Mualim-ul-Irfan - Maryam : 63
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا
تِلْكَ : یہ الْجَنَّةُ : جنت الَّتِيْ : وہ جو کہ نُوْرِثُ : ہم وارث بنائینگے مِنْ : سے ۔ کو عِبَادِنَا : اپنے بندے مَنْ : جو كَانَ : ہوں گے تَقِيًّا : پرہیزگار
یہ وہ جنت ہے کہ ہم وارث بنائیں گے اپنے بندوں میں سے جو پرہیزگار ہوں گے ۔
ربط آیات : حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق عقیدہ الوہیت کے بطلان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر کیا اور پھر آخر میں ان سب کا مشترکہ مسلک بیان فرمایا یہ سب اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ اور برگزیدہ بندے تھے ابتداء میں حضرت زکریا (علیہ السلام) اور یحی (علیہ السلام) کا ذکر ہوا ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کا تذکرہ ہوا ، ان سب پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدائے رحمان کے ان برگزیدہ بندوں کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی آیات تلاوت کی جائیں تو یہ روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ، یہ تمام حضرات اللہ کے سامنے عاجزی کرتے تھے اور اسی کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے ، یہ لوگ شرک سے بیزار تھے اور لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دیتے تھے ، پھر بعد میں آنے والوں نے مسیح (علیہ السلام) کو الہ بنا لیا اور ابراہیم (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء کو بھی اللہ تعالیٰ کی صفت الوہیت میں شریک کرلیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے لوگ تو اچھے تھے مگر بعد میں آنے والے لوگ نالائق ثابت ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا ، اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑگئے پھر اللہ نے ایمان لانے کے بعد نیک اعمال انجام دینے والوں کے بدلے اور ان کے مقام کا ذکر بھی کیا ۔ (تلاوت) گذشتہ درس میں یہ آیت گزر چکی ہے کہ رحمان کے بندوں کے سامنے اللہ کی آئتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں سجدہ اللہ تعالیٰ کی سامنے انتہائی عاجزی ، نیاز مندی ، انکساری ، خشوع و خضوع کا اظہار ہوتا ہے ، امام ابوبکر جصاص (رح) لکھتے ہیں کہ اس آیت سے سجدہ تلاوت کے وجوب کی دلیل ملتی ہے قرآن پاک کے کل چودہ مقامات سجدہ میں سے ایک یہ بھی ہے آیات سجدہ کو پڑھنے اور سننے والوں پر سجدہ واجب ہوجاتا ہے قاری تو فورا سجدہ کرلے گا اور سامع اگر طہارت سے نہیں تو بعد میں طہارت کر کے سجدہ کرے کیونکہ یہ اس کے ذمے واجب ہے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے ائمہ کرام کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے ۔ (جنت متقین کے لیے ہے) آج کی پہلی آیت میں بھی جنتیوں کے استحقاق کے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا “ یہ وہ جنت ہے کہ جس کا ہم وارث بنائیں گے اپنے بندوں میں سے اور بندے وہ ہوں گے (آیت) ” من کان تقیا “ جو پرہیزگار ہوں گے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور دوسرے مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ متقی سے مراد ایسا شخص ہے جو کفروشرک سے بچنے والا ہو ، اس درجے کا اتقا ہر شخص کے لیے لازم ہے ورنہ جنت کا داخلہ ممکن نہیں ہوگا اس کے بعد کبائر وصغائر اور شکوک و شبہات سے بچنا اعلی درجہ اور کامل الایمان ہونے کی دلیل ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) تقوی کی تعریف یوں کرتے ہیں ” محافظت برحدود شرع “ یعنی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت کا نام تقوی ہے ، ان حدود سے مراد عقیدے اعمال ، اخلاق اور شریعت کی تمام حدود ہیں ، ان کی حفاظت کا نام ہی تقوی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جنت کا وارث متقین کو بنایا ہے ۔ (جنت کی وراثت کا فلسفہ) مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ جنت کی وراثت دو وجوہ سے ہے پہلی بات ہے کہ جنت تمام نسل انسانی کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی وراثت ہے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد آپ کو اور آپ کی زوجہ کو جنت کی سکونت عطا کی اور فرمایا (آیت) ” وکلا منھا رغدا حیث شئتما “۔ تم دونوں اس میں رہ کر جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو ، البتہ ایک درخت کے قریب نہ جانا ، آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کو جنت تو مل گئی گئی مگر حکمت خداوندی کہ ان سے ایک لغزش ہوگئی جس کی بناء پر انہیں جنت سے نکلنا پڑا اللہ نے فرمایا (آیت) ” قلنا اھبطوا منھا جمیعا “۔ تم یہاں سے نکل جاؤ ادھر شیطان کو بھی جنت سے نکال دیا پھر آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے فرمایا (آیت) ” فاما یتنکم منی ھدی فمن تبع ھدی فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “۔ (البقرۃ ۔ 28) پھر جب تمہارے پاس میرے طرف سے ہدایت یعنی رسول اور کتابیں آئیں تو جو کوئی ان کو اتباع کرے گا اس کے لیے کوئی خوف وغم نہیں ہوگا ، اللہ نے یہ بھی بتلا دیا کہ اے اولاد آدم (آیت) ” ولکم فی الارض مستقرومتاع الی حین “۔ (آیت۔ 26) تمہیں اس زمین پر ٹھہرنا ہوگا ، اور ایک خاص مدت تک فائدہ اٹھانا ہوگا ، اس کے بعد پھر اللہ کے دربار میں پیش ہوجاؤ گے اب تمہارے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی وارثت کا مستحق وہی شخص ہوگا جس نے میری ہدایت کو اختیار کر کے میری توحید کو تسلیم کیا اور نیک اعمال انجام دے ، گویا جنت کی وارثت اس شرط کے ساتھ مشروط کردی گئی ۔ جنت کی وراثت سے متعلق حدیث شریف میں دوسری بات یہ آتی ہے کہ ہر شخص کے لیے دو ٹھکانے ہیں ایک جنت میں اور دوسرا دوزخ میں جب کوئی شخص جنت میں جائے گا تو اس کا جہنم والا ٹھکانا کافروں کو مل جائے گا جو کہ ان کی وراثت سمجھا جائے گا اور جب کوئی شخص جہنم میں جائیگا تو اس کا جنت والا ٹھکانا اہل ایمان کو مل جائے گا اور یہ ان کی وراثت ہوگا ، غرضیکہ جنت کی وراثت کا یہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے اور یہ اسے حاصل ہوگا جو متقی ہوگا ۔ (نزول ملائکہ کا اشتیاق) آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وما نتنزل الا بامر ربک “۔ اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے پروردگار کے حکم سے ، گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہم صرف متقیوں کو ہی جنت کا وارث بناتے ہیں اب تفصیلا یہ فرما دیا کہ ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے اس سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آیت بھی اللہ بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یا یہ کسی اور کی طرف منسوب ہے ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں کہ بعض اوقات قرآن پاک کے سیاق وسباق کو سمجھنا اس لیے دشوار ہوجاتا ہے کہ لوگ کلام کے مرجع کو نہیں سمجھ پاتے ، یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ بات براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبان سے کہلوایا ہے کہ ہم تیرے پروردگار کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے ۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضور ﷺ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد کا بڑا شوق رہتا تھا اور جب کبھی ان کے آنے میں دیر ہوجاتی تو آپ کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا ، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی نے سوال کیا جس کا جواب آپ کو وحی الہی کے ذریعہ مطلوب ہوتا تو جب بھی آپ جبرائیل کے منتظر رہتے چناچہ گذشتہ سورة میں بیان ہوچکا ہے کہ مشرکین مکہ نے یہودیوں کے ساتھ سازباز کر کے آپ ﷺ سے اصحاب کہف ، روح اور ذوالقرنین کے متعلق سوالات کیے تھے جن کے جوابات اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل اور سورة کہف کے ذریعے دیے ایسے مواقع پر جب جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد معمول سے مؤخر ہوجاتی تو حضور ﷺ پریشان ہوجاتے ایسے ہی ایک موقع پر آپ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا ” الا تزور اکثر مما تزور “۔ اے جبرائیل ! آپ عام معمول سے زیادہ کیوں نہیں نازل ہوتے ؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور دیگر فرشتوں کا یہ جواب ارسال کیا ہم نہیں اترتے مگر تیرے پروردگار کے حکم سے مطلب یہ کہ ہم اپنی مرضی سے نازل نہیں ہوتے بلکہ جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو اس کا پیغام لے کر حاضر ہوجاتے ہیں ۔ ا س قسم کی مثال سورة الصفت میں بھی ملتی ہے (آیت) ” وما منا الا لہ مقام معلوم ، وانا لنحن الصآفون “۔ (آیت : 164 ، 165) اللہ نے فرشتوں کی طرف سے یہ کلام پہنچایا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کا مقام مقرر ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور صف بستہ حاضر رہتے ہیں ہم عبادت الہی اور تفویض شدہ ڈیوٹی میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے اور اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں۔ اس سے ملائکہ کو معبود ماننے والوں کا رد بھی ہوگیا جو فرشتے خود اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں لہذا جو کوئی فرشتوں کو الہ مان کر ان سے حاجت طلب کرے گا وہ مشرک بن جائے گا ، آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” لہ مابین ایدینا وما خلفنا “۔ سب کچھ اسی اللہ تعالیٰ کا ہے جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے (آیت) ” وما بین ذلک “ اور جو کچھ درمیان میں ہے گویا ہر طرح کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، سامنے سے مراد مستقبل ، پیچھے سے مراد ماضی اور درمیان سے مراد زمانہ حال بھی ہو سکتا ہے مطلب یہ ہے کہ ہمارے ماضی ، حال اور مستقبل اور ہمارے تمام اطراف کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ، وہ اپنے اختیارات کو جس طرح چاہے استعمال کرے ، ہم سارے فرشتے اللہ کے حکم کے مطیع ہیں اور اسی کے حکم سے نازل ہوتے اور وحی لاتے ہیں ، لہذا جلدی یا بدیر آنے میں ہمارا کوئی بس نہیں ہے (آیت) ” وما کان ربک نسیا “۔ اور ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کو کسی حکم کا انتظار ہو اور اللہ تعالیٰ پیغام دینا ہی بھول جائے بلکہ وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق جب چاہتا ہے ہمیں پیغام دے کر آپ کی طرف بھیج دیتا ہے ۔ (عبادت خداوندی پر استقامت) فرمایا (آیت) ” رب السموت والارض وما بینھما “۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں ، زمین اور درمیانی فضا کا تربیت کنندہ ہے ہر چیز کو حد کمال تک پہنچانا اسی کے اختیار میں ہے آپ کا کام یہ ہے (آیت) ” فاعبدہ “۔ کہ عبادت اسی کی کریں ، جب وہ لاشریک ہے تو پھر عبادت کا مستحق بھی وہی ہے ، ساتھ یہ بھی فرمایا (آیت) ” واصطبر لعبادتہ “۔ آپ اسی کی عبادت پر قائم رہیں یعنی خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں ، اگر ایسا کریں گے تو یقینا گرفت ہو کہ سزا ہوگی تمام فرشتے اور تمام انبیاء اسی ذات کی عبادت کرنے والے ہیں لہذا آپ بھی اسی قائم رہیں اس سے عبادت پر صبر کرنا بھی مراد لیا جاسکتا ہے ظاہر ہے کہ عبادت کے لیے بھی مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے ، نماز کے لیے سردی گرمی میں وضو کرنا لمبا قیام ، رکوع اور سجود کرنا ، وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھنا مشقت طلب امور ہیں ، اسی طرح روزے میں بھوک پیاس برداشت کرنا ، حج کے سفر میں مشکلات سے دو چار ہونا اور مال خرچ کرنے میں بڑی تکلیف اٹھانا پڑتی ہیں جن پر صبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے ، لہذا عبادت پر صبر کی تلقین بھی مناسب حال ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جنت کے اردگرد ناگواریوں اور مشکلات کی باڑ لگا دی گئی ہے ، لہذا ان دشواریوں کو عبور کرکے ہی انسان جنت میں پہنچ سکتا ہے یہ بھی ایک مشکل کام ہے جس پر استقامت اور صبر کے لیے کہا گیا ہے ۔ آگے اللہ رب العزت کی صفت بیان کی گئی ہے (آیت) ” ھل تعلم لہ سمیا “ کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے ، سمیا کا معنی ہم نام ہونا تو یحی (علیہ السلام) کے ضمن میں پہلے بھی گزر چکا ہے (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “۔ اللہ نے یحی (علیہ السلام) کی ولادت کی خبر دی اور ساتھ فرمایا کہ اس نام کا پہلے کوئی بچہ نہیں ہوا ، اور سمیا کا معنی ہم مثل ہے ؟ یقینا نہیں ہے اللہ تعالیٰ تو ہر لحاظ سے بےمثل وبے مثال ہے (آیت) ” لیس کمثلہ شیء “۔ (الشوری ۔ 11) اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بےمثل ہے ، اس کی مثال کوئی چیز نہیں ہے وہ وحدہ لا شریک ہے ، لہذا اس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہیں کرنا چاہئے ، لہذا اسی کی عبادت پر قائم رہیں۔
Top