Mazhar-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا (ف 1) کو یاد کرو جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ (یعنی مجھ کو فرزند عطا فرما کہ میرا وارث ہو) اور تو سب سے بہتر وارث ہے
حضرت زکریا اور حضرت مریم (علیہما السلام) کا ذکر۔ (ف 1) حضرت زکریا کا قصہ سورة آل عمران میں اور سورة مریم میں گذرچکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مریم (علیہما السلام) کی ماں اور زکریا کی ماں کو صاحب اولاد کیا تو زکریاعلیہ السلام کے دل میں بھی یہ امیدپیدا ہوئی کہ ان کے بڑھاپے اور ان کی بی بی کے بانجھ پنے کی حالت میں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صاحب اولاد کردیوے، اسی امید پر انہوں نے یہ دعا کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہیی اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعا قبول فرمائی ان کی بی بی کا بانجھ پن کھول دیا اور انکے گھر میں یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے آگے فرمایا زکریا ، ان کی بی بی ، ان کے بیٹے یحییٰ یہ سب نیک کامون میں چست اور اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب کے خوف سے اس کی عبادت کرنے والے تھے اور اللہ کی عظمت کے آگے اپنے آپ کو اس کا حقیر اورادنی بندہ سمجھتے تھے۔
Top