Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور وحی کی تیرے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کی طرف کہ بناؤ پہاڑوں میں گھر اور درختوں پر اور ان جگہوں پر جو چھپر باندھتے ہیں لوگ ۔
(ربط آیات) شرک اور مشرکین کے رد کے بعد اللہ تعالیٰ نے توحید اور قیامت کے متعلق دلائل بیان فرمائے ، ان میں سے پہلے آسمان سے پانی نازل کرنے کا ذکر ہوا ، پھر مویشیوں ، انگوروں اور کھجوروں کا تذکرہ ہوا ، ان کے فوائد بیان کرکے اللہ نے انہیں بطور دلیل ذکر کیا کہ ان چیزوں میں غور وفکر کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی قدرت اور حکمت کو سمجھ سکتے ہیں اب اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کیسا کمال رکھا ہے جو انسان کے لیے نہایت لذیز اور مشفی مشروب مہیا کرتی ہیں اس سورة کا نام سورة النحل اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں نحل یعنی شہد کی مکھیوں کا ذکر ہے ۔ (مکھیوں کی طرف وحی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واوحی ربک الی النحل “ اور وحی کی آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کی طرف ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس وحی سے مراد رسالت اور نبوت والی وحی نہیں ہے کیونکہ وہ تو انبیاء اور رسولوں کے ساتھ مختص ہے البتہ اس وحی سے الہام مراد لیا جاسکتا ہے کیونکہ الہام عام ہے جو انبیاء اور غیر انبیاء سب کو ہو سکتا ہے ، اس الہام کی نوعیت باکل وہی ہے جس قسم کا الہام اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف کیا تھا ، وہاں بھی یہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں (آیت) ” واوحینا الی ام موسیٰ “۔ (القصص) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف الہام کیا یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس بچے کی جان کی خاطر اسے صندوق میں بند کرکے پانی میں بہا دیں ، ظاہر ہے کہ ام موسیٰ نبی تو نہیں تھیں ، لہذا ان کی وحی کی نوعیت بھی الہام والی تھی ، الہام کے ذریعے بعض اوقات اللہ تعالیٰ کوئی چیز دل میں ڈال دیتا ہے اور بعض اوقات کوئی فرشتہ انسانی صورت میں متشکل ہو کر آتا ہے اور کوئی بات کہہ دیتا ہے ، چناچہ حضرت مریم (علیہما السلام) کا الہام اسی نوعیت کا تھا (آیت) ” فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا “۔ (مریم) ہم نے اس کی طرف فرشتہ بھیجا جو اس کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل بن گیا ، الہام کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی غیبی آواز (ہاتف) کے ذریعے کوئی اشارہ مل جائے ، تاہم شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں یا ایسے ہی دوسرے جانوروں کے الہام کی صورت یہ ہے کہ ان کے ہاں خارجی دنیا سے کوئی فرشتہ نہیں آتا اور نہ ہی وہ اتنے عقل و شعور کے مالک ہوتے ہیں کہ بوقت ضرورت ان کے ذہن میں کوئی چیز ڈال دی جائے بلکہ ان کی طرف وحی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں کوئی چیز ڈال دی ہے جس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ ان کو صورت نوعیہ کے اعتبار سے کوئی بات سمجھا دیتا ہے ، تو گویا شہد کی مکھیوں کی طرف وحی کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے ان کی طبیعت اور مزاج میں یہ بات ڈال دی ہے جس کا ذکر اگلے جملے میں آرہا ہے ۔ (مکھیوں کا چھتہ) وہ بات یہ ہے (آیت) ” ان اتخذی من الجبال بیوتا “۔ کہ تم پہاڑوں میں اپنا گھر یعنی چھتہ بنا لو ، ” من “ سے مراد یہ ہے کہ ہر پہاڑ کی ہر غار میں نہیں بلکہ بعض پہاڑوں میں اپنا چھتہ قائم کرلو ، یہی چھتہ شہد کی مکھیوں کا گھر ہے جہاں ہو شہد کا ذخیرہ جمع کرتی ہیں جس میں سے خود بھی کھاتی ہیں اور بچوں کو بھی کھلاتی ہیں ، یہ گویا شہد کا ڈپو ہوتا ہے ، پھر جب قرب و جوار کے لوگوں کو کسی ایسے چھتے کا علم ہوجاتا ہے تو پھر وہاں سے سیروں نہیں بلکہ منوں کے حساب سے شہد برآمد ہوتا ہے ۔ فرمایا پہاڑوں میں اپنا گھر بنا لو (آیت) ” ومن الشجر “ یا مناسب درختوں پر چھتہ لگا لو ، بعض بڑے بڑے درختوں پر مکھیاں چھتہ بنا کر شہد اکھٹا کرتی ہیں ، وہ اپنی فطرت کے مطابق جہاں مناسب سمجھتی ہیں ، کسی اونچی یا نیچی شاخ پر گھر بنا لیتی ہیں ، اس کے علاوہ فرمایا (آیت) ” ومما یعرشون “۔ اور لوگوں کے تعمیر کردہ چھپروں میں چھتہ لگا لو ، چھپر سے مراد لکڑی کا وہ فریم ہے جو انگور وغیرہ کی بیل چڑھانے کے لیے کھڑ کیا جاتا ہے ، بعض اوقات کسی دیگر ضرورت کے لیے بھی عارضی طور پر چھپر تعمیر کیا جاتا ہے اور شہد کی مکھیاں ان جگہوں پر بھی اپنے چھتے بنا لیتی ہیں ، الغرض ! اللہ نے شہد کی مکھیوں کی فطرت میں یہ بات ڈال رکھی ہے کہ وہ پہاڑوں میں درختوں پر یا چھپروں کے اندر اپنا چھتہ تعمیر کرلیں ۔ (پھلوں سے استفادہ) دوسری بات اللہ نے مکھیوں کی فطرت میں یہ ڈال دی (آیت) ” ثم کلی من کل الثمرت “۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھاؤ اس سے مراد دنیا بھر کے تمام پھل نہیں بلکہ وہ پھل مراد ہیں جو شہد کی مکھیوں کے طبائع سے مطابقت رکھتے ہیں مثلا شہد کی مکھی اخروٹ یا بادام وغیرہ کا پھل توڑ کر تو نہیں کھا سکتی ، مگر وہ انگور ، کھجور ، ناشپاتی ، آم وغیرہ تو آسانی سے کھا سکتی ہے اور ” کل الثمرت “ سے ایسے ہی پھل مراد ہیں یہ بالکل اسی طرح کا طرز کلام ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ملکہ سبا کے متعلق فرمایا (آیت) ” واوتیت من کل شیئ “ کہ اس کو ہر چیز عطا کی گئی ، یہاں بھی ہر چیز سے دنیا بھر کی چھوٹی بڑی چیزیں نہیں بلکہ وہ چیزیں مراد ہیں جن کا تعلق امور ملکت سے ہو سکتا ہے مثلا فوج ‘ اسلحہ مال و دولت ، امیر وزیر ، کارندے وغیرہ ۔ یہاں پر اللہ نے شہد کی مکھیوں سے فرمایا کہ ہر قسم کے پھلوں میں سے کھاؤ (آیت) ” فاسلکی سبل ربک ذللا “ اور اپنے پروردگار کے ہموار کردہ راستوں پر چلتی رہو ۔ ذلل “ کا معنی آسان کرنا بھی آتا ہے مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی میں یہ خوبی ڈال دی ہے کہ وہ اپنے چھتے سے کتنی بھی دور چلی جائے ، یہ واپسی پر بھولتی نہیں کیونکہ اللہ نے اس کے لیے راستے ہموار اور آسان فرما دیے ہیں ، یہ آسانی کے ساتھ بغیر بھولے اپنے چھتے پر پہنچ جاتی ہے ، اب آگے اللہ نے مکھیوں کے ذریعہ شہد کی پیداوار کی وضاحت فرمائی ہے (آیت) ” یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ “۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے شہد سفیدی مائل بھی ہوتا ہے اور سرخی مائل بھی ، کبھی یہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے اور کبھی گلابی رنگ کا جس قسم کا ماحول اور جس قسم کی خوراک مکھیوں کو میسر آتی ہے اسی قسم کا شہد بھی ان کے پیٹوں سے برآمد ہوتا ہے ، اور پھر یہ شہد محض تفریح طبع کا سامان نہیں بلکہ (آیت) ” فیہ شفآء للناس “ اللہ نے اس میں لوگوں کے لیے شفا بھی رکھی ہے ، ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” علیکم بالشقائین العسل والقران “۔ یعنی شفا والی دو چیزوں کو لازم پکڑو ، ایک شہد ہے اور دوسری قرآن پاک سورة بنی اسرائیل میں موجود ہے (آیت) ” وننزل من القران ما ھو شفآء ورحمۃ للمؤمنین “۔ ہم نے قرآن پاک کو نازل فرمایا ہے جس میں مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ، مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم باطنی بیماریوں یعنی سینے کے تمام روگوں کفر ، شرک ، نفاق ، بدعقیدگی اور بداخلاقی کی شفا ہے جب کہ شہد میں اللہ نے ظاہری امراض کی شفا رکھی ہے ، شہد چونکہ گرم تاثیر رکھتا ہے ، اس لیے یہ امراض باردہ یعنی بلغمی بیماریوں میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے ، ایک لحاظ سے یہ زہر کا تریاق (ANTISEPTIC انٹی بائیٹک) بھی ہے یونانی طب میں معجونوں اور گولیوں کی افادیت کو تادیر قائم رکھنے کے لیے شہد میں تیار کیا جاتا ہے ، جب کہ نئی میڈیکل سائنس میں اس کام کے لیے سپرٹ کا استعمال ہوتا ہے تاہم مفسرین فرماتے ہیں کہ شہد میں ہر بیماری کے لیے شفا نہیں بلکہ یہ شفاء نکرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کئی بیماریوں کے لیے شفا ہے ۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں ” علیکم بالسنا والسنوت “ یعنی سنا اور سنوت کو لازم پکڑو ، سنا ایک قسم کی جڑی بوٹی ہے میں اللہ نے کئی بیماریوں کی شفا رکھی ہے اور سنوت سویا یا شہد کو کہتے ہیں فرمایا اس میں شفا ہے لیکن موت کی شفا کسی چیز میں نہیں وہ اپنے وقت پر آکر رہے گی ۔ ایک صحیح حدیث میں یہ واقعہ بھی آتا ہے کہ کسی شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے بھائی کے اسہال کی شکایت کی ، آپ نے فرمایا ، اس کو شہد پلاؤ اس شخص نے جا کر ایسا ہی کیا مگر مرض بڑھ گیا وہ پھر حاضر ہوا تو آپ نے دوبارہ فرمایا کہ اسے شہد پلاؤ ، دوبارہ پلانے سے اسہال میں مزید اضافہ ہوگیا ، جب حضور ﷺ کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ نے تیسری مرتبہ شہد پلانے کے لیے کہا مگر پھر بھی افاقہ نہ ہوا ، جب وہ شخص چوتھی مرتبہ حاضر خدمت ہوا ، تو آپ نے فرمایا ، اللہ کا فرمان سچا ہے کہ شہد میں شفا ہے ، مگر تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، بہرحال جب مریض کی چوتھی مرتبہ شہد پلایا گیا تو وہ ٹھیک ہوگیا جب تک گندہ مادہ پیٹ میں موجود رہا ، وہ نکلتا رہا اور جب ختم ہوگیا تو مریض کے اسہال بند ہوگئے ، اللہ نے شہد میں اس قسم کے مادے رکھے ہیں ۔ حضرت علی ؓ کے قول میں یوں بھی آتا ہے کہ کسی شخص نے بیماری کی شکایت کی تو فرمایا کہ کسی برتن میں قرآن کریم کی کوئی آیت لکھو پھر اس کو بارش کے پانی سے صاف کرو ، اس کے بعد اپنی بیوی کے حق میں مہر میں سے ایک درہم لو جب وہ اپنی خوشی خاطر سے دے دے تو اس درہم سے شہد خریدو پھر وہ شہد بارش کے مذکورہ پانی میں ملا کر پی لو اللہ تعالیٰ شفا دے گا ، اللہ نے بارش کے پانی کو (آیت) ” مآء طھورا “ یعنی پاکیزہ پانی فرمایا ہے اور شہد کے متعلق کہا ہے کہ اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے تو حضرت علی ؓ نے ان دونوں چیزوں کے مرکب کو استعمال کرنے کی ہدایت کی ۔ (شہد کی پیداوار) شہد کی پیداوار کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ یہ مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کے مشروف کی صورت میں نکلتی ہے باقی رہی یہ بات کہ شہد کی پیداوار کیسے ہوتی ہے ، اس میں سائنسدانوں کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ لعاب کی شکل میں مکھی کے منہ سے نکلتا ہے ، اس کی مثال ریشم کے کیڑے کی ہے وہ بھی اپنے لعاب کے ذریعے ریشم پیدا کرتا ہے ، وہ اپنے منہ سے نکلنے والا مادہ اپنے گرد لیپٹتا رہتا ہے اور اس طرح ریشم کے لمبے تار کی ایک ڈوری سی بن جاتی ہے جسے بعد میں الگ کر کے ریشم حاصل کرلیا جاتا ہے اور اس سے نفیس ترین لباس تیار کیا جاتا ہے اسی طرح مکھی کے منہ سے نکلنے والے لعاب سے شہد کی صورت میں بہترین مشروب حاصل ہوتا ہے ، البتہ بعض فرماتے ہیں کہ شہد مکھی کے منہ کا لعاب نہیں بلکہ اس کا فضلہ ہوتا ہے ، افلاطون کا شاگرد اور سکندر کا استاد ارسطو یونان کا بہت بڑا حکیم گزرا ہے اس کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سو سال قبل کا ہے اس نے ایک دفعہ تحقیق کرنے کی کوشش کی کہ شہد مکھی کا لعاب ہے یا فضلہ اس نے شیشے کا ایک بہت بڑا بکس بنوای اور اس میں مکھیوں کا چھتہ لگا کر مکھیوں کو شیشے کے صندوق میں بند کردیا تاکہ دیکھوں کہ شہد کس طرح پیدا ہوتا ہے کہتے ہیں کہ مکھیوں نے شہد پیدا کرنے پہلے شیشے کے اس صندوق کی ساری دیواروں پر موم لگا دی تاکہ باہر سے کچھ نظر نہ آسکے اور اس کے بعد انہوں نے شہد کی پیداوار شروع کی ، اور اس طرح ارسطو اپنی تحقیق مکمل نہ کرسکا ۔ شہد کی مکھی میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ یہ اپنے چھتے میں عجیب و غریب قسم کے چھوٹے چھوٹے شش گوشہ گھروندے یا خانے بناتی ہے ، لطف کی بات یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا انجینئر بھی ٹھیک ٹھیک شش گوشہ شکل جیومیٹری بکس کے بغیر نہیں بنا سکتا مگر مکھی کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ باریک باریک دیواروں پر چھ کونے والا ایسا گھروندا بناتی ہے کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ، بہرحال شہد ایک پاکیزہ اور مرغوب چیز ہے جو انسانوں کی غذا اور دوائی میں استعمال ہوتی ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے (آیت) ” کان رسول اللہ ﷺ یحب الحلوآء والعسل “۔ یعنی حضور ﷺ میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے ۔ (مکھیوں کی فضیلت) شہد کی مکھی اگرچہ ایک چھوٹا سا جانور ہے مگر اللہ نے اس میں بڑی افادیت رکھی ہے ، اللہ نے اسے زہریلا ڈنگ عطا کیا ہے ، جس کے ذریعے وہ دشمن سے اپنی حفاظت کرتی ہے ، مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ شہد کی مکھی ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر اللہ نے انسانون کے فائدے کے لیے اس کے ذریعے لذیز ترین چیز پیدا فرمائی ہے ، اس سے مولانا یہ دلیل قائم کرتے ہیں کہ کسی ادنی سے ادنی چیز کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے ۔ ” رب اغبر اشعث لو اقسم علی اللہ لا برہ “۔ یعنی غبار آلود بالوں والے کتنے آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ قسم اٹھائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں حانث نہیں ہونے دیتا یعنی ان کی قسم پوری ہوجاتی ہے ، بعض روایات میں آتا ہے کہ دوزخیوں کو سزا دینے کے لیے موذی جانور سانپ ، بچھو ، مکھی وغیرہ دوزخ میں جائیں گے سوائے شہد کی مکھی کے کہ یہ دوزخ میں نہیں جائیں گی کیونکہ یہ لوگوں کے لیے نہایت ہی مفید شہد تیار کرتی ہے ۔ (مکھیوں کی تنظیم) اس چھوٹی سی مخلوق میں اللہ تعالیٰ نے تنظیم کا وہ مادہ رکھا ہے جو انسانوں کے لیے بھی درست عبرت ہے شہد کی مکھیوں کے بادشاہ کو یعسوب کہا جاتا ہے جو عام مکھیوں سے قدوکاٹھ میں بڑا ہوتا ہے ان مکھیوں میں اتنا نظم وضبط (DISCIPLINE ڈسپلن) ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ کے حکم کی ذرہ بھر بھی خلاف ورزی نہیں کرتیں ، یہ فوج کی طرح منظم ہوتی ہیں اور ان کا بادشاہ جہاں جانے کا حکم دے وہاں پہنچ کر خوراک حاصل کرتی ہیں اور جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ، اللہ نے ان کے لیے راستوں کو آسان بنا دیا ہے ، یہ دور ونزدیک جہاں بھی جائیں اپنے ڈپو پر واپس آجاتی ہیں ، اس مکھی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ گندگی پر نہیں بیٹھتی ، اگر کوئی مکھی کسی دوسری مکھی کو گندگھی پر بیٹھی دیکھ لے تو فورا بادشاہ کے پاس شکایت ہوجاتی ہے اس کا باقاعدہ کیس پیش ہوتا ہے گواہی ہوتی ہے اور اگر جرم ثابت ہوجائے تو مجرمہ کو سزائے موت تک ہوجاتی ہے ، بادشاہ کی طرف سے اشارہ پا کر دوسری مکھیاں مجرمہ کو پکڑ کر دو ٹکڑے کردیتی ہیں ۔ (غور وفکر کا مقام) آخر میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایۃ لقوم یتفکرون “۔ بیشک اس میں البتہ نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں ، سوچنے کی بات ہے کہ ایک معمولی مکھی سے اللہ نے کتنی عمدہ چیز پیدا فرمائی ہے ، ان مکھیوں میں کتنی تنظیم اور فرمانبرداری کا کتنا جذبہ موجود ہے ، وہ مقررہ اصولوں کی کس قدر پابندی کرتی ہے صرف پاک چیزیں کھاتی ہیں اور گندگی کے قریب بھی نہیں جاتیں ، وہ اپنا گھروندا کمال حکمت کے ساتھ بناتی ہیں جو صناعی کا بہترین شاہکار ہوتا ہے ، یہ ساری چیزیں بنی نوع انسان کو دعوت غور فکر دیتی ہیں اور انہیں بھی قوانین کی پابندی کا درس دیتی ہیں ، اگر انسان مکھیوں کی طرح اپنے اصولوں پر قائم ہوجائیں تو ان کی معاشرتی زندگی میں کبھی بگاڑ پیدا نہ ہو ، اس وقت انسان جس ظلم ، زیادتی ، اسراف حرام کاری ، بدکاری ، عیاشی اور فحاشی میں مبتلا ہیں ، اس سے نکل جائیں اور انہیں آرام و سکون کی زندگی میسر آجائے ، بہرحال شہد کی مکھیوں کے ہر فعل میں انسان کے لیے عبرت کا سامان ہے جو شخص غور وفکر کریگا وہ اللہ کی قدرت کو سمجھ جائے گا اور اس کی وحدانیت پر ایمان لے آئے گا ۔
Top