Mualim-ul-Irfan - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ : پھر اسے حمل رہ گیا فَانْتَبَذَتْ : پس وہ چلی گئی بِهٖ : اسے لیکر مَكَانًا : ایک جگہ قَصِيًّا : دور
پس حاملہ ہوئی وہ (مریم ؓ) اس بچے کے ساتھ ، پھر اس کو لے کر چلی گئی ایک دور مکان میں ۔
ربط آیات : پہلے حضرت مریم (علیہ السلام) کی ولادت کا ذکر ہوا ، پھر جب وہ جوان ہوگئیں ، تو اللہ کی طرف سے فرشتہ انسانی شکل میں متمثل ہو کر تنہائی میں ان کے سامنے آگیا ، حضرت مریم (علیہ السلام) کو بڑا استعجاب ہوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی پناہ طلب کی ، فرشتے نے کہا کہ میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور تجھے ایک بچہ عطا کرنا چاہتا ہوں ، اس پر حضرت مریم (علیہ السلام) کو مزید تعجب ہوا کہ نہ تو ان کا نکاح ہوا ہے اور نہ ہی مقاربت ، وہ بدکار بھی نہیں ہیں ، تو پھر بچہ کیسے ہوگا ، اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے کہا کہ بچہ پیدا کرنا تیرے پروردگار کے لیے نہایت آسان ہے ، وہ قادر مطلق ہے اور ہر چیز کام کرنے پر مکمل اختیار رکھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا چاہتا ہے یہ اس کی مہربانی سے ہوگا جو کہ فیصلہ شدہ امر ہے ۔ (استقرار حمل) اب آج کی ابتدائی آیت میں حضرت مریم (علیہ السلام) کے استقرار حمل کا ذکر ہے البتہ درمیان میں ایک چیز محذوف ہے جس کا ذکر سورة الانبیاء میں اللہ نے اس طرح کیا ہے ۔ (آیت) ” فنفخنا فیھا من روحنا “۔ (الانبیاء 91) ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی جس سے حمل قرار پا گیا یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قدرت تامہ کا ظہور تھا کہ محض پھونک مارنے سے ح مل ہوگیا ، یہاں پر اسی بات کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” فحملتہ “ پس حضرت مریم (علیہ السلام) حاملہ ہوگئیں ، اب حمل کی مدت کے متعلق مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے ، سات ، آٹھ ، یا نو ماہ کا حمل عام طور پر ہوتا ہے اور عام مفسرین اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) نے حمل کی مدت معمول کے مطابق پوری کی البتہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ حمل کی مدت معمول سے ہٹ کر تھی ، ان کی تحقیق کے مطابق نفخہ جبرائیلیہ سے حمل قرار پایا اس کے فورا بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کے پیٹ میں بچے کی تصویر بنائی اور چند گھنٹوں کے اندر اندر بچہ مکمل طور پر تیار ہو کر ولادت کے قابل ہوگیا امام جزری (رح) نے المثل السائر میں اس بات کو پوری یقین کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حمل قرار پانے کے بعد زیادہ عرصہ نہیں گزر تھا کہ زچگی کی حالت طاری ہوگئی اور ولادت کا وقت قریب آگیا ، اب حضرت مریم (علیہ السلام) کو طبعی طور پر پریشانی لاحق ہوئی ایسی حالت میں انہوں نے اپنی جائے قیام پر رہنا پسند نہ کیا ، لہذا وہ کسی دور مکان میں چلی گئیں ، تاکہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں ۔ (زچگی کی حالت) اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا (آیت) ” فانتبذت بہ مکانا قصیا “۔ حضرت مریم (علیہ السلام) بچے کو پیٹ میں اٹھائے کسی دور مکان میں چلی گئیں بعض فرماتے ہیں کہ آپ بیت اللحم میں چلی گئیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اسی مقام پر ہوئی تھی اور یہ جگہ بیت المقدس سے آٹھ میل کی مسافت پر ہے ، بعض فرماتے ہیں کہ اپنے مکان سے کہیں دور کسی جنگل یا پہاڑ میں چلی گئیں ، انہوں نے تنہائی کی جگہ تلاش کرلی جہاں کوئی مرد یا عورت نہیں تھی اسی حال میں (آیت) ” فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ “ درد زہ نے انہیں کھجور کے ایک تنے کی طرف جانے پر مجبور کردیا ، مخض دراصل پیٹ میں بچے کی حرکت کو کہتے ہیں جب وہ ولادت کے قریب ہوتا ہے ظاہر ہے کہ یہ عورت کے لیے اضطراری حالت ہوتی ہے اور اس حالت میں بعض اوقات عورت اپنے ہاتھوں یا پیشانی کے ساتھ کسی جگہ سے ٹیک لگاتی ہے کیونکہ بچے کی پیدائش کے وقت زور لگتا ہے ، اسی وقت عورت کو بڑی تکلیف ہوتی ہے جسے بعض عورتیں برداشت نہ کرکے موت کے منہ میں بھی چلی جاتی ہیں اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ زچگی کی حالت میں وفات پانے والی ایماندار عورت شہادت کا درجہ پائیگی ، بہرحال دردزہ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو مجبور کیا اور وہ خشک کھجور کے ایک تنے کے پاس چلی گئیں ، آپ پر سخت اضطراری حالت تھی اور اسی حالت میں آپ نے کہا (آیت) ” قالت یلیتنی مت قبل ھذا “ ۔ کاش کہ یہ معاملہ پیش آنے سے پہلے میں مر چکی ہوتی ، (آیت) ” وکنت نسیا منسیا “۔ اور میں بھولی بسری ہوجاتی یعنی میرا نام ونشان تک باقی نہ ہوتا ۔ (موت کی تمنا) حضرت مریم (علیہ السلام) کی طرف سے یہ موت کی تمنا تھی جو کہ عام حالات میں جائز نہیں ہے ، اس ضمن میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ دنیاوی غم کی وجہ سے اضطراری حالت میں ایسی بات زبان سے نکل جانا عیب کی بات نہیں ہے ، تاہم حضرت مریم (علیہ السلام) کے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگیا ، حضرت مریم (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ وہ لوگوں کی طعنہ زنی پر صبر نہیں کرسکیں گی ، اور بےصبری بجائے خود ایک مصیبت ہے لہذا اس مصیبت درمصیبت سے بہتر ہے کہ اسے موت ہی آجائے کیونکہ موت واقع ہونے سے بظاہر ہر قسم کی تکالیف ختم ہوجاتی ہے ، اور انسان کسی بات کا مکلف نہیں رہتا ، امام ابوبکر جصاص (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اپنی تکلیف کا احساس نہیں تھا اور نہ وہ اس وجہ سے موت مانگ رہی تھیں ، انہیں تو خدا تعالیٰ کا پیغام فرشتے کے ذریعے پہنچ چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس طریقے سے بیٹا عطا کرنا چاہتا ہے لہذا وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر پر راضی تھیں اور وہ سمجھتی تھیں کہ انکامعاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ٹھیک ہے البتہ انہیں فکر اس بات کی تھی کہ لوگ ان پر بلاوجہ طعنی زنی کرکے گناہ میں مبتلا ہوں گے اور آپ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ لوگوں کے لیے گناہ کا باعث بنیں ، اس بات کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ملتی ہے انہوں نے بتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تھی (آیت) ” رب انھن اضللن کثیرا من الناس “ اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے حالانکہ بت تو بےجان ڈھانچے تھے ، وہ بھلا کسی کو کیا گمراہ کرتے ، دراصل لوگ خود بتوں کی پوجا کر کے اور ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر گمراہی میں پڑتے تھے ، تاہم اس گمراہی کا سبب تو یہی بت تھے اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا (آیت) ” واجنبی وبنی ان نعبد الاصنام “۔ (ابراہیم ، 35) اے اللہ ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پوجا سے محفوظ رکھ ، بہرحال مقصد یہ ہے کہ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو گمراہی کا سبب قرار دیا ، اسی طرح حضرت مریم (علیہ السلام) نے بلانکاح بچے کی پیدائش کو لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے پر محمول کیا اور اس واسطے موت کی تمنا کی تاکہ گناہ میں آلودگی کا سبب ہی ختم ہوجائے ۔ (حضرت مریم (علیہ السلام) کے لیے تسلی) حضرت مریم (علیہ السلام) کی اس پریشانی کے عالم میں (آیت) ” فنادھامن تحتھا “۔ پس پکارا اس کو نیچے کی جانب سے بعض فرماتے ہیں کہ پکارنے والا وہی فرشتہ تھا جس نے پہلے بچے کی ولادت کی خوشخبری سنائی تھی مگر اب زچگی کی حالت میں وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے سامنے نہیں آیا تھا ، بلکہ نیچے اوٹ میں رہ کر اس نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو آواز دی (آیت) ” الا تخزنی “۔ کہ اے مریم ، غمگین نہ ہو ، زچگی کی اس حالت میں تمہیں پریشانی ضرور ہے ایسے موقع پر عورتیں پاس ہوتی ہیں جو ضرورت کی اشیاء مہیا کرتی ہیں اور زچہ کی ڈھارس بندھاتی ہیں مگر تو یہاں بالکل اکیلی ہے ، اس لیے تشویش پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اس تکلیف دہ وقت میں تمہارے پاس خورد ونوش کا بھی کوئی سامان نہیں ہے ، لہذا تمہاری تکلیف بجا ہے مگر تسلی رکھو اور خوف نہ کھاؤ ، جس خدا تعالیٰ نے تمہیں بغیر شادی کے بچہ عطا کیا ہے وہ تمہاری دیگر ضروریات کا بھی ضرور انتظام کریگا لہذا پریشانی کی بات اپنے ذہن سے نکال دو اور غم نہ کھاؤ بعض فرماتے ہیں کہ آواز دینے والا فرشتہ نہیں بلکہ گود سے نیچے اللہ نے خود مسیح (علیہ السلام) کو بلوا کر تسلی کا سامان پیدا کردیا تھا ۔ (خوردونوش کا سامان) فرمایا غم نہ کھاؤ (آیت) ” قد جعل ربک تحتک سریا “۔ تحقیق تیرے پروردگار نے نیچے ایک چشمہ بنا دیا ہے اس مقام پر بظاہر پانی نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے قریب ہی ایک خصوصی چشمہ جاری کردیا تاکہ وہ پانی کی ضروریات وہاں سے پوری کرسکیں ، بعض فرماتے ہیں کہ ” تحتھا “ میں ھا کی ضمیرکھجور کی طرف لوٹتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ فرشتے نے کھجور کی نچلی طرف سے آواز دی کہ اللہ نے چشمہ جاری کر کے پانی کا انتظام کردیا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ سریا کا لفظ چشمہ کے لیے بھی آتا ہے اور سردار کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اگر یہ معنی لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پیٹ سے ایک سردار یعنی مسیح (علیہ السلام) کو نکالا ہے لہذا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تاہم اس مقام پر چونکہ سامان خورد ونوش کی ضرورت تھی اس لیے سریا کا معنی چشمہ ہی زیادہ مناسب حال ہے ۔ پھر فرشتے نے یہ بھی آواز دی (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ “۔ اور اپنی طرح کھجور کے اس تنے کو ہلاؤ اس کا فائدہ یہ ہوگا (آیت) ” تسقط علیک رطبا جن یا “۔ ‘ تمہاری طرف تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گریں گی جن یا اس پھل کو کہتے ہیں جو پک کر برداشت کے قابل ہوجاتا ہے تو فرشتے نے کہا کہ ذرا اس کھجور کے تنے کو ہلاؤ ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری خوراک کا بندوبست کردیا ہے ، کھجوریں خود بخود تمہارے پاس آکر گریں گی ، اللہ تعالیٰ نے کھجور جیسی خوش ذائقہ اور مقوی جسم بہترین غذا بھی مہیا فرما دی ۔ (حرکت میں برکت) اس مقام پر قابل غور یہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کے تنے کو ہلانے کا حکم کیوں دیا ؟ حالانکہ جو پروردگار معجزانہ طور پر پانی کا چشمہ جاری کرسکتا تھا وہ کھجوریں بھی خود بخود حضرت مریم (علیہ السلام) کے قریب اتار سکتا تھا مگر ہلانے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھائی کہ حرکت میں برکت ہے تم تھوڑی سی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری خوردنی ضروریات پوری کردے گا اس سے یہ قانون بھی سمجھایا گیا ہے کہ کسی آدمی کو بیکار نہیں رہنا چاہئے بلکہ گزر اوقات کے لیے حتی المقدور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئے عالم اسباب میں بیکار محض بیٹھ رہنا درست نہیں ہے ۔ فرمایا تنے کو ہلانے سے کھجوریں گریں گی (آیت) ” فکلی “۔ ان کو کھاؤ (آیت) ” واشربی “۔ اور اس چشمے کا پانی پیو تاکہ تمہاری جسمانی قوت بحال ہو نیز (آیت) ” وقری عینا “۔ اس بچے کو دیکھ کر محبت سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کرو ، تمہیں خوش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ سے کمال درجے کا بچہ عطا کیا ہے جو بےمثال اور خدا کا نبی اور رسول ہے ۔ (چپ کا روزہ) آگے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو طعن وتشنیع سے بچنے کی ایک ترکیب بھی بتائی (آیت) ” واما ترین من البشراحدا “۔ اگر تم آدمیوں میں سے کسی کو دیکھو تو اس سے کوئی بات نہ کرنا (آیت) ” فقولی “ بلکہ یوں کہنا (آیت) ” انی نذرت للرحمن صوما “۔ کہ میں نے خدائے رحمان کے لیے چپ کا روزہ رکھنے کی نذر مانی ہوئی ہے (آیت) ” اکلم الیوم انسیا “۔ لہذا آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی ، مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر روزے کی نذر ماننے کا تو ذکر موجود ہے مگر بذات خود روزے کی نیت کا تذکرہ نہیں ہے ، اس کا جواب یہ فرماتے ہیں کہ نذر ماننے کے حکم میں روزے کی نیت کرنے کا حکم بھی شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے مریم (علیہ السلام) ! تم چپ کے روزے کی نیت کرلو ، اور پھر کہہ دنیا کہ میں آج کسی سے بات نہیں کروں گی کیوں میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے صبح سے شام تک یہ روزہ رکھنا ، پھر زچگی کی تکلیف کسی حد تک رفع ہو جائیگی جس میں قوت آئے گی تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔ چپ کا روزہ پرانی شریعت میں جائز تھا مگر جیسا کہ ابوداؤد شریف مسند امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض دوسری کتب حدیث میں یہ حدیث موجود ہے ، ہماری شریعت میں چپ کا روزہ روا نہیں ہے ، اسی طرح صوم وصال یعنی مسلسل کئی کئی دن کا روزہ بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں بلکہ ہر روزے کے لیے سحری اور افطاری ضروری ہے ، ابو داؤد شریف کی روایت میں یہ بھی ہے ” لایتم بعد بلوغ “ یعنی بالغ ہوجانے کے بعد یتیمی کا حکم باقی نہیں رہتا ، اسی طرح ہماری شریعت میں چپ کا روزہ بھی جائز نہیں ہے ۔
Top