Mazhar-ul-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
تو کیا تم نے2 ایسے شخص کو دیکھا ؟ جو (دین حق سے) پھر گیا۔
قیامت میں ایک بوجھ دوسرا نہ اٹھائے گا۔ (ف 2) شان نزول : یہ آیت ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی جس نے نبی ﷺ کا دین میں اتباع کیا تھا، مشرکوں نے اس کو عار دلائی اور کہا کہ تو نے بزرگوں کا دین چھوڑ دیا اور تو گمراہ ہوگیا اس نے کہا، میں نے عذاب الٰہی کے خوف سے ایسا کیا، توعار دلانے والے کافر نے اس سے کہا کہ اگر تو شرک کی طرف لوٹ آئے اور اس قدر مال مجھ کودے تو تیرا عذاب میں اپنے ذمہ لیتا ہوں، ولید اسلام سے منحرف ومرتد ہوگیا پھر شرک میں مبتلا ہوگیا، فرمایا اے محبوب ﷺ اس شخص کا حال دیکھنے کے قابل ہے کہ یہ راہ راست پر آن کر اپنی بےوقوفی سے اس سے پھر گیا اور پھر وہ بےوقوفی بھی ادھوری چھوڑ دی کہ اس جھوتی قراردا جس کو مال دینا ٹھہرا تھا اس کو تھوڑا سادیا اور باقی سے منع کردیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قرارداد کے رو سے بھی اس نے اپنے آپ کو عذاب سے پورواسبکدوش نہیں کیا اس کے بعد اس بہکانے والے شخص کے حق میں فرمایا کہ کیا اس کو علم غیب ہے کہ ایک شخص کا عذاب دوسرا شخص اپنے ذمہ لے لیوے تو یہ ذمہ داری صحیح ہوجاتی ہے ۔ کیا اس کو ان باتوں کی خبر قرآن میں نہیں ملی جو موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں میں اتری تھی وہ ابراہیم (علیہ السلام) جو نہایت باوفا تھے جنہوں نے خدا کے عہد پورے کیے احکام بندوں کو صاف صاف پہنچائے ، اور اپنی جان ومال کو راہ خدا میں وقف کردیا خواب میں جو ان کو حکم ہوا یعنی بیٹے کا ذبح کرنا وہ پورا کیا، اور اپنا آگ میں ڈالاجانا اور اس کے علاوہ اور مامورات بھی تھے ، غرض فطرت اسلام پر قائم تھے انکے صحف میں یہ بات اتری تھی کہ قیامت کے دن ایک شخص کے گناہوں کا بوجھ دوسرانہ اٹھائے گا وہ شخص اپنا کیا خود بھگتے گا اور اپنے کیے کا پورابدلہ پائے گا یہ نہ ہوگا کہ کسی کی نیکیاں یابدیاں زبردستی دوسرے کو دیدی جائیں یعنی جو کرنی سوبھرنی، بغیر ایمان لائے اور بےعمل کیے وہاں کچھ نہ ملے گا پس دنیا میں غافل نہ رہنا چاہیے وہاں غیروں کی اچھائیاں ہرگز نہ مل جائیں گی۔ ایصال ثواب کابیان۔ ہاں خود اگر کوئی اپنے کسی عمل صالح کا ثواب دوسرے کو پہنچاوے گا صدقہ دے ، نیاز فاتحہ دلائے اس کے نام پر خیرات کرے جس قسم کی بھی ہو تو برابر اس کا ثواب بسبب ہبہ کے دوسرے کو پہنچے گا حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ میری ماں کی وفات ہوگئی اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں کیا نافع ہوگا، فرمایا، ہاں۔ مسائل اور بکثرت احادیث سے ثابت ہیں کہ میت کو صدقات و طاعات سے جو ثواب پہنچایاجاتا ہے پہنچتا ہے اور اس پر علماء امت کا اجماع ہے، اور اسی لیے مسلمانوں میں معمول ہے کہ وہ اپنے اموات کو فاتحہ وغیرہ میں طاعات وصدقات سے ثواب پہنچاتے ہیں یہ عمل احادیث کے بالکل مطابق ہے اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہاں انسان سے کافر مراد ہے معنی یہ ہیں کہ کافر کو کوئی بھلائی نہ ملے گی بجز اس کے جو اس نے کی ہو، کہ دنیا ہی میں وسعت رزق یا تندرستی وغیرہ سے اس کا بدلہ دے دیاجائے گا۔ تاکہ آخرت میں اسکا کچھ حصہ باقی نہ رہے اور ایک معنی آیت کے مفسرین نے یہ بھی بیان فرمائے ہیں کہ آدمی بمقتضائے عدل وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو چاہے عطا فرمائے اور ایک قول مفسرین کا یہ بھی ہے کہ مومن کے لیے دوسرا مومن جو نیکی کرتا ہے وہ نیکی خود اس مومن کی شمار کی جاتی ہے جس کے لیے کی گئی ۔ کیونکہ اس کا کرنے والا مثل نائب ووکیل کے اس کا قائم مقام ہوتا ہے ، آگے فرمایا کہ ہر آدمی کے کام جو دنیا میں اس نے کیے ہوں گے وہ عنقریب میزان عمل میں تول کر دیکھے جائیں گے پھر ہر شخص کو پوری سزاجزا ملے گی اچھوں کو اچھی بروں کو بری۔
Top