Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ
: پھر اسے حمل رہ گیا
فَانْتَبَذَتْ
: پس وہ چلی گئی
بِهٖ
: اسے لیکر
مَكَانًا
: ایک جگہ
قَصِيًّا
: دور
پس حاملہ ہوئی وہ (مریم ؓ) اس بچے کے ساتھ ، پھر اس کو لے کر چلی گئی ایک دور مکان میں ۔
ربط آیات : پہلے حضرت مریم (علیہ السلام) کی ولادت کا ذکر ہوا ، پھر جب وہ جوان ہوگئیں ، تو اللہ کی طرف سے فرشتہ انسانی شکل میں متمثل ہو کر تنہائی میں ان کے سامنے آگیا ، حضرت مریم (علیہ السلام) کو بڑا استعجاب ہوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی پناہ طلب کی ، فرشتے نے کہا کہ میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور تجھے ایک بچہ عطا کرنا چاہتا ہوں ، اس پر حضرت مریم (علیہ السلام) کو مزید تعجب ہوا کہ نہ تو ان کا نکاح ہوا ہے اور نہ ہی مقاربت ، وہ بدکار بھی نہیں ہیں ، تو پھر بچہ کیسے ہوگا ، اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے کہا کہ بچہ پیدا کرنا تیرے پروردگار کے لیے نہایت آسان ہے ، وہ قادر مطلق ہے اور ہر چیز کام کرنے پر مکمل اختیار رکھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا چاہتا ہے یہ اس کی مہربانی سے ہوگا جو کہ فیصلہ شدہ امر ہے ۔ (استقرار حمل) اب آج کی ابتدائی آیت میں حضرت مریم (علیہ السلام) کے استقرار حمل کا ذکر ہے البتہ درمیان میں ایک چیز محذوف ہے جس کا ذکر سورة الانبیاء میں اللہ نے اس طرح کیا ہے ۔ (آیت) ” فنفخنا فیھا من روحنا “۔ (الانبیاء 91) ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی جس سے حمل قرار پا گیا یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قدرت تامہ کا ظہور تھا کہ محض پھونک مارنے سے ح مل ہوگیا ، یہاں پر اسی بات کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” فحملتہ “ پس حضرت مریم (علیہ السلام) حاملہ ہوگئیں ، اب حمل کی مدت کے متعلق مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے ، سات ، آٹھ ، یا نو ماہ کا حمل عام طور پر ہوتا ہے اور عام مفسرین اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) نے حمل کی مدت معمول کے مطابق پوری کی البتہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ حمل کی مدت معمول سے ہٹ کر تھی ، ان کی تحقیق کے مطابق نفخہ جبرائیلیہ سے حمل قرار پایا اس کے فورا بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کے پیٹ میں بچے کی تصویر بنائی اور چند گھنٹوں کے اندر اندر بچہ مکمل طور پر تیار ہو کر ولادت کے قابل ہوگیا امام جزری (رح) نے المثل السائر میں اس بات کو پوری یقین کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حمل قرار پانے کے بعد زیادہ عرصہ نہیں گزر تھا کہ زچگی کی حالت طاری ہوگئی اور ولادت کا وقت قریب آگیا ، اب حضرت مریم (علیہ السلام) کو طبعی طور پر پریشانی لاحق ہوئی ایسی حالت میں انہوں نے اپنی جائے قیام پر رہنا پسند نہ کیا ، لہذا وہ کسی دور مکان میں چلی گئیں ، تاکہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں ۔ (زچگی کی حالت) اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا (آیت) ” فانتبذت بہ مکانا قصیا “۔ حضرت مریم (علیہ السلام) بچے کو پیٹ میں اٹھائے کسی دور مکان میں چلی گئیں بعض فرماتے ہیں کہ آپ بیت اللحم میں چلی گئیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اسی مقام پر ہوئی تھی اور یہ جگہ بیت المقدس سے آٹھ میل کی مسافت پر ہے ، بعض فرماتے ہیں کہ اپنے مکان سے کہیں دور کسی جنگل یا پہاڑ میں چلی گئیں ، انہوں نے تنہائی کی جگہ تلاش کرلی جہاں کوئی مرد یا عورت نہیں تھی اسی حال میں (آیت) ” فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ “ درد زہ نے انہیں کھجور کے ایک تنے کی طرف جانے پر مجبور کردیا ، مخض دراصل پیٹ میں بچے کی حرکت کو کہتے ہیں جب وہ ولادت کے قریب ہوتا ہے ظاہر ہے کہ یہ عورت کے لیے اضطراری حالت ہوتی ہے اور اس حالت میں بعض اوقات عورت اپنے ہاتھوں یا پیشانی کے ساتھ کسی جگہ سے ٹیک لگاتی ہے کیونکہ بچے کی پیدائش کے وقت زور لگتا ہے ، اسی وقت عورت کو بڑی تکلیف ہوتی ہے جسے بعض عورتیں برداشت نہ کرکے موت کے منہ میں بھی چلی جاتی ہیں اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ زچگی کی حالت میں وفات پانے والی ایماندار عورت شہادت کا درجہ پائیگی ، بہرحال دردزہ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو مجبور کیا اور وہ خشک کھجور کے ایک تنے کے پاس چلی گئیں ، آپ پر سخت اضطراری حالت تھی اور اسی حالت میں آپ نے کہا (آیت) ” قالت یلیتنی مت قبل ھذا “ ۔ کاش کہ یہ معاملہ پیش آنے سے پہلے میں مر چکی ہوتی ، (آیت) ” وکنت نسیا منسیا “۔ اور میں بھولی بسری ہوجاتی یعنی میرا نام ونشان تک باقی نہ ہوتا ۔ (موت کی تمنا) حضرت مریم (علیہ السلام) کی طرف سے یہ موت کی تمنا تھی جو کہ عام حالات میں جائز نہیں ہے ، اس ضمن میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ دنیاوی غم کی وجہ سے اضطراری حالت میں ایسی بات زبان سے نکل جانا عیب کی بات نہیں ہے ، تاہم حضرت مریم (علیہ السلام) کے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگیا ، حضرت مریم (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ وہ لوگوں کی طعنہ زنی پر صبر نہیں کرسکیں گی ، اور بےصبری بجائے خود ایک مصیبت ہے لہذا اس مصیبت درمصیبت سے بہتر ہے کہ اسے موت ہی آجائے کیونکہ موت واقع ہونے سے بظاہر ہر قسم کی تکالیف ختم ہوجاتی ہے ، اور انسان کسی بات کا مکلف نہیں رہتا ، امام ابوبکر جصاص (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اپنی تکلیف کا احساس نہیں تھا اور نہ وہ اس وجہ سے موت مانگ رہی تھیں ، انہیں تو خدا تعالیٰ کا پیغام فرشتے کے ذریعے پہنچ چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس طریقے سے بیٹا عطا کرنا چاہتا ہے لہذا وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر پر راضی تھیں اور وہ سمجھتی تھیں کہ انکامعاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ٹھیک ہے البتہ انہیں فکر اس بات کی تھی کہ لوگ ان پر بلاوجہ طعنی زنی کرکے گناہ میں مبتلا ہوں گے اور آپ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ لوگوں کے لیے گناہ کا باعث بنیں ، اس بات کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ملتی ہے انہوں نے بتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تھی (آیت) ” رب انھن اضللن کثیرا من الناس “ اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے حالانکہ بت تو بےجان ڈھانچے تھے ، وہ بھلا کسی کو کیا گمراہ کرتے ، دراصل لوگ خود بتوں کی پوجا کر کے اور ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر گمراہی میں پڑتے تھے ، تاہم اس گمراہی کا سبب تو یہی بت تھے اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا (آیت) ” واجنبی وبنی ان نعبد الاصنام “۔ (ابراہیم ، 35) اے اللہ ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پوجا سے محفوظ رکھ ، بہرحال مقصد یہ ہے کہ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو گمراہی کا سبب قرار دیا ، اسی طرح حضرت مریم (علیہ السلام) نے بلانکاح بچے کی پیدائش کو لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے پر محمول کیا اور اس واسطے موت کی تمنا کی تاکہ گناہ میں آلودگی کا سبب ہی ختم ہوجائے ۔ (حضرت مریم (علیہ السلام) کے لیے تسلی) حضرت مریم (علیہ السلام) کی اس پریشانی کے عالم میں (آیت) ” فنادھامن تحتھا “۔ پس پکارا اس کو نیچے کی جانب سے بعض فرماتے ہیں کہ پکارنے والا وہی فرشتہ تھا جس نے پہلے بچے کی ولادت کی خوشخبری سنائی تھی مگر اب زچگی کی حالت میں وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے سامنے نہیں آیا تھا ، بلکہ نیچے اوٹ میں رہ کر اس نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو آواز دی (آیت) ” الا تخزنی “۔ کہ اے مریم ، غمگین نہ ہو ، زچگی کی اس حالت میں تمہیں پریشانی ضرور ہے ایسے موقع پر عورتیں پاس ہوتی ہیں جو ضرورت کی اشیاء مہیا کرتی ہیں اور زچہ کی ڈھارس بندھاتی ہیں مگر تو یہاں بالکل اکیلی ہے ، اس لیے تشویش پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اس تکلیف دہ وقت میں تمہارے پاس خورد ونوش کا بھی کوئی سامان نہیں ہے ، لہذا تمہاری تکلیف بجا ہے مگر تسلی رکھو اور خوف نہ کھاؤ ، جس خدا تعالیٰ نے تمہیں بغیر شادی کے بچہ عطا کیا ہے وہ تمہاری دیگر ضروریات کا بھی ضرور انتظام کریگا لہذا پریشانی کی بات اپنے ذہن سے نکال دو اور غم نہ کھاؤ بعض فرماتے ہیں کہ آواز دینے والا فرشتہ نہیں بلکہ گود سے نیچے اللہ نے خود مسیح (علیہ السلام) کو بلوا کر تسلی کا سامان پیدا کردیا تھا ۔ (خوردونوش کا سامان) فرمایا غم نہ کھاؤ (آیت) ” قد جعل ربک تحتک سریا “۔ تحقیق تیرے پروردگار نے نیچے ایک چشمہ بنا دیا ہے اس مقام پر بظاہر پانی نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے قریب ہی ایک خصوصی چشمہ جاری کردیا تاکہ وہ پانی کی ضروریات وہاں سے پوری کرسکیں ، بعض فرماتے ہیں کہ ” تحتھا “ میں ھا کی ضمیرکھجور کی طرف لوٹتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ فرشتے نے کھجور کی نچلی طرف سے آواز دی کہ اللہ نے چشمہ جاری کر کے پانی کا انتظام کردیا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ سریا کا لفظ چشمہ کے لیے بھی آتا ہے اور سردار کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اگر یہ معنی لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پیٹ سے ایک سردار یعنی مسیح (علیہ السلام) کو نکالا ہے لہذا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تاہم اس مقام پر چونکہ سامان خورد ونوش کی ضرورت تھی اس لیے سریا کا معنی چشمہ ہی زیادہ مناسب حال ہے ۔ پھر فرشتے نے یہ بھی آواز دی (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ “۔ اور اپنی طرح کھجور کے اس تنے کو ہلاؤ اس کا فائدہ یہ ہوگا (آیت) ” تسقط علیک رطبا جن یا “۔ ‘ تمہاری طرف تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گریں گی جن یا اس پھل کو کہتے ہیں جو پک کر برداشت کے قابل ہوجاتا ہے تو فرشتے نے کہا کہ ذرا اس کھجور کے تنے کو ہلاؤ ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری خوراک کا بندوبست کردیا ہے ، کھجوریں خود بخود تمہارے پاس آکر گریں گی ، اللہ تعالیٰ نے کھجور جیسی خوش ذائقہ اور مقوی جسم بہترین غذا بھی مہیا فرما دی ۔ (حرکت میں برکت) اس مقام پر قابل غور یہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کے تنے کو ہلانے کا حکم کیوں دیا ؟ حالانکہ جو پروردگار معجزانہ طور پر پانی کا چشمہ جاری کرسکتا تھا وہ کھجوریں بھی خود بخود حضرت مریم (علیہ السلام) کے قریب اتار سکتا تھا مگر ہلانے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھائی کہ حرکت میں برکت ہے تم تھوڑی سی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری خوردنی ضروریات پوری کردے گا اس سے یہ قانون بھی سمجھایا گیا ہے کہ کسی آدمی کو بیکار نہیں رہنا چاہئے بلکہ گزر اوقات کے لیے حتی المقدور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئے عالم اسباب میں بیکار محض بیٹھ رہنا درست نہیں ہے ۔ فرمایا تنے کو ہلانے سے کھجوریں گریں گی (آیت) ” فکلی “۔ ان کو کھاؤ (آیت) ” واشربی “۔ اور اس چشمے کا پانی پیو تاکہ تمہاری جسمانی قوت بحال ہو نیز (آیت) ” وقری عینا “۔ اس بچے کو دیکھ کر محبت سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کرو ، تمہیں خوش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ سے کمال درجے کا بچہ عطا کیا ہے جو بےمثال اور خدا کا نبی اور رسول ہے ۔ (چپ کا روزہ) آگے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو طعن وتشنیع سے بچنے کی ایک ترکیب بھی بتائی (آیت) ” واما ترین من البشراحدا “۔ اگر تم آدمیوں میں سے کسی کو دیکھو تو اس سے کوئی بات نہ کرنا (آیت) ” فقولی “ بلکہ یوں کہنا (آیت) ” انی نذرت للرحمن صوما “۔ کہ میں نے خدائے رحمان کے لیے چپ کا روزہ رکھنے کی نذر مانی ہوئی ہے (آیت) ” اکلم الیوم انسیا “۔ لہذا آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی ، مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر روزے کی نذر ماننے کا تو ذکر موجود ہے مگر بذات خود روزے کی نیت کا تذکرہ نہیں ہے ، اس کا جواب یہ فرماتے ہیں کہ نذر ماننے کے حکم میں روزے کی نیت کرنے کا حکم بھی شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے مریم (علیہ السلام) ! تم چپ کے روزے کی نیت کرلو ، اور پھر کہہ دنیا کہ میں آج کسی سے بات نہیں کروں گی کیوں میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے صبح سے شام تک یہ روزہ رکھنا ، پھر زچگی کی تکلیف کسی حد تک رفع ہو جائیگی جس میں قوت آئے گی تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔ چپ کا روزہ پرانی شریعت میں جائز تھا مگر جیسا کہ ابوداؤد شریف مسند امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض دوسری کتب حدیث میں یہ حدیث موجود ہے ، ہماری شریعت میں چپ کا روزہ روا نہیں ہے ، اسی طرح صوم وصال یعنی مسلسل کئی کئی دن کا روزہ بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں بلکہ ہر روزے کے لیے سحری اور افطاری ضروری ہے ، ابو داؤد شریف کی روایت میں یہ بھی ہے ” لایتم بعد بلوغ “ یعنی بالغ ہوجانے کے بعد یتیمی کا حکم باقی نہیں رہتا ، اسی طرح ہماری شریعت میں چپ کا روزہ بھی جائز نہیں ہے ۔
Top