Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 50
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ
اِنْ : اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْهُمْ : انہیں بری لگے وَاِنْ : اور اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے مُصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت يَّقُوْلُوْا : تو وہ کہیں قَدْ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑ لیا (سنبھال لیا) تھا اَمْرَنَا : اپنا کام مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَيَتَوَلَّوْا : اور وہ لوٹ جاتے ہیں وَّهُمْ : اور وہ فَرِحُوْنَ : خوشیاں مناتے
اگر تمہیں کوئی نعمت پہنچے تو ان کو (یعنی منافقوں کو) کو بری لگے اور اگر تمہیں پیش آئے کوئی مصیبت تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی سے اپنا کام درست کر کھا تھا، اور وہ خوشیاں مناتے ہوئے لوٹتے ہیں
شان نزول : عبد اللہ بن ابی وغیرہ منافقین لڑائی کے وقت بناوٹی عذر کرکے جس لڑائی میں شریک نہیں ہوتے تھے اور مسلمانوں کی فتح ہوتی اور مال غنیمت ہاتھ آتا تو دو طرف سے ان منافقین پر یہ امر شاق گزرتا تھا۔ ایک تو یہ کہ مسلمانوں کی طرف سے عداوت تھی اس واسطے ان کی بہبودی اچھی معلوم نہیں ہوتی تھی۔ دوسرے ان کو یہ محسوس ہوتا تھا ہم کیوں نہیں گئے جو ہمارے ہاتھ بھی مال لگتا اور اگر مسلمانوں کو کسی لڑائی میں کچھ ضرر پہنچتا تو یہ منافقین اپنی دور اندیشی پر نازاں ہوکر کہتے کہ ہم تو ضرر سے بچنے کے لئے پہلے ہی سے عذر کرکے نہیں گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں منصوبوں کے جواب میں یہ آیتیں نازل فرمائیں اور پہلے منصوبے کا جواب یہ دیا کہ یہ منافق مسلمانوں کی بہبودی پر یوں ہی جلتے رہیں گے اور اللہ دن بدن مسلمانوں کو بہبودی دیتا رہے گا اور قریب ہے کہ اللہ کے عذاب آسمانی یا مسلمانوں ہی کے تسلط سے یہ منافق نیست ونابود ہوجاویں گے۔ چناچہ ویسا ہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں منافقوں کا نام مدینہ میں باقی نہ رہا۔ دوسرے منصوبہ کا جواب یہ فرمایا کہ مشیت الہی میں جس کو جو ضرر پہنچنا ہوتا ہے وہ گھر بیٹھے بھی پہنچتا ہے۔ مشیت الہی کے آگے دور اندیشی کچھ کام نہیں آتی۔ یہ ان لوگوں کی خام خیالی ہے جو دور اندیشی کو مشیت الہی سے بچنے کا سبب قرار دیتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو تسکین فرمائی کہ تم کو کچھ ضرر نہیں مارے گئے تو شہید ہوئے اور اگر زندہ واپس آئے تو دنیا کا مال غنیمت اور عقبیٰ کا اجر کمایا۔
Top