Mazhar-ul-Quran - Al-Ahzaab : 71
یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا
يُّصْلِحْ : وہ سنوار دے گا لَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) اَعْمَالَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) وَيَغْفِرْ : اور بخش دے لَكُمْ : تمہارے لیے ذُنُوْبَكُمْ ۭ : تمہارے گناہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ فَازَ : تو وہ مراد کو پہنچا فَوْزًا عَظِيْمًا : بڑی مراد
کہ اللہ (اس کے صلہ میں) تمہارے اعمال تمہارے لیے درست کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا، ار جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے تو بیشک1 وہ بڑٰی کامیابی کو پہنچا۔
(ف 1) اس آیت میں امانت کا جوذکر ہے اس سے مراد وہ باتیں ہیں جو اللہ نے انسان پر فرض کی ہیں، جس کے ادا کرنے سے انسان کی نجات ہے ۔ اس امانت کو اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین اور پہاڑوں کے روبرو پیش کرکے فرمایا تھا کہ اگر اس امانت کو تم پورے طور پر ادا کرو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا ورنہ تم کو سخت عذاب بھگتنا پڑے گا اور وہ اس شرط سے ڈرے ، اور اس امانت کو قبول نہیں کیا، پھر اللہ نے اس امانت کو حضرت آدم کے روبرو پیش کیا اور انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اس امانت کو قبول کرلیا، اللہ کو اپنے علم ازلی سے یہ بات معلوم تھی کہ حضرت آدم کی بہت سی اولاد اس امانت میں خیانت کرے گی اسی واسطے اللہ نے فرمایا کہ انسان بڑانادان ہے کہ بغیر انجام سوچے اتنابڑا بوجھ اپنے سرلے لیا ہے اور پھر انسان کی تسکین کے لیے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اس امانت میں کسی طرح کی خیانت کریں گے تو اللہ غفوررحیم ہے وہ اس کی مغفرت فرماوے گا ہاں جو شخص مرتے دم تک شرک ونفاق کی خیانت حق الٰہی میں کرے گا وہ آخرت کے عذاب میں پکڑاجائے گا۔ کس لیے کہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا کے پیدا ہونے کی بنیادیں اس جزاوسزا کے فیصلہ پر قائم ہوئی ہے یہ انتظام آسمان و زمین اور پہاڑوں کو جتلایا گیا تھا جب انہوں نے ذمہ داری ڈر کر اس انتظام کو اپنے ذمہ نہیں لیا ، اور سب بنی آدم کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس انتظام کو اپنے ذمہ لے لیاتوسب بنی آدم کو اس عہد پر قائم رہنا چاہیے۔
Top