Mazhar-ul-Quran - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
بیشک وہ لوگ جو امید نہیں رکھتے ہیں ہمارے پاس آنے کی اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے اور اسی پر مطمئن ہوگئے (آئندہ کی کچھ خبر نہیں) اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں
صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خواہشات دنیا سے اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو اور تکلیفات شرعیہ سے جنت کو ڈھانپ رکھا ہے۔ جس طرح پردہ کے اندر کوئی چیز ڈھکی اور چھپی ہوتی ہے۔ اسی طرح جنت تکلیفات شرعیہ کے پردہ کے اندر اور دوزخ خواہشات دنیا کے پردہ کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ اس لئے جس کسی کی تمام ہمت اور کوشش اور عمر خواہشات دنیا کے پورا کرنے اور آخرت سے غافل رہنے میں گزری اس نے گویا دوزخ کے دروازہ کا پردہ اٹھایا اور دوزخ میں جانے کا قصد کیا۔ اور جس کسی کی عمر تابمقدور تکلیفات شرعیہ کی برداشت مین بسر ہوئی اس نے جنت کے دروازہ کا پردہ اٹھایا اور جنت میں جانے کا قصد کیا۔ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔
Top