Mazhar-ul-Quran - At-Tur : 44
وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا كِسْفًا : وہ دیکھیں ایک ٹکڑا مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے سَاقِطًا : گرنے والا يَّقُوْلُوْا : وہ کہیں گے سَحَابٌ : بادل ہیں مَّرْكُوْمٌ : تہ بہ تہ
اور1 اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا (یعنی عذاب) گرتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ گہرا بادل ہے (پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے) ۔
(ف 1) ان آیتوں میں فرمایا کہ ان کفار کی ڈھٹائی اب یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ قوم عاد یا قوم شعیب کی طرح آسمان پر کوئی عذاب کا بادل کا ٹکڑا بھی ان کو نظر آئے گا تو جب بھی انہیں عذاب کا یقین نہ آئے گا اور اس عذاب کے بادل کو جس طرح قوم عاد نے معمولی بادل بتلایا تھا ویسا ہی یہ کہیں گے کہ یہ تو کہیں کی ہوا یا بادل ہے اوپر تلے جمع ہوگئے ہیں اور غلیظ ہوکرابر کی صورت اختیار کرگئے ہیں اور اب بارش ہوگی پھر فرمایا کہ جب ان لوگوں کی سرکشی اس درجے کو پہنچ گئی تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے سمجھا نے اور نصیحت کرنے کا موقع اب باقی نہیں رہا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے پھر ان کو ان کی سرکشی کی سز امل جائے گی ۔ دنیا میں کچھ عذاب ان پر آئے گا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ عذاب آخرت میں گرفتار رہیں گے ، اللہ کا وعدہ سچا ہے دنیا کا عذاب بدر کی لڑائی میں آیا کہ بڑے بڑے سرکش قریش بڑی ذلت اور خواری سے اس لڑائی میں مارے اور قید ہوئے اور ہر شخص کی آنکھیں تو اس قابل نہیں ہیں کہ وہ عذاب آخرت کو دنیا میں دیکھ سکے مگر اللہ نے اپنے محبوب کو ان سرکشوں کے عذاب آخرت کا حال بھی دنیا میں دکھلادیا، اسی واسطے آپ نے ان سرکشوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ اب تم لوگوں نے اللہ کا وعدہ سچا پالیا، صحیح مسلم میں انس بن مالک کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے جگہ بتلادی تھی کہ یہاں ابو جہل کی لاش پڑی ہوگی اور یہاں فلاں شخص کی آگے فرمایا کہ اے محبوب ﷺ تم ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ہم تم کو دیکھتے ہیں ضرور تمہاری مدد کریں گے۔
Top