Mualim-ul-Irfan - Yunus : 18
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَيَعْبُدُوْنَ : اور وہ پوجتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَضُرُّھُمْ : نہ ضرر پہنچا سکے انہیں وَلَا يَنْفَعُھُمْ : اور نہ نفع دے سکے انہیں وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : یہ سب شُفَعَآؤُنَا : ہمارے سفارشی عِنْدَاللّٰهِ : اللہ کے پاس قُلْ : آپ کہ دیں اَتُنَبِّئُوْنَ : کیا تم خبر دیتے ہو اللّٰهَ : اللہ بِمَا : اس کی جو لَا يَعْلَمُ : وہ نہیں جانتا فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَ : اور لَا : نہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور بالا تر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شرک کرتے ہیں
اور عبادت کرتے ہیں یہ لوگ اللہ کے درے ان چیزوں کی جو نہ ان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ دے سکتی ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ لوگ ( کہ جن کی عبادت کرتے ہیں) یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس ( اے پیغمبر) آپ کہہ دیں ، کیا تم بتلاتے ہو اللہ کو وہ چیز جو وہ نہیں جانتا آسمانون میں اور نہ زمین میں ، پاک ہے اس کی ذات اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کے ساتھ شریک بناتے ہیں
ربط آیات۔ اس سورة کی ابتدائی آیات میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا بیان تھا ، مشرک لوگ اس قرآن کو ماننے کے لیے اس لیے تیار نہ تھے کہ اس میں ان کے عقائد کی تردید تھے کہتے تھے اس میں ہمارے معبودوں کی توہین کی گئی ہے ، لہٰذا آپ کوئی دوسرا قرآن لے آئیں یا اسی میں ہماری مرضی کے مطابق ترمیم کردیں تو ہم ماننے کے لیے تیار ہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے کہلوایا کہ کتاب اللہ میں تغیر وتبدل کرنا میرے اختیار میں نہیں میں تو صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتا ہوں۔ اگر میں اس میں تبدیلی کی کوشش کروں تو بڑے دن کے عذاب میں پھنس جائوں گا۔ ہاں ! اگر اللہ تعالیٰ خود کسی حکم کو اٹھادے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم جاری کر دے تو یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ کسی مصلحت کی خاطر ایسا کر دے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کی صداقت کو بیان فرمایا اور آپ (علیہ السلام) سے یہ اعلان کروایا کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ جو خدا کے سچے رسول اور اس کی سچی کتاب کو نہیں مانتے ان سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم نہیں۔ فرمایا اہل کتاب نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی تو وہ لعنتی اور مغضوب علیہ ٹھہرے ، ان پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا ، رسالت کی حقانیت کے بعد اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے پھر توحید کا مسئلہ سمجھایا ہے اور شرک کی مذمت فرمائی ہے یہ مضامین اس سورة میں یکے بعد دیگرے آرہے ہیں ، کہیں قرآن کی صداقت ہے تو کہیں توحید اور شرک کا بیان ہے اور کہیں قیامت کا ذکر ہو رہا ہے یہ سارے مضامین آپس میں مربوط ہیں اور سورة کے آخر تک چلے گئے ہیں۔ توحید اور شرک۔ اس سے پہلے توحید کے عقلی دلائل کے طور پر ارض وسما کی تخلیق ، چاند اور سورج کی گردش اور رات دن کے اختلافت کا ذکر ہوچکا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے براہ راست مشرکین کا ذکر کیا ہے اور ان کے افعال قبیحہ کو بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ویعبدون من دون اللہ مالا یضرھم ولا ینفعھم “ اور مشرک لوگ پرستش کرتے ہیں اللہ کے ورے ان چیزوں کی جو نہ انکو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ دے سکتی ہیں (آیت) ” من دون اللہ ‘ کا معنی اللہ کے سوا بھی ہوتا ہے اور اللہ کے ورے بھی۔ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) کا ترجمہ ، قرآن کا سب سے پہلا بہترین اردو ترجمہ ہے جس میں آپ نے دون کا معنی نیچے یا ورے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑا معبود تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں مگر اس کے نیچے جھوٹے معبود بھی بنا رکھے ہیں جن کے متعلق ان کا دعوی تھا کہ یہ بھی اللہ ہی کے مقرر کردہ ہیں۔ جب دون کا معنی سوا کرتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ مشرک اللہ کے علاوہ اس کا مدمقابل مان کر کسی دوسرے خدا کی پوجا کرتے ہیں جیسا کہ مجوسی اور ثنوی فرقے والے مانتے ہیں۔ ایک نیکی کا خدا ہے اور دوسرا برائی کا۔ ایک روشنی کا خدا ہے اور دوسرا تاریکی کا ہے۔ ایک کو یزداں کا نام دیتے ہیں اور دوسرے کو اہرمن کا۔ مگر مشرکوں کا عقیدہ مختلف ہے وہ واجب الوجود اور خالق تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اس نے اپنے ختیارات دوسروں کو بھی دے رکھے ہیں اور وہ بھی لوگوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں اور بگڑی بناتے ہیں۔ یہی مشرک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ اس نے فرشتوں کو انسانوں کی پیدائش سے کروڑوں اربوں سال پہلے پیدا کیا۔ پھر جنات پیدا کیے اور اس کے بعد انسان اور ہر جسم یا وجود رکھنے والی چیز تخلیق کی ، اسی لیے قرآن پاک نے فرمایا (آیت) ” اللہ خالق کل شیء (الزمر) ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ چناچہ معدودے چند دہریوں کو چھوڑ کر تمام کافر اور مشرک بھی خالق خدا تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں۔ مشرک عرب کے ہوں یا ہندوستان کے وہ یہی کہیں گے کہ پیدا کرنے والا بھگوان یا ایشور ہے۔ فارسی میں خدا کہتے ہیں اور یہ لفظ اللہ کا ترجمہ ہے یعنی ایسی ذات جس کا وجود ذاتی ہے۔ کسی کا دیا ہوا نہیں۔ اللہ کے علاوہ ہر چیز کا وجود عطائی ہے ، ذاتی نہیں۔ مقصد یہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات کو تو سارے ہی مانتے ہیں مگر توحید اور شریعت کا انکار کر کے کافر اور مشرک بن جاتے ہیں۔ گویا جو لوگ اللہ کو مانتے ہوئے کسی دوسرے کو بھی کسی حیثیت میں اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ وہی مشرک ہیں۔ انتہائی تعظیم۔ شرک زیادہ تر عبادت میں ہوتا ہے ، جس طرح اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اسی طرح دوسروں کی بھی کی جاتی ہے۔ امام بیضاوی (رح) عبادت کی تشریح ” اقصی غایۃ ، تعظیم “ کرتے ہیں یعنی کسی کی حد درجہ تعظیم کرنا عبادت کہلاتا ہے جب کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی انتہائی تعظیم اس اعتقاد کے ساتھ کرتا ہے کہ یہ شخص نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ جانتا ہے اور بگڑی بنانے پر قادر ہے ، تو ایسا شخص مشرک بن جائے گا۔ کیونکہ واجب الوجود ، خالق علیم کل اور مختار کل اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ ہیں۔ ذرے ذرے کو جاننے والا صرف اللہ ہے۔ نہ جبرائیل ہے نہ کوئی رسول اور نبی ان صفات میں جو بھی کسی مخلوق کو شریک کریگا۔ اس کے مشرک بننے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ تعظیم کبھی زبان سے ہوتی ہے کبھی جسم سے اور کبھی مال سے جسم کی تعظیم رکوع ، سجود ، یا دست بستہ کھڑا ہونا ہے۔ زبان کی تعظیم یہ ہے کہ کسی کی حمدوثنا کے ترانے گائے جائیں ، مال کی تعظیم یہ ہے کہ کسی کے نام کی نذرونیاز دی جائے۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں اور ” ایاک نعبد “ میں عقیدہ کار فرما ہے پھر یہ تعظیم اس نظریہ کے ساھ کی جائے کہ ایسا کرنے سے ہمیں فائدہ ہوگا اگر نہ کی تو نقصان ہوجائے گا۔ یا یہ نظریہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں ، مستی کی تعظیم کی جائے گی تو وہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارش کر دے گا یا ہمیں تقرب دلا دے گا یا ہماری مشکل حل کرا دے گا ، یہ تمام نظریات باطل ہیں اور شرک میں داخل ہیں۔ یہ سارے معاملات صرف اللہ کی ذات کے ساتھ ہی روا ہیں۔ قبروں کی تعظیم۔ ہمارے ہاں بعض قبروں کی خاص تعظیم کی جاتی ہے۔ چھٹی صدی کے مفسر قرآن امام رازی (رح) عظیم آدمی ہوئے ہیں۔ تفسیر کے علاوہ انہوں نے علم الاخلاق پر کتابیں لکھی ہیں۔ منطق میں ماہر تھے ، آپ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ بتوں ، ٹھاکروں ، درختوں اور ستاروں کی تعظیم کرتے ہیں ، ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں مگر ہمارے زمانے کے بعض مسلمان قبروں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہوتا کہ صاحب قبر اللہ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کر دے گا۔ داتا صاحب کی قبر پر نذرونیاز اور چادر پوشی تعظیم کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے مزار ہیں جن کے سامنے سجدے ہوتے ہیں ، لوگ دست بستہ کھڑے ہو کر ان سے حاجات طلب کرتے ہیں یا حاجت براری کے لیے سفارش چاہتے ہیں۔ اس انتہائی تعظیم کی خاطر عرق گلاب سے قبر کو غسل دیا جاتا ہے ، پھول ڈالے جاتے ہیں ، ہزاروں چادریں نذر ہوتی ہیں اور قبروں پر نذر ونیاز کا لامتناہی سلسلہ تو ہمیشہ جاری رہتا ہے اگر یہ سب کچھ صاحب قبر کو نافع اور ضار سمجھ کر کیا جائے تو واضح شرک ہے اور اگر اسے نافع اور ضار نہ سمجھا جائے تو اس کو شرک تو نہیں کہہ سکتے مگر اس عمل کے بدعت ، مکروہ اور حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) تفسیر بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی وہ تعظیم مراد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ، تو قبر کے سامنے سجدہ کرنا کفر تو نہیں ہوگا مگر شریعت مطہرہ میں حرام ضرور ہے کیونکہ سجدہ عبادت کا ہو یا تعظیمی ، یہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ پہلی امتوں میں غیر اللہ کے لیے سجدہ تعظیمی روا تھا۔ مگر سجدہ عبادت کسی امت میں بھی جائز نہیں رہا۔ تا ہم ہماری امت کے لیے ہر قسم کا سجدہ حرام ہے ، خواہ وہ عبادت کا ہو یا تعظیم کے لیے ، بلکہ سجدہ کے یے تو واضح حکم یہ ہے (آیت) ” لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذین خلقھن (حم سجدہ) سورج ، چاند یا کسی مخلوق کے سامنے سجدہ نہ کرو ، بلکہ سجدہ صرف اس ذات کے لیے جو ان سب کا خالق ہے۔ غیر اللہ کی نذرونیاز۔ غیر اللہ کی نذرونیاز دے کر بھی شرک کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ سورة انعام میں پرانے مشرکوں کا ذکر آتا ہے جو اپنی پیداوار میں سے ایک حصہ اپنے معبودوں کے نام کا نکالتے تھے۔ ہمارے ہاں گیارہویں کا عقیدہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس لیے گیارھویں دے دیتا ہے کہ اس کے بغیر گھر سے خیروبرکت اٹھ جائیگی تو یہ فعلی شرک ہے۔ جو شخص کوئی چیز نبی ، ولی یا قبر والے کے نام نامزد کرے اور پھر اس کی قبر پر چڑھائے تو یہ نیاز میں شرک ہے۔ اور اگر اللہ کے نام پر کسی فوت شدہ کے ایصال ثواب کے لیے کوئی چیز دیتا ہے تو یہ جائز ہے ، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ، گیارہویں شریف کے بعض دلدادہ یہ تاویل کرتے ہیں کہ ہم تو ایصال ثواب کے لیے دیتے ہیں بھئی ! اگر ایسا ہے تو پھر گیارہوں کا نام کیوں لیتے ہو ؟ پھر گیارہ تاریخ کیوں مقرر کرتے ہو ؟ کتاب وسنت میں ایصال ثواب کے لیے تاریخ کے تقرر کا کوئی حکم ہے ؟ کسی جمعرات ، تیسرے ، ساتویں یا چالیسویں کی کوئی اہمیت ہے ، شریعت نے ایسی چیزوں کا کہاں حکم دیا ہے ؟ اسی چیز کو تو بدعت کہا جاتا ہے۔ اگر ثواب ہی پہنچانا مقصود ہے تو جب چاہو صدقہ خیرات کرو ، کون روکتا ہے ؟ اس میں ایک اور قباحت بھی ہے۔ ختم گیارہوں کا ہو یا تیسرے کا یا چالیسویں کا ، سب لوگ کھاتے ہیں ، حالانکہ اگر ایصال ثواب مقصود ہے تو پھر یہ غربا اور مساکین کا حق ہے۔ مالدار اور برادری والے کھا گئے تو ثواب کیسے ہوگا ؟ یتیموں اور مسکینوں کو کھلا کر اس کا ثواب پہنچائو تو کچھ بات بھی بنے۔ اگر گیارہویں سے شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کا تقرب مقصود ہے تو اس کا شرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اسی طرح اگر داتا دربار پر بکرا اس مقصد کے یے دیا گیا کہ داتا صاحب ہماری سفارش کردیں گے ، ہماری مراد پوری کردیں گے یا کرا دیں گے یا خدا تعالیٰ کا قرب دلا دیں گے تو ہر صورت میں شرک کا ارتکاب ہے۔ یہی غایت درجہ کی تعظیم ہے ، یہی عبادت ہے۔ قبر پرستی۔ ہمارے ہاں وسیع پیمانے پر قبر پرستی ہو رہی ہے۔ قبر کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا ، اس کے سامنے رکوع یا سجود کرنا ، اس قبر والے سے دعا مانگنا یا کرانا ، قبر کو چومنا یا ہاتھ لگانا سب ایسی چیزیں ہیں جو قبروں کی حد درجہ تعظیم میں آتی ہیں۔ قبر کو اس نیت سے ہاتھ لگانا یا ہاتھ لگا کر منہ پر ملنا کہ صاحب قبر خوش ہو کر ہماری بگڑی بنا دیگا۔ واضح شرک ہے۔ یہ کام تو پیغمبر اسلام کی قبر کے ساتھ بھی روا نہیں ۔ ذرا فاصلے پر ادب سے کھڑے ہو کر ، نظریں نیچی کر کے خاموشی کے ساتھ صلوٰۃ وسلام پڑھو ، حضور ﷺ کی قبر کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہ کرو جو خود آپ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ آپ نے تو آخری وقت میں یہ دعا کی تھی ” اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد “ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا ہونے لگے۔ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء اور بزرگوں کے ساتھی یہی معاملہ کیا جس کا ذکر حضور ﷺ نے مرض الموت میں کیا ” لعنۃ اللہ علی الیھود والنصاری اتخذوا قبورا انبیائھم مساجد “ یہودیوں اور نصرانیوں پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ قبروں پر گنبد گھڑے گئے۔ ان پر چادریں چڑھائیں اور پھر ان کی تعظیم کے لیے لوگوں کو خاص تاریخ پر جمع کیا۔ یہ چیز حرام ، ناجائز اور اسراف میں داخل ہے۔ تمام بزرگان دین اس سے منع کرتے آئے ہیں۔ کسی قبر والے سے سوال کرنا تو انتہائی درجے کی گراوٹ ہے اور اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تو صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے اور تمام مخلوق اللہ ہی کی محتاج ہے۔ سورة الرحمن میں موجود ہے۔ (آیت) ” یسئلہ من فی السموت والارض “ آسمان و زمین کی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتی ہے کوئی اپنی زبان سے مانگ رہا ہے اور کوئی چیز اپنی حالت سے طلب کر رہی ہے۔ مانگنے والے سارے ہیں اور دینے والی صرف ایک ذات خداوندی ہے۔ وہی سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ باقی تمام ملاحہ ، انبیاء اور عام انسان وحیوان اسی کے محتاج ہیں بوستان سعدی صاحب کی بڑی نصیحت آموز کتاب ہے ، آپ اس میں فرماتے ہیں ؎ دل اندر صمد باید اے دوست بست کہ عاجز تر انداز صنم ہر کہ مست دل کو صمد کے اندر ہی لگانا چاہیے اے دوست ! کیونکہ باقی سب چیز تو بت سے بھی عاجز ہے۔ نفع نقصان کا اختیار مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ مسئلہ شفاعت۔ فرمایا مشرک لوگ ایک تو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دوسری بات یہ کہتے ہیں (آیت) ” ویقولون ھولاء شفعائونا عنداللہ “ کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ہم جن کی عبادت کرتے ہیں ، نذرونیاز دیتے ہیں ا اور ان کی حد درجہ تعظیم کرتے ہیں یہ ہمیں خدا کے ہاں چھڑا لیں گے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سفارش دو قسم کی ہے ، ایک سفارش وہ ہے جو اللہ کی اجازت سے فرشتے ، انبیائ ، شہدا ، اور کامل الایمان صلحاء لوگ کریں گے۔ اور یہ سفارش اس شخص کے حق میں قبول ہوگی۔ جس کا عقیدہ درست ہوگا اور جس کے حق میں خدا تعالیٰ راضی ہوگا۔ سفارش کی دوسری قسم جبری سفارش ہے جس کے مشرکین قائل ہیں۔ امام رازی (رح) اس کو جبری اور قہری سفارش سے موسوم کرتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ خدا تعالیٰ کی ذات کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کر کے ایسی سفارش کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعض اوقات کسی جابر سے جابر بادشاہ کو بھی اپنے کسی وزیر یا مقرب کی سفارش ماننا پڑتی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی بات نہ مانی تو اس کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اسی طرح مشرک لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبود خدا کی مرضی کے خلاف بھی سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے گناہوں کا کفارہ بن کر انہیں چھڑا لیں گے۔ یہودی کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے اور کسی ختنہ شدہ اسرائیلی کو جہنم میں نہیں گرنے دیں گے۔ یہی جبری سفارش ہے ، جو اس سفارش کا قائل ہے ، وہ شرک کا مرتکب ہے۔ آج کا مسلمان بھی یہی کہتا ہے کہ ہمیں کچھ پروا نہیں ہمیں ہمارے پیر صاحب ہر صورت میں بچا لیں گے۔ اللہ نے ایسی سفارش کی تردید کی ہے اور ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں اور ہم کچھ بھی کرتے پھریں۔ یہ ہمیں بچا لیں گے۔ فرمایا (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے (آیت) ” اتنبئون اللہ بما لا یعلم فی السموت ولا فی الارض “ کیا تم اللہ کو ایسی چیز بتلاتے ہو جس کو وہ آسمان و زمین میں نہیں جانتا۔ اگر اس کا کوئی سفارشی ہوتا تو وہ ضرور اللہ کے علم میں ہوتا ، مطلب یہ ہے کہ درحقیقت ایسا کوئی سفارشی تو موجود نہیں ہے مگر تم اسے خدا کے علم میں لا رہے ہو کہ فلاں فلاں ہمارا سفارشی موجود ہے ، معلوم ہوا کہ ایسا کوئی سفارشی کائنات میں موجود نہیں جو کوئی بات اللہ تعالیٰ سے جبرا منوا لے۔ بلکہ (آیت) ” سبحنہ “ اس کی ذات تو پاک ہے (آیت) ” وتعٰلی “ اور بلند ہے (آیت) ” عما یشرکون “ ایسی چیزوں سے جن کو یہ خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ شرک کی ابتدا۔ فرمایا ، یاد رکھو ! (آیت) ” وما کان الناس الا امۃ واحدۃ “ ساے کے سارے لوگ ایک ہی امت پر تھے سب لوگ عقیدہ توحید اور قیامت کے برحق ہونے پر متفق تھے۔ (آیت) ” فاختلفوا “ پھر بعد میں انہوں نے اختلاف کیا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) سے کچھ عرصہ پہلے تک لوگ عقیدہ توحید پر قائم تھے اس دوران حضرت شیث (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) بھی گزرے ہیں لیکن لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پھر نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں شرک کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ان مشرکین کو سزا بھی ملی اور وہ سب کے سب طوفان میں غرق ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء باطل ہے۔ اس نظریے کے مطابق پہلے سب لوگ بندر تھے جو ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق پہلے لوگ کفر اور شرک پر تھے۔ آثار کو پوجتے جب عقل میں پختگی آئی ، شعور پیدا ہوا ، تمدن نے ترقی کی تو عقیدہ توحید پیدا ہوگیا۔ یہ بالکل باطل اور کفریہ عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ پہلے سب لوگ عقیدہ حق پر متفق تھے ، پھر بعد میں اختلافات پیدا ہوئے اور وہ شرک کی طرف مائل ہوگئے۔ اس دنیا پر اولین انسان حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور آپ بالاتفاق خدا کے نبی ہیں آپ بلاشبہ عقیدہ توحید پر تھے ، لہٰذا یہ کہنا کہ پہلے لوگ مشرک تھے پھر بعد میں موحد ہوئے ، قطعا غلط ہے۔ شرک کی ابتداء حضرت نو ح (علیہ السلام) سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔ یہی بات درست ہے۔ فرمایا ، پھر لوگوں نے اختلاف کیا (آیت) ” ولو لا کلمۃ سبقت من ربک “ اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو تیرے رب کی طرف سے پہلے ہوچکی ہے (آیت) ” لقضی بینھم فیما فیہ یختلفون “ تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے ہیں یعنی ان کو فورا سزا دے دی جاتی ، مگر یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون امہال و تدریج کے مطابق سرکشوں کو بعض اوقات مہلت دیتا رہتا ہے اگر وہ اس دنیا میں بچ بھی جائیں تو اس کا مسلمہ قانون یہی ہے کہ قیامت کے دن ان کے درمیان ضرور فیصلہ کردیا جائے گا اور پھر وہ اپنے اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” قد تبین الرشد من الغی “ ہدایت اور گمراہی کو واضح کردیا ہے۔ مگر جو لوگ حق کو چھور کر گمراہی میں پھنس گئے ہیں۔ ظلم وزیاتی کے مرتکب ہوئے ہیں ، ان کا قطعی فیصلہ قیامت کے دن لازما ہوجائے گا۔ معجزات کی فرمائش۔ فرمایا (آیت) ” ویقولون “ اور یہ لوگ کہتے ہیں (آیت) ” لولا انزل علیہ ایۃ من ربہ “ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے کوئی نشانی یا معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ مشرک کہتے تھے پہلے پیغمبر عصا ، ید بیضا ، احیائے موتی اور پتھر سے اونٹنی نکالنے والے معجزات لے کر آئے مگر آخری پیغمبر پر ایسی کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوئی ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فقل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے (آیت) ” انما الغیب للہ ‘ ‘ غیب کی بات تو اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ تو اسی کے علم میں ہے کہ کون سی نشانی کب ظاہر ہوگی۔ کسی نبی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش کرسکے کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے (آیت) ” وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ “ (الرعد) کوئی رسول اپنی مرضی سے کوئی معجزہ پیش نہیں کرسکتا مگر جب اللہ چاہیے گویا نبی کا معجزہ اور ولی کی کرامت اللہ کا فعل ہوتا ہے۔ یہ چیز کسی بندے کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اسے صرف اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ معجزہ طلب کرنا عنادی لوگوں کا کام ہے ، وگرنہ حقیقت یہ ہے ہ جتنے معجزات حضور ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے ہیں ، اتنے کسی دوسرے نبی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ آپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن پاک ہے۔ یہ ایسی بےمثال کتاب ہے جس کا مقابلہ کرنے سے ساری انسانیت عاجز ہے۔ یہ ایک دائمی معجزہ ہے۔ ایمان لانے والے لوگ معجزے طلب نہیں کرتے بلکہ وہ صداقت اور حقانیت کو فورا پہچان جاتے ہیں ایسے مطالبات تو عنادی لوگ کرتے ہیں۔ مکہ کے مشرکین مطالب کرتے تھے کہ مکہ کی پہاڑیاں سونے کے بن جائیں۔ یہاں دریا بہنے لگیں اور کھیتی باڑی ہونے لگے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے ہمارے سامنے کتاب لے کر آئیں تو پھر ہم ایمان لائیں گے کبھی کہتے اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے یا جس قیامت سے ہمیں ڈراتا ہے اس کو برپا کر دے۔ مگر ہر فرمائش کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کی مصلھت کے خلاف ہے وہ جب چاہتا ہے اپنی مصلحت کے مطابق کوئی نشانی ظاہر کردیتا ہے۔ مکہ والوں نے چاند کا معجزہ طلب کردیا تو اللہ کے حکم سے حضور ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا تو وہ دو ٹکڑے ہو کر ایک ٹکڑا پہاڑ کی اس طرف نظر آیا اور دوسرا دوسری طرف تھا۔ ابو جہل چونکہ عنادی تھا ، وہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لایا کہنے لگا (آیت) ” سحر مستمر “ (القمر) یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ پہلے لوگ بھی جادو کرتے تھے ، آج محمد نے بھی جادو کردیا (العیاذ باللہ) ۔ فرمایا اگر تم نشانیاں دیکھنے پر ہی بضد ہو (آیت) ” فانتطروا “ تو انتظار کرو (آیت) ” انی معکم من المنتظرین “ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ دیکھیں کب نشانی آتی ہے اور تمہارے کفر اور شرک کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ پھر جان لیان کہ کس کے حصے میں ہدایت ہے اور کون لوگ گمراہی پر مرتا ہے ؟ کس کو ترقی ملتی ہے اور کون تنزل میں جاتا ہے ؟ تم بھی انتظار کرو میں بھی خدا کے حکم کا انتظار کرتا ہوں۔
Top