب اگر ہر گروہ کی ایک محدود جماعت ہو جس کی تعداد معین ہو تو اس گروہ کے ہر فرد کو دینا ضروری ہے ‘ کسی فرد کو محروم کرنا درست نہیں اور تقسیم کے وقت ہر ایک کا حصہ برابر رکھنا لازم ہے ‘ جیسے پانچ حصوں میں سے چار حصے شرکاء جہاد میں سے ہر فرد کو تقسیم کرنا لازم ہے اور کسی کو محروم رکھنا بالاجماع درست نہیں۔ امام شافعی نے رشتۂ قرابت رکھنے ولے مستحقین میراث کی طرح (مال غنیمت پانے والے) اقارب کو بھی قرار دیا ہے ‘ فرق یہ ہے کہ (میراث میں قریب ترین کی موجودگی میں بعید کو میراث نہیں ملتی اور مال غنیمت میں) قریب و بعید ہر ایک حصہ دار ہوتا ہے۔ میراث کی طرح مرد کا دوہرا اور عورت کا اکہرا حصہ مال غنیمت میں بھی ہوتا ہے اور اگر بیشمار ہوں جن کی گنتی ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ہر قسم میں سے تین اشخاص کو دینا ضروری ہے کیونکہ لِذِی الْقُرْبٰی میں لام اختصاص پر دلالت کر رہا ہے اور اختصاص کا تقاضا ہے کہ وہ مال (تقسیم سے پہلے ہی) ان کا ہو یا کم از کم ان کو استحاق ملکیت ہو اور ہر گروہ کا ذکر بصیغۂ جمع کیا ہے اور جمع کا اطلاق کم سے کم تین پر ہوتا ہے (ہم جس قرآن کو اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں ‘ اس میں تو ذی القربیٰ ہے جو جمع کا صیغہ نہیں البتہ یتامیٰ اور مساکین بصیغۂ جمع ہے) ۔ امام اعظم اور آپ کے ہم خیال لوگوں کا کہنا ہے کہ لام مطلق اختصاص کیلئے ہے (نہ ملکیت پر دلالت کر رہا ہے ‘ نہ استحاق پر) مطلب یہ ہے کہ خاص طور پر انہی اقسام مذکورہ کو مال غنیمت دیا جائے ‘ ان کے علاوہ اور کو نہ دیا جائے اور الف لام استغراق کیلئے نہیں بلکہ جنسیت کیلئے ہے ‘ اسلئے جمعیت کا مفہوم باطل ہوگیا (پس یہ مطلب نہیں کہ ان اقسام میں سے ہر ایک قسم کو دیا جائے یا ایک قسم کے ہر فرد کو دیا جائے) اس قول کی دلیل یہ ہے کہ اصناف مذکورہ میں باہم تداخل ممکن ہے (ان اقسام کے درمیان کوئی امتیازی حد فاصل نہیں کہ ایک قسم کے ساتھ دوسری قسم کا اجتماع ناممکن ہو) قرابتدار یتیم بھی ہوسکتا ہے اور مسکین بھی اور مسافر بھی (بلکہ ایک شخص کے مجموعی چاروں احوال بھی ہوسکتے ہیں) اب اگر ایک صنف کا حصہ دوسری صنف کو دینا ناجائز قرار دیا جائے تو ضروری ہے کہ ہر ایک صنف کا جداجدا اس طرح ذکر کیا جائے کہ وہ کسی دوسری صنف کے ساتھ جمع نہ ہو (یعنی قرابتدار کی یہ شرط ہو کہ وہ یتیم ‘ مسکین اور مسافر نہ ہو اور یتیم و مسکین و مسافر میں سے ہر صنف کی یہ شرط ہو کہ باقی تین اصناف کے اوصاف اس کے اندر نہ ہوں) اس کے علاوہ یہ بھی لازم آئے گا کہ اگر کسی صنف کا کوئی فرد دوسری اصناف کی صفات کا حامل ہو (مثلاً قرابتدار یتیم بھی ہو ‘ یا یتیم و مسکین بھی ہو ‘ یا مسکین مسافر بھی ہو ‘ یا مسکین قرابتدار بھی ہو ‘ یا مسافر رشتہ دار بھی ہو وغیرہ وغیرہ) تو اس کو دگنا ‘ سہ گنا ‘ چہار گنا حصہ دیا جائے (ایک اپنی صنف کا اور باقی حصے دوسری اصناف کے) جیسے میراث میں دوہرا رشتہ رکھنے والے کو دوہرا حصہ ملتا ہے مثلاً شوہر اگر متوفیہ کے چچا کا بیٹا بھی ہو تو وہ شوہریت کا فرض حصہ بھی پائے گا اور چچازاد ہونے کی وجہ سے عصبہ بھی ہوگا اور عصبہ کا حصہ بھی اس کو ملے گا۔ دلیل عقلی کے علاوہ مختلف احادیث بھی ہمارے قول کو ثابت کر رہی ہیں۔ صحیحین میں حضرت علی کی روایت سے بیان کیا گیا ہے کہ چکی پیسنے کی وجہ سے حضرت فاطمہ کے ہاتھ میں ٹھینٹ پڑگئی تھی۔ آپ کو اطلاع ملی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (غنیمت میں) کچھ باندی غلام آئے ہیں (کسی باندی کی درخواست کیلئے) حضرت سیدہ فاطمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئیں لیکن حضور ﷺ موجود نہ تھے ‘ ملاقات نہ ہوسکی۔ حضرت عائشہ سے آمد کی غرض بیان کردی اور جب رسول اللہ ﷺ کاشانۂ نبوت میں تشریف لے آئے تو حضرت عائشہ نے حضرت سیدہ فاطمہ کی آمد کا ذکر کردیا۔ رسول اللہ ﷺ اطلاع پا کر فوراً ہمارے گھر تشریف لے آئے۔ ہم اپنے بستروں پر جا چکے تھے ‘ حضور ﷺ کو دیکھ کر ہم اٹھنے لگے تو فرمایا : اپنی اپنی جگہ لیٹے رہو۔ حضور ﷺ آکر ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے (اور حضور ﷺ کے پاؤں میرے پیٹ سے لگ گئے) مجھے حضور ﷺ کے قدم کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس ہوئی (غالباً سردی کا زمانہ ہوگا) پھر بیٹھ کر فرمایا : کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز بتاؤں جو تمہاری درخواست کردہ چیز سے بہتر ہے ؟ خوابگاہ میں پہنچ کر 33 بار سبحان اللہ ‘ 33 بار الحمد اللہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ‘ یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے۔ مسلم کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ (حضرت فاطمہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :) کیا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو خادم سے تمہارے لئے بہتر ہے ؟ ہر نماز کے وقت اور سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ ‘ 33 بار الحمد اللہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھا کرو۔ طحاوی کی روایت میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمہ سے ایک روز فرمایا : اللہ نے تمہارے باپ کو فراخی عطا فرما دی۔ حضور ﷺ کے پاس کچھ باندی یا غلام آگئے ہیں ‘ ایک خادم تم بھی جا کر مانگ لو۔ حضرت فاطمہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ گزارش کردی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اہل صفہ کو بھوکا چھوڑ دوں اور تم کو (کوئی باندی) دے دوں ‘ ایسا نہیں کرسکتا۔ میرے پاس اہل صفہ کے مصارف کیلئے کچھ (نقد و جنس) نہیں ہے اور وہ بھوکے ہیں ‘ میں یہ (باندی غلام) بیچ کر ان پر خرچ کروں گا۔ کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے معروضہ اور سوال سے بہتر ہے ؟ مجھے جبرئیل نے یہ چیز بتائی ہے کہ ہر نماز کے بعد اور بستر پر جاتے وقت دس بار اللہ اکبر ‘ دس بار سبحان اللہ اور دس بار الحمد اللہ پڑھ لیا کرو۔ طحاوی نے فضل بن حسن بن عمر بن حکم کی روایت سے بیان کیا کہ فضل کی ماں نے کہا : میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت فاطمہ کی خدمت میں پہنچی ‘ پھر ہم دونوں حضرت فاطمہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچیں۔ آپ کسی جہاد سے واپس تشریف لائے تھے اور آپ کے ساتھ (غنیمت کے) کچھ باندی اور غلام بھی تھے۔ حضرت فاطمہ نے حضور ﷺ سے ایک خادم ملنے کی درخواست کی۔ فرمایا : شہداء بدر کے یتیم تم سے آگے ہیں (یعنی زیادہ حقدار ہیں) ۔ یہ تمام احادیث بتارہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (چاروں اصناف میں سے) کسی ایک کو دیتے اور دوسروں کو ترک کردیا کرتے تھے ورنہ حضرت فاطمہ کو ان کے حق سے کس طرح روک دیتے ‘ حضرت فاطمہ تو قرابتدار تھیں اور قرابتدار ہونے کی وجہ سے خمس کی حقدار بھی تھیں ‘ پھر آپ کا حق صفہ کے فقراء اور شہداء بدر کے یتیموں کو کیوں عطا فرمایا ؟ اقارب کا حق تو امام شافعی کے نزدیک فقراء و یتامیٰ کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ اقارب کے حصہ کے علاوہ فقراء و یتامیٰ کا حصہ تو ان کے نزدیک ضروری ہے۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں اشعث بن سوار کے حوالہ سے بروایت ابو الزبیر حضرت جابر بن عبد اللہ کا بیان نقل کیا ہے جو ہمارے مدعیٰ کی تائید کرتا ہے ‘ حضرت جابر نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مال خمس سے اہل جہاد کیلئے سواریاں خرید کردیتے تھے اور حوادث قومی میں بھی اس کو صرف کرتے تھے ‘ پھر جب مال بہت ہوگیا تو آپ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کو بھی دینے لگے۔ میرے نزدیک آیت کا معنی یہ ہے کہ ملکیت کے اعتبار سے تو خمس اللہ کا ہے ‘ اللہ نے اس کو براہ راست اپنی ملک میں رکھا ‘ بندوں کو مالک نہیں بنایا اور استحقاق تصرف کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کا ہے کہ رسول جتنا چاہیں اپنے لئے رکھیں اوراقارب و یتامیٰ و مسکین و مسافر بھی اس کا مصرف ہیں (اسلئے یہ مال ان چاروں کے صرف میں بھی لایا جاسکتا ہے) ۔ پس لام تین ٹکڑوں میں تعلق کو ظاہر کر رہا ہے ‘ مگر تعلق کی نوعیت چونکہ مختلف ہے ‘ اسلئے تینوں لفظوں پر جدا جدا مستقل طور پر لایا گیا۔ لِلّٰہ کا لام ملکیت پر ‘ للرسولکا لام اختیار صرف پر اور لِذِی الْقُرْبٰیکا لام مصرف اور اہل ہونے پر دلالت کر رہا ہے اور چونکہ مصرف خرچ ہونے کی حالت مؤخر الذکر چاروں اقسام میں ایک ہی جیسی تھی ‘ اسلئے لِذِی الْقُرْبٰی کے ایک لام کے تحت سب کو ذکر کردیا ‘ ہر مصرف پر جداجدا لام ذکر نہیں کیا گیا۔ گویا لام جو تعلق و اختصاص پر دلالت کر رہا ہے ‘ وہ تعلق و اختصاص مشترک ہے جس کے تین معانی ہیں : ملکیت ‘ اختیار تصرف اور مقام صرف ہونا۔ یا یوں کہو کہ اوّل حقیقی معنی ہے اور باقی دونوں مجازی اور چونکہ ایک ساتھ مشترک کے متعدد معانی یا حقیقت و مجاز کا مجموعہ (یا دو مجازی معنی) مراد نہیں ہوسکتے ‘ اسلئے تینوں انواع پر لام الگ الگ ذکر کیا گیا (تاکہ ایک جگہ ملکیت ‘ دوسری جگہ تصرف اور تیسری جگہ مصرف مراد ہو سکے) پورے خمس پر رسول اللہ ﷺ کو اختیار تصرف حاصل تھا ‘ اس پر مندرجۂ ذیل حدیث جس کو عمرو بن عنبسہ کی روایت سے ابو داؤد نے ذکر کیا ہے ‘ روشنی ڈالتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کے پہلو سے ایک بال لے کر فرمایا : تمہارے اموال غنیمت میں سے پانچویں حصہ کے علاوہ اتنا لینا بھی میرے لئے حلال نہیں اور پانچواں حصہ بھی لوٹا کر تم کو ہی تقسیم کردیا جاتا ہے۔ عمرو بن شعیب کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : سوائے خمس کے اس مال غنیمت میں سے میرے لئے کچھ (حلال) نہیں اور نہ یہ (یعنی اونٹ کا ایک بال) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خمس (کل مال غنیمت کا پانچواں حصہ) فرمایا : خمس الخمس پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ (یعنی کل مال غنیمت کا پچیسواں حصہ) نہیں فرمایا ( اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو پورے خمس کو تقسیم کرنے کا اختیار حاصل تھا) ۔ مسئلہ : کیا رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کا حصہ مال غنیمت یعنی خمس میں باقی رہا ؟ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ امام شافعی قائل ہیں کہ خمس میں جو رسول اللہ ﷺ کا حصہ آپ کی زندگی میں تھا ‘ وہ اب مسلمانوں کے مفاد اور اسلام کی تقویت کیلئے صرف کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ خود اپنی زندگی میں اپنے حصہ کا مال جو ضروری مصارف سے بچ جاتا تھا اہل جہاد کیلئے اسلحہ اور گھوڑوں کی خریداری میں صرف کرتے تھے۔ اعمش نے ابراہیم کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر (اپنے اپنے عہد خلافت میں) گھوڑوں اور اسلحہ کی خریداری میں رسول اللہ ﷺ کا حصۂ غنیمت صرف کیا کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو مال غنیمت سے حصہ لینے کا استحقاق حاکم ہونے کی وجہ سے تھا ‘ اسلئے آپ کے بعد جو آپ کا جانشین ہو ‘ اس کو یہ حصہ دیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کا حصہ ساقط ہوگیا کیونکہ آپ کو خمس کا استحقاق حاکم و امیر ہونے کی وجہ سے نہ تھا بلکہ رسول ہونے کی وجہ سے تھا اور رسالت کا دروازہ آپ کے بعد بند ہوگیا ‘ لہٰذا خلیفہ کو آپ کا حصہ نہیں دیا جاسکتا۔ بات یہ ہے کہ اگر کسی حکم کو کسی صیغۂ مشتق سے وابستہ کیا جاتا ہے تو حکم کے تعلق کی علت مشتق کی وصفیت ہوتی ہے (جیسے خمس کو رسول اللہ ﷺ سے وابستہ کیا گیا ہے اور رسول صفت کا صیغہ ہے ‘ پس خمس کا استحقاق وصف رسالت کی وجہ سے ہوگا اور وصف رسالت ہی استحقاق خمس کی علت ہوگا) دیکھو ! مال غنیمت میں سے کوئی چیز پسند کرنے اور اپنے لئے چن لینے کا استحقاق رسول اللہ ﷺ کو تھا۔ بدر کے دن منبہ بن حجاج کی تلوار جس کو ذوالفقار کہا جاتا تھا ‘ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے پسند کرلی تھی اور خیبر کے قیدیوں میں سے حیی بن اخطب (یہودی) کی بیٹی حضرت صفیہ کا انتخاب حضور ﷺ نے اپنے لئے کرلیا تھا (رواہ ابو داؤد فی سننہٖ والحاکم و صححہ عن عائشہ) لیکن حضور ﷺ کے بعد باتفاق علماء اسلام کسی مسلم کمانڈر یا خلیفہ کو صفی (پسندیدگی اور انتخاب) کا یہ حق حاصل نہیں ‘ پس اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی خلیفہ کو مال غنیمت میں سے خمس لینے کا بھی حق نہیں ہے۔ مسئلہ : رسول اللہ ﷺ کے بعد کیا آپ کے اقارب کا حصہ حسب سابق باقی ہے ؟ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے اقارب کا حصہ بھی ساقط ہوگیا۔ احناف نے اس قول کے مختلف دلائل بیان کئے ہیں۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ اقارب کا یہ حصہ رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کی نصرت کی وجہ سے تھا (بنی ہاشم جاہلیت اور اسلام ہر دور میں رسول اللہ ﷺ کے مددگار رہے ‘ اسلئے رسول اللہ ﷺ ان کو مال غنیمت میں سے حصہ دیا کرتے تھے) جبیر بن مطعم کی روایت اوپر گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی عبدالمطلب کو خمس میں سے حصہ دیا اور بنی نوفل اور بنی عبدالشمس کو نہیں دیا (باوجودیکہ ان دونوں قبائل کا رشتہ بنی ہاشم سے وہی تھا جو بنی عبدالمطلب کا تھا) اور فرمایا : وہ یعنی بنی عبدالمطلب (بنی ہاشم کے ساتھ) جاہلیت اور اسلام میں اس طرح (وابستہ) رہے۔ آپ نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں ذوی القربیٰ سے مراد وہ لوگ ہیں جو (رشتہ داری کے علاوہ) قرابت نصرت بھی رکھتے تھے (تنہا) قرابت نسب مراد نہیں ہے اور حضور ﷺ کی وفات کے بعد نصرت رسول کا سلسلہ ختم ہوگیا (لہٰذا اقارب رسول ﷺ کا حصہ بھی ساقط ہوگیا) صاحب ہدایہ کی کی یہ دلیل نہایت ضعیف ہے ‘ ضعف کی وجہ ہم نے اوپر بیان کردی ہے۔ طحاوی نے لکھا ہے : اقارب سے مراد سب اہل قرابت تو بہرحال نہیں ہیں۔ بنی نوفل اور بنی عبدالشمس کو رسول اللہ ﷺ نے کوئی حصہ نہیں دیا بلکہ خاص خاص قرابت دار مراد ہیں۔ خاص خاص قرابتدار کون تھے ‘ اس کا انتخاب رسول اللہ ﷺ کی رائے پر موقوف تھا کہ جن کو چاہا ‘ آپ نے دیا اور حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کی رائے جاننے اور دریافت کرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ‘ اسلئے اقارب کا حصہ بھی ساقط ہوگیا ‘ جیسے مال غنیمت میں سے کوئی چیز اپنے لئے چھانٹ لینے کا حق حضور ﷺ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ حضور ﷺ کی زندگی تک قائم تھا۔ طحاوی نے اسی دلیل کو دوسرے طرز سے اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ آیت میں ذوی القربیٰ کا لفظ تمام قرابت داروں کو شامل ہے ‘ کسی کی خصوصیت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو دیا اور بنی نوفل و بنی امیہ کو کچھ نہیں دیا۔ جن لوگوں کو دیا ‘ ان کی تعداد معین تھی ‘ کچھ ان میں مالدار تھے اور کچھ نادار۔ اسی طرح جن کو کچھ نہیں دیا ان کی گنتی بھی مقرر تھی اور ان میں بھی کچھ مالدار اور کچھ نادار تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس عمل سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ مال رسول اللہ ﷺ کا تھا اوراقارب کی تعیین ‘ انتخاب اور عطاء کا اختیار رسول اللہ ﷺ کو تھا ‘ جس طرح مال غنیمت میں سے بعض چیزوں کو اپنے لئے چھانٹ لینے کا اختیار حضور ﷺ کو تھا۔ پس اپ کی وفات سے جس طرح حق صفی (پسندیدگی اور چھانٹ لینے کا حق) ختم ہوگیا ‘ اسی طرح اقارب (کی تعیین کر کے ان کو اقارب) کا حصہ دینا بھی واجب نہیں رہا۔ طحاوی نے لکھا ہے : یہی قول امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف اور محمد کا ہے۔ میں کہتا ہوں : مذکورۂ بالا دونوں دلیلیں ضعیف ہیں۔ چونکہ بنی عبدالمطلب ہر طرح بنی ہاشم کے مددگار اور حمایت کنندہ تھے ‘ اسلئے رسول اللہ ﷺ نے بنی ہاشم کے ساتھ بنی عبدالمطلب کو بھی ملا دیا۔ عبدمناف کی اولاد ہونے اور رشتہ میں یگانگت ہونے کو اس میں دخل نہ تھا ‘ جس طرح صدقہ کا مال جب بنی ہاشم پر حرام کردیا تو ان کے چچا زادوں یعنی بنی عبدالمطلب پر بھی حرام کردیا ‘ اس کی وجہ بھی رشتہ کی یگانگت اور سب کا عبدمناف کی اولاد ہونا نہ تھی۔ پھر یہ کہنا بجائے خود غلط ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بنی عبدالمطلب کی قرابت ایسی ہی تھی جیسی بنی ہاشم سے کیونکہ بنی ہاشم کی قرابت زیادہ تھی (ایک دادا کی اولاد کی باہمی قرابت دادا کے بھائی کی اولاد کی قرابت سے زیادہ قریبی ہوتی ہے) ۔ اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ آیت میں ذوی القربیٰ سے مراد تمام اقارب نہیں ‘ بعض اقارب مراد ہیں مگر ان کی تعیین نہیں کی گئی تو یہ ہی کہا جائے گا کہ ذوی القربیٰ کا لفظ مجمل تھا ‘ رسول اللہ ﷺ نے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو دے کر اس کو بیان کردیا۔ مگر اجمال ہمیشہ ہر وقت اجمال نہیں رہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے بیان کے بعد بھی یہ مجمل ہی رہے اور آئندہ پھر بیان کا محتاج ہو۔ پھر اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اللہ نے تعیین اور تقسیم کا اختیار رسول اللہ ﷺ کی رائے پر رکھا تھا لیکن حضور ﷺ کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کی رائے کا سلسلہ منقطع ہوجائے ‘ یہ ناقابل تسلیم ہے کیونکہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد یہ تقسیم و تعیین آپ کے خلفاء کی رائے پر موقوف ہونا چاہئے۔ صدقات میں اور مال غنیمت کے خمس میں ‘ مسکینوں ‘ یتیموں اور مسافروں کا حصہ بغیر تعیین و تخصیص کے کتاب اللہ میں ہے لیکن بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا ‘ یہ رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں دے دیا گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد یہ اختیار خلفاء کو منتقل ہوگیا۔ پھر تعیین اقرباء کا حق اگر رسول اللہ ﷺ کو دے دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ذوی القربیٰ کا حصہ بھی رسول اللہ ﷺ کا ہوگیا ‘ بالکل اسی طرح جس طرح مسکینوں ‘ یتیموں اور مسافروں کی تعیین کا حق رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا مگر ان کے حصہ کا مالک رسول اللہ ﷺ کو نہیں بنایا گیا اور اختیار تعیین رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہونے کا یہ معنی نہیں کہ ان کے حصے کا مال رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ پس جس طرح ان ہر سہ اقسام کو تقسیم کرنے اور تعیین حصص کرنے کا اختیار رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفاء کے ہاتھ میں باجماع علماء ہے ‘ اسی طرح اقارب کا حصہ تقسیم کرنے کا اختیار بھی حضور ﷺ کے بعد ساقط نہ ہونا چاہئے بلکہ خلفاء کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ خلفاء راشدین کا عمل کیا تھا ؟ خلفاء راشدین کے عمل کو ہر فریق اپنے قول کے ثبوت میں پیش کرتا ہے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ خلفاء راشدین نے خمس کے مال میں تین سہام قائم رکھے تھے (یتامیٰ ‘ مسکین اور ابن سبیل کے ‘ باقی رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اقارب کے سہام ساقط کر دئیے تھے) اور خلفائے راشدین کا عمل ہی قابل اقتداء ہے۔ صاحب ہدایہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ خلفاء کے اس عمل کی کسی صحابی نے تردید نہیں کی لہٰذا یہ عمل باجماعی ہوگیا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفاء ذوی القربیٰ کو خمس کا حصہ دیتے تھے اور نادار و مالدار کا کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفاء ‘ حضرت عباس ؓ کو ان کا حصہ دیا کرتے تھے باوجودیکہ حضرت عباس ؓ مالدار تھے۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں کلبی کی روایت سے ابوصالح کے حوالہ سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خمس کے پانچ سہام کئے جاتے تھے : ایک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ کا ‘ ایک ذوی القربیٰ کا اور تین سہام یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان نے صرف تین سہام قائم کئے ‘ رسول اللہ ﷺ اور ذوی القربیٰ کے حصے ساقط کر دئیے۔ پھر حضرت علی نے بھی تینوں خلفاء کی طرح خمس کے تین ہی سہام قائم رکھے۔ امام ابو یوسف نے اس کے خلاف محمد بن اسحاق کی روایت سے بحوالۂ زہری یہ قصہ نقل کیا ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس کو لکھا کہ اب ذوی القربیٰ کا حصہ کس کو دیا جائے ؟ حضرت ابن عباس نے جواب میں لکھا : تم نے مجھ سے ذوی القربیٰ کے حصہ کے متعلق دریافت کیا ہے کہ ذوی القربیٰ کا حصہ کس کا ہونا چاہئے ‘ میں کہتا ہوں کہ وہ حصہ ہمارا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے ذوی القربیٰ کا حصہ ہم کو دینے سے انکار کردیا بلکہ ہمارے ناکت خداؤں کی شادی اور قرضداروں کے قرض کی ادائیگی اور ہمارے (ضرورت مند) ناداروں کیلئے خدمتگار (یعنی باندی غلام) فراہم کرنے میں صرف کرنا چاہا ‘ مگر ہم نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور یہی خواہش کی کہ ذوی القربیٰ کا حصہ ہم کو دیا جائے۔ امام ابو یوسف نے لکھا ہے : ہم سے قیس بن مسلم نے حسن بن محمد بن حنفیہ کا بیان نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ اور ذوی القربیٰ کے حصوں کے متعلق لوگوں میں اختلاف ہوگیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا حصہ آپ کے خلفیہ کو ملنا چاہئے۔ کسی نے کہا : ذوی القربیٰ کا حصہ رسول اللہ ﷺ کے اقارب کیلئے (رہنا) چاہئے۔ اس کے خلاف بعض کا خیال ہوا کہ ذوی القربیٰ کا حصہ خلیفہ کے قرابت داروں کا ہونا چاہئے۔ آخر سب لوگوں کا اتفاق آراء اس امر پر ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ اور ذوی القربیٰ کے حصے (جہاد کیلئے) گھوڑوں اور ہتھیاروں کی خریداری میں صرف کرنا چاہئے۔ طحاوی نے بھی یہ روایت قیس بن مسلم ہی کے حوالہ سے نقل کی ہے اور اتنا زائد بھی نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت کا ہے۔ طحاوی نے محمد بن خزیمہ کی سند سے محمد بن اسحاق کا بیان نقل کیا ہے ‘ ابن اسحاق نے بیان کیا : میں نے ابو جعفر سے دریافت کیا کہ حضرت علی بن ابی طالب کو جب عراق پر اقتدار حاصل ہوگیا تو آپ نے ذوی القربیٰ کے حصہ کے متعلق کیا کیا ؟ ابو جعفر نے جواب دیا : خدا کی قسم : حضرت علی نے ذوی القربیٰ کے حصہ کے متعلق وہی طریقہ اختیار کیا جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا تھا۔ ابن اسحاق نے کہا : پھر آپ لوگ یہ کیا کہتے ہیں (کہ ذوی القربیٰ کا حصہ ہمارا ہے) ابو جعفر نے فرمایا : اہل عراق حضرت علی کی رائے پر چلتے تھے۔ ابن اسحاق نے کہا : پھر حضرت علی کیلئے مانع کیا تھا (کیوں ذوی القربیٰ کا حصہ انہوں نے آپ کو نہیں دیا) ابو جعفر نے فرمایا : حضرت کو صرف یہ خیال رہا کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی مخالفت کرنے کی تہمت آپ پر نہ لگائی جائے (لوگ اصل مسئلہ تو سمجھیں گے نہیں ‘ بدگمان لوگ حضرت علی کے اس فعل کو بدنیتی پر محمول کریں گے) ۔ میں کہتا ہوں : اگر مذکورۂ بالا اقوال صحابہ صحیح ثابت ہوجائیں تو ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خلفاء نے مال خمس کے تین حصے کئے اور ذوی القربیٰ کا حصہ ان کو نہیں دیا اور چونکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ پورا خمس صرف ایک صنف کو دے دینے کا اختیار خلیفہ کو ہے اور امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے ‘ اسلئے ذوی القربیٰ کو ان کا حصہ نہ دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا حصہ ساقط کردیا گیا یا ان کو دینا ناجائز ہے۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بیان کی ہے۔ عبدالرحمن بن ابی یعلی کا بیان ہے کہ حضرت علی فرما رہے تھے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو یہ حکم نافذ فرما دیجئے کہ ہم لوگوں کا (یعنی ذوی القربیٰ کا) خمس میں جو حق ہے ‘ اس کو آٗپ کی زندگی ہی میں میں (اقرباء کو) تقسیم کر دوں تاکہ آپ کے بعد اس (حق تولیت و تقسیم) میں ہم سے کوئی نزاع نہ کرسکے۔ حضور ﷺ نے (میری درخواست کے موافق) کردیا اور مجھے تقسیم کا متولی بنا دیا اور حضور ﷺ کی حیات میں ہی میں نے خمس کا حصہ ذوی القربیٰ کو تقسیم کیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر نے بھی مجھے اس کا متولی رکھا اور میں نے ان کی زندگی بھر (سہم اقارب کی) تقسیم کی۔ پھر حضرت عمر نے بھی مجھے متولی رکھا اور میں نے ان کی زندگی بھر تقسیم کا کام کیا۔ جب حضرت عمر کی خلافت کا آخری سال آیا تو (خمس کا) بہت مال آیا اور حضرت عمر نے اس میں سے ہمارا حصہ نکال کر الگ رکھ دیا اور مجھے بلوا کر کہا : اس کو لے کر (ذوی القربیٰ کو) بانٹ دو ۔ میں نے کہا : امیر المؤمنین ! ہم لوگوں کو تو اس سال مال کی ضرورت نہیں ہے اور دوسرے مسلمان حاجتمند ہیں ‘ اسلئے دوسرے مسلمانوں کو ہی (ذوی القربیٰ کا) یہ حصہ بھی تقسیم کر دیجئے۔ جب میں حضرت عمر کے پاس سے نکل کر آیا تو حضرت عباس بن عبدالمطلب سے میری ملاقات ہوئی۔ حضرت عباس نے فرمایا : علی ؓ ! تم نے آج ہم لوگوں کو ایسی چیز سے محروم کردیا جو آئندہ کبھی لوٹ کر ہم کو نہیں ملے گی (یعنی ذوی القربیٰ کا حصہ خمس میں سے آئندہ نہیں نکالا جائے گا) چناچہ حضرت عمر کے بعد سے اب تک ہم کو کسی نے (ذوی القربیٰ کا حصہ تقسیم کرنے کیلئے) نہیں بلایا۔ ابو داؤد نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ ذوی القربیٰ کا حصہ دیتے تھے ‘ اسی طرح حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی دیتے تھے ‘ البتہ آخری سال حضرت علی کے مشورہ سے حضرت عمر نے ذوی القربیٰ کو کچھ نہیں دیا۔ غالباً حضرت ابن عباس کا مذکورۂ بالا قول کہ حضرت عمر ہمارے ناکت خداؤں کا نکاح اور ہمارے قرضداروں کے قرض کی ادائیگی اس مال سے کرنا چاہتے تھے اور ہمارا اصرار تھا کہ ہمارے قبضہ میں (ذوی القربیٰ کا حصہ دے دیں (ہم جیسا چاہیں کریں) اور حضرت عمر نے اس سے انکار کردیا تھا۔ یہ واقعہ غالباً خلافت کے آخری سال کا ہے جب حضرت علی حضرت عمر کو اس کا مشورہ دے چکے تھے۔ دونوں قولوں کے تضاد کو دور کرنے کیلئے یہی تاویل کی جاسکتی ہے۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ ذوی القربیٰ کا حصہ خلفاء نے ساقط نہیں کیا۔ ذوی القربیٰ مالدار ہوں یا نادار ‘ سب کو دینا جائز ہے ‘ لیکن اگر ایک صنف کو ضرورت نہ ہو اور دوسری صنف حاجتمند ہو تو ایک صنف کا حصہ دوسری صنف کو امام دے سکتا ہے ‘ جیسا کہ حضرت علی کے مشورہ سے حضرت عمر نے کیا اور حضرت علی نے اپنے عہد خلافت میں بھی اسی طریقہ پر عمل کیا۔ امام کی صوابدید کے خلاف کرنا مناسب نہیں۔ امام یوسف نے لکھا ہے کہ مجھ سے عطاء بن سائب کہتے تھے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے رسول اللہ ﷺ اور ذوی القربیٰ کے سہام بنی ہاشم کو بھجوا دئیے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ عمر بن عبدالعزیز کو بنی ہاشم زیادہ ضرورت مند معلوم ہوئے ہوں گے ‘ اسلئے رسول اللہ ﷺ کا حصہ بھی انہوں نے بنی ہاشم کو بھیج دیا۔ ابو داؤد نے لکھا ہے کہ سعید بن مسیب نے حضرت جبیر بن مطعم کے حوالہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو خمس میں سے حصہ عطا فرمایا اور بنی عبدالشمس اور بنی نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا اور حضرت ابوبکر بھی رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کی طرح خمس کی تقسیم کرتے تھے مگر رسول اللہ ﷺ کی طرح حضور ﷺ کے اقارب کو نہیں دیتے تھے ‘ ہاں حضرت عمر اور آپ کے بعد آنے والے خلفاء ذوی القربیٰ کا حصہ بھی دیتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم کے اس بیان سے ثابت ہو رہا ہے کہ خلفاء کبھی ذوی القربیٰ کو دیتے تھے ‘ کبھی نہیں دیتے تھے۔ اس سے ہمارے قول کی تائید ہوتی ہے۔ فصل : آیت کی عبارت صراحۃً اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ خالص اللہ کا ہے جو اللہ کی راہ میں اصناف مذکورہ کو دیا جائے ‘ لیکن بطور اشارہ یہ بات بھی معلوم ہو رہی ہے کہ پانچ حصوں میں سے چار حصے ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے مال غنیمت حاصل کیا ہو۔ یہ بات اگرچہ صراحۃً مذکور نہیں ‘ بطور اشارہ معلوم ہو رہی ہے ‘ لیکن صراحت کے حکم میں ہے۔ جیسے آیت میراث میں آیا ہے : وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرثَہٗ اَبَوَاہٗ فَلِاُمِّہٖ الثُّلث اگر میّت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوں تو ماں کا ایک تہائی ہے ‘ باپ کا کتنا ہے ‘ یہ مذکور نہیں مگر دو تہائی باقی ہیں (اور کوئی دوسرا وارث نہیں) لامحالہ باقی دو تہائی باپ کو دیا جائے گا۔ باپ کے حصہ کا بیان اگرچہ عبارت میں نہیں کیا لیکن یہ منطوق کے حکم میں ہے (کیونکہ ماں کو دینے کے بعد باپ کے سوا کوئی وارث نہیں تو لامحالہ دوتہائی باپ کا ہی ہوگا) ۔ مذکورۂ بالا تفصیل کی روشنی میں اس آیت سے آیت یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ والرَّسُوْلِکا حکم منسوخ قرار دیا جائے گا۔ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ والرَّسُوْلِ میں تو سارا اختیار رسول کو دیا گیا ہے ‘ کسی دوسری کا حصہ مال غنیمت میں بالکل مقرر نہیں کیا گیا۔ جیسے حضرت سعید بن جبیر کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے جو بخاری نے اپنی تاریخ میں لکھی ہے (اور اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو خمس کا اختیار دیا گیا اور خمس کے مصرف کی تفصیل کردی اور اشارۃً بغیر عبارت کے باقی چار حصے مجاہدین کیلئے مقرر کر دئیے) ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ آیت اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍالخ کا نزول غزوۂ بنی قینقاع میں ہوا۔ ہجرت کے بیسویں مہینے ‘ غزوۂ بدر سے ایک ماہ کے بعد 15 شوال کو یہ غزوہ ہوا تھا ‘ اسی غزوہ میں یہ حکم نازل ہوا۔ بیہقی نے دلائل میں سعید بن کعب کی روایت سے اسی طرح بیان کیا ہے اور سعید بن مسیب کی روایت بھی یونہی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اوّل آیت قُلِ الْاَنْفَال نازل ہوئی اور پھر غزوۂ بدر کے موقع پر ہی آیت مذکورہ نازل ہوئی (جس نے آیت قُلِ الْاَنْفَالُکے حکم کو منسوخ کردیا) ۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top