Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 63
وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓئِثَ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَۙ
وَلُوْطًا : اور لوط اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اسے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچالیا مِنَ الْقَرْيَةِ : بستی سے الَّتِيْ : جو كَانَتْ تَّعْمَلُ : کرتی تھی الْخَبٰٓئِثَ : گندے کام اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : وہ تھے قَوْمَ سَوْءٍ : برے لوگ فٰسِقِيْنَ : بدکار
اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان سے تعرض مت کرو انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے ۔
(آیت) ” اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم فاعرض عنھم وعظھم وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا “۔ (4 : 63) ”۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان سے تعرض مت کرو انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے ۔ “ یہ لوگ وہ ہیں جو اپنی نیتوں اور اپنے اندرونی ارادوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور جھوٹے دلائل اور غلط عذر پیش کرتے ہیں لیکن اللہ ان کے دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے اور ان کے ضمیر کے اندرونی حالات سے بھی باخبر ہیں ۔ لیکن جو پالیسی اسی وقت طے شدہ تھی وہ یہ تھی کہ منافقین سے چشم پوشی کی جائے ‘ ان کے ساتھ نرمی برتی جائے اور وعظ ونصیحت اور تعلیم وتربیت سے کام لیا جائے ۔۔۔۔ اس مقصد کے لئے عجیب انداز کلام اختیار کیا گیا ہے ۔ وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا “۔ (4 : 63) ” اور ان کو اس قدر بلیغانہ انداز میں سمجھاؤ کہ بات ان کے دل میں اتر جائے “۔ یہ نہایت ہی مصورانہ انداز تعبیر ہے ۔ گویا بات براہ راست ان کے دل میں رکھی جا رہی ہے اور وہ بات وہاں بیٹھتی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی طرف مائل کرتے ہیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آجائیں اور اللہ اور رسول کی پناہ میں امن و سکون کی زندگی بسر کریں ۔ اگرچہ انہوں نے یہ کوشش کی کہ وہ طاغوت کی عدالت سے فیصلے کرائیں اور یہ بات ان سے ظاہر بھی ہوگئی ۔ انہوں نے حضور سے فیصلہ کرانے سے پہلوتہی اختیار کی حالانکہ ان کو اس کی جانب بلایا گیا تھا ۔ لیکن ان سب کوتاہیوں کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا ہے ‘ اور واپسی کا وقت ختم نہیں ہوا ہے اور وہ اب بھی اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے معافی طلب کرسکتے ہیں ۔ رسول اللہ کی جانب سے انکے لئے استغفار قابل قبول ہے لیکن یہ استغفار تب قابل قبول ہوگی جب اصولی بات مان لی جائے اور وہ بات یہ ہے کہ رسولوں کو محض اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ لوگ ان کی اطاعت کریں ورنہ پھر رسالت کا مطلب کیا ہوا ۔ نیز یہ کہ رسول محض واعظ نہیں ہوتا اور نہ محض مرشد ہوتا ہے ۔
Top