Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے
وان جنحوا للسلم فاجنح لھا و توکل علی اللہ انہ ھو السمیع العلیم۔ اور اگر وہ (کفار) صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کی طرف جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بلاشبہ وہ (تمہارے اقوال کو) سننے والا اور (تمہاری نیتوں کو) جاننے والا ہے۔ سلم (صلح) کا مقابل حرب (جنگ) چونکہ عربی زبان میں مؤنث ہے ‘ اسلئے سلم کو بھی مؤنث استعمال کیا۔ مراد یہ ہے کہ اگر کفار صلح کی طرف مائل ہوں اور معاہدہ کرنا چاہیں تو تم بھی صلح کی طرف جھک جاؤ اور معاہدہ کرلو۔ حسن و قتادہ کا خیال ہے کہ آیت اُقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْسے اس آیت کا حکم منسوخ کردیا گیا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس آیت کا حکم اہل کتاب کیلئے مخصوص ہے کیونکہ اس آیت کا اتصال اہل کتاب کے قصہ سے ہی ہے۔ میں کہتا ہوں : نہ آیت کو منسوخ ماننے کی ضرورت ہے نہ اہل کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی (اسلئے کہ اس آیت میں امر وجوب کیلئے نہیں بلکہ یہاں) امر کا صیغہ اباحت کیلئے ہے ‘ یعنی صلح کرنا جائز ہے اور ظاہر ہے کہ اگر امام المسلمین مناسب سمجھے تو صلح کرسکتا ہے۔ اور آیت اقتلوا المشرکین کا حکم عمومی بھی نہیں بلکہ مخصوص البعض ہے۔ ذمی کافر اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ ان کی مکاری کا تم کچھ اندیشہ نہ کرو ‘ اگر ان کے دلوں میں فریب ہوگا تو اللہ ان کے فریب سے تمہیں محفوظ رکھے گا۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے ‘ اللہ اس کی حفاظت خود کرتا ہے۔
Top