Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١٘ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ١ۚ فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ١٘ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسٰى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور قَفَّيْنَا : ہم نے پے درپے بھیجے مِنْ بَعْدِهٖ : اس کے بعد بِالرُّسُلِ : رسول وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِیْسَى : عیسیٰ ابْنَ : بیٹا مَرْيَمَ : مریم الْبَيِّنَاتِ : کھلی نشانیاں وَ : اور اَيَّدْنَاهُ : اس کی مدد کی بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس کے ذریعہ اَ فَكُلَّمَا : کیا پھر جب جَآءَكُمْ : آیا تمہارے پاس رَسُوْلٌ : کوئی رسول بِمَا : اس کے ساتھ جو لَا : نہ تَهْوٰى : چاہتے اَنْفُسُكُمُ : تمہارے نفس اسْتَكْبَرْتُمْ : تم نے تکبر کیا فَفَرِیْقًا : سو ایک گروہ کَذَّبْتُمْ : تم نے جھٹلایا وَفَرِیْقًا : اور ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرنے لگتے
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ اور ہم نے ان کے پیچھے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بینات (واضح اور کھلی باتیں) دیں۔ اور ہم نے ان کی پاک روح کے ساتھ تائید کی۔ کیا جب بھی تمہارے پاس رسول کوئی ایسی چیز لے کر آیا۔ جسے تمہارے نفس نہیں چاہتے تھے۔ تو تم نے تکبر کیا۔ پس ایک فریق کو تم نے جھٹلا دیا ، اور ایک کو قتل کردیا
کتاب اور رسول : اس سے پہلے بنی اسرائیل کے مختلف عہدوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ جن کی پابندی کرنے سے یہ قوم قاصر رہی۔ اب بعض دوسرے انعامات کا تذکرہ ہو رہا ہے جو بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے کیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ منجملہ ان انعامات کے ایک یہ بھی تھا کہ “ ولقد اتینا موسیٰ الکتب ” یعنی بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب توراۃ عطا فرمائی ۔ تاکہ بنی اسرائیل اس کے ذریعے ہدایت اور راہنمائی حاصل کرسکیں۔ اور پھر یہ کہ صرف کتاب پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کتاب میں مذکور احکام کی یاد دہانی کے لیے “ وقفینا من بعدہ بالرسول ” اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد پے در پے رسول بھیجے جو توراۃ کی تعلیم کی تبلیغ کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر کا مبعوث ہونا بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور شفقت ہے ۔ انبیاء (علیہم السلام) لوگوں کی مشکلات کا حل پیش کرتے ہیں اور ان کی راہنمائی فرماتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس قدر پیغمبر بھیجے ان میں سے بعض کا نام بھی قرآن پاک نے ذکر کیا ہے۔ جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) ، سلیمان (علیہ السلام) ، یونس (علیہ السلام) ، زکریا (علیہ السلام) ، یحییٰ (علیہ السلام) اور پھر بنی اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسی طرح توراۃ اور یہودیوں کی دیگر کتب میں بھی بہت سے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر ملتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 315 پارہ 1) کہ مجموعی طور پر تقریبا چار ہزار پیغمبر بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور معجزات : اللہ تعالیٰ نے سلسلہ بنی اسرائیل کے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ آپ صاحب کتاب اور اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت رسول ہیں۔ ثنانچہ آپ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے “ واتینا عیسیٰ ابن مریم البینت ” اور ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں۔ اور ان سے مراد وہ معجزات ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کئے اور جو قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ مثلاً مردوں کو زندہ کرنا۔ کوڑھی کو تندرست کردینا۔ اور مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارنا اور اسے ہوا میں اڑا دینا۔ وغیرہ وغیرہ۔ بینات سے احکام اور دلائل بھی مراد لیا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو احکام بھی دیے تھے اور دلائل بھی دیے تھے۔ عیسیٰ عبرانی زبان کا لفظ ہے ، عیسیٰ ، یسوع یا ایسوع کا معنی مبارک ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا نام مریم ؓ تھا۔ آپ کی نانی نے نذر مانی تھی۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا کریگا۔ تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیگی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کہ اس نے بیٹے کی بجائے بیٹی عطا کی۔ آپ کی پریشانی لاحق ہوئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تمہیں بیٹی عطا کی ہے۔ ہم نے اسے بہت برگزیدہ اور پاکیزہ بنایا ہے۔ بیٹا اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ حضرت مریم ؓ کی فضیلت اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں بیان فرمائی ہے۔ “ یمریم ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک علی نسآء العلمین ” یعنی اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا۔ اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھے برتری عطا کی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن پاک میں جہاں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہوگا۔ عموماً عیسیٰ ابن مریم کا نام ہوگا۔ آگے سورة مائدہ میں آئے گا کہ آپ کے حواری بھی آپ کو عیسیٰ ابن مریم کے نام سے جانتے تھے۔ اور اسی نام سے خطاب کرتے تھے۔ وہ ابن اللہ کے نام سے یاد نہیں کرتے۔ نہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خود خدا تصور کرتے تھے ، بلکہ یہ غلط عقیدہ تو بعد میں ایک عیسائی پادری پولس کا پیدا کردہ ہے۔ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) خود خدا ، خدا کے بیٹے یا تینوں میں سے تیسرے ہیں۔ یہ بالکل کفریہ عقیدہ ہے۔ روح القدس : فرمایا ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عنایت کیں۔ اور اس کے ساتھ “ وایدنہ بروح القدس ” اس کی تائید ہم نے پاک روح سے کی۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 22 معالم التنزیل ج 1 ص 38) کہ روح القدس سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ یعنی ہم نے جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کی۔ اس بات کی تائید قرآن پاک کے دوسرے مقام پر بھی ہوتی ہے۔ نزول قرآن کے متعلق ارشاد ہے “ نزل بہ الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین ” اس قرآن پاک کو روح الامین یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کے قلب مبارک پر نازل کیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ مسلم ج 1 ص 300) کہ حضور ﷺ اپنے شاعر حسان بن ثابت ؓ کو حکم فرماتے تو وہ مشرکین کو شعروں میں جواب دیتے اور فرماتے روح الامین کی تائید تمہارے ساتھ ہوگی۔ تم ان کافروں کو جواب دو تو یہاں بھی روح الامین سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہی ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 112 ، معالم التنزیل ج 1 ص 38) کہ روح القدس سے مراد اسم اعظم ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے انسان کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور اسی اسم اعظم کی برکت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر معجزے کا اظہار ہوتا تھا۔ جب آپ مردے کو زندہ کرتے تھے۔ یا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتے تھے تو یہ اسم اعظم کی برکت سے ہوتا تھا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (3 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 16) کہ روح القدس ملاء الاعلیٰ کے فرشتوں کی مسلسل توحید کا نام ہے۔ ان کی حکمت کے مطابق ملاء الاعلیٰ کے فرشتوں کا خطیرۃ القدس جیسے پاک مقام پر توجہ کرنا روح القدس کہلاتا ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ سلوک : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد بنی اسرائیل کے اپنے پیغمبروں کے ساتھ عام طرز عمل کا ذکر کیا۔ کہ اے بنی اسرائیل ! “ افکلما جآء کم رسول بما لا تھوی انفسکم ” جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسی چیز لے کر آئے جسے تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے “ استکبرتم ” تو تم نے تکبر کیا ۔ تکبر کی بیماری اسرائیلیوں میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ احکام کی نافرمانی تکبر اور سرکشی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ فرمایا اے بنی اسرائیل ! تم نے اسی تکبر کی وجہ سے “ ففریقا کذبتم ” انبیاء (علیہم السلام) کے ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا “ وفریقا تقتلون ” اور ایک گروہ کو قتل کیا۔ قرآن پاک میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ موجود ہے۔ حدیث شریف میں تو ایسے سینکڑوں نبیوں کا ذکر آتا ہے۔ جنہیں اسرائیلیوں نے قتل کیا۔ کیونکہ وہ ان کی مرضی کے خلاف اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچاتے تھے۔ جو بنی اسرائیل کے موافق نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک لوگ نفسانی خواہشات کی اتباع اور خدائی قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے انہیں فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ الغرض ! اسرائیلیوں میں یہ دو بیماریاں یعنی اتباع خواہشات اور تکبر پائی جاتی تھیں۔ جن کی وجہ سے انہوں نے بعض نبیوں کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کردیا۔ یہودیوں کا زعم باطل : یہودیوں کو ایک اور غلط زعم تھا۔ کہ وہ صاحب علم ہیں۔ ان پر کسی بیرونی تبلیغ کا اثر نہیں ہو سکتا۔ قرآن پاک کے الفاظ میں ان کا دعوےٰ تھا “ وقالوا قلوبنا غلف ” کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں۔ یہ ان کی خود ستائشی تھی کہ صاحب کتاب ہونے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے اثرات سے محفوظ ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے دین پر پختہ ہیں۔ اس میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں کرسکتا۔ مقصد یہ کہ جس طرح غلاف میں بند کوئی چیز بیرونی اثرات اور تغیر و تبدل سے محفوظ ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے دل بھی غلاف میں بند ہیں۔ اور ان کے اختیار کردہ دین میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا نہیں کیا جاسکتا ان کا یہ نظریہ واقعی بلند پایہ تھا۔ بشرطیکہ ان کے پاس صحیح علم ہوتا ، ان کے عقائد درست ہوتے اور وہ اپنے صحیح دین کو محفوظ کرسکتے۔ مگر حقیقت اس کے برخلاف تھی وہ تو خود اپنا دین بگاڑ چکے تھے۔ غلط عقائد اختیار کرچکے تھے اور پھر ان پر اصرار کرتے تھے۔ جب بھی ان کے پاس حق بات لے کر انبیاء (علیہم السلام) آتے۔ وہ انہیں جھٹلا دیتے یا قتل کردیتے۔ یہود پر اللہ تعالیٰ کی لعنت : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ ان کے دل محفوظ ہیں۔ درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے “ بل لعنھم اللہ بکفرھم ” ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے۔ اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔ ان کے قلب معکوس ہوچکے ہیں ۔ اور فہم الٹ گئے ہیں۔ یہ حق بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے “ فقلیلا ما یؤمنون ” ان کی بہت قلیل تعداد ایمان لائی ہے۔ سورة مائدہ میں اسی چیز کو فرمایا “ وان اکثرکم فسقون ” یعنی تم میں سے اکثر فاسق ہی ہیں۔ اگرچہ سارے کے سارے نافرمان نہیں تھے۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ “ لیسوا سوآء ” مگر اکثریت ملعون ہی تھی۔ ایمان کی دولت چند لوگوں کے پاس ہی ہوتی تھی۔ یہود اور نزول قرآن : یہ تذکرہ تو یہود کی اپنی کتاب توراۃ کا تھا کہ انہوں نے اس کے احکام کی کس حد تک پابندی کی ۔ اب اس بات کا بیان ہے کہ جب قرآن پاک کا نزول ہوا تو اس کے ساتھ ۔۔ لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ “ ولما جآءھم کتب من عند اللہ ” جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس وہ کتاب آگئی۔ “ مصدق لما معھم ” جو ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ جو ان کے پاس موجود ہیں۔ مصدق کتاب سے مراد قرآن پاک ہے۔ اور سابقہ کتب میں زبور ، توراۃ ، انجیل اور دیگر صحائف کا ویہ ہیں۔ یعنی جب قرآن پاک نازل ہوا “ کفروا بہ ” تو بنی اسرائیل نے اس کا بھی انکار کردیا ۔ حالانکہ قرآن پاک ان کے پاس موجود سابقہ کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے۔ لفظ “ کفروا بہ ” بعد میں آتا ہے۔ آیت کے درمیانی حصہ میں یہودیوں کی ایک اور بات کا ذکر ہے۔ “ وکانو من قبل یستفتحون علی الذین کفروا ” یعنی نزول قرآن سے پہلے وہ کفار پر فتح مانگتے تھے۔ مفسرین کرام (1 ۔ طبری ج 1 ص 411 ، 412) نے “ یستفتحون ” کے دو معنی کیے ہیں۔ فتح کے معنے کھولنے کے ہوتے ہیں ۔ تو اس لحاظ سے معنی یہ ہے کہ بنی اسرائیل کفار پر اس بات کو کھولتے تھے۔ یعنی بیان کرتے تھے ۔ کہ آخری نبی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب آنے والی ہے۔ اس پر ایمان لانا۔ سورة اعراف میں موجود ہے “ الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل ” یعنی وہ اپنی کتابوں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے تھے کہ آخری نبی آنے والا ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے صحیفہ میں بھی بشارت ہے۔ کہ میں امیوں میں امی نبی بھیجوں گا “ یستفتحون ” کا دوسرا معنی فتح یا کامیابی ہے مفسرین کرام بیان کرتے ہیں (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 124) کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کافروں کے مقابلے میں فتح و کامرانی طلب کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے یا اللہ ہمیں اس آنے والے نبی کی برکت سے کافروں کے مقابلے میں فتح نصیب فرما ۔ تاکہ جب وہ نبی آئے تو ہم اس کی اتباع کرسکیں۔ گویا نبی آخر الزماں کے توسل سے مانگتے تھے۔ نظریہ توسل : نظریہ توسل ہمارے مذہب میں بھی روا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب بندے کی برکت سے یا اس کے طفیل سے کوئی دعا مانگی جائے اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ مانگتا تو اللہ تعالیٰ ہی سے ہے۔ صاحب وسیلہ اللہ تعالیٰ کا نیک بندہ ہے اس نے ہمیں راہ راست کی تعلیم دی ہے ہمیں اس سے محبت ہے۔ لہٰذا اس کے طفیل یا اس کی برکت سے خدا تعالیٰ ہماری دعا قبول کرے ہاں شرک اس وقت ہوگا۔ جب اس کے توسل کی بجائے خود اسی سے مانگنے لگے یا اس کو مشرکوں کی طرح ثیفع سمجھے یا اس کو مختارِ مطلق سمجھے۔ کہ اسے دعا کے قبول کرنے یا کرانے کا اختیار حاصل ہے ۔ بہرحال پہلے تو یہ لوگ اس قسم کی دعائیں مانگتے تھے۔ اور وعدہ کرتے تھے کہ آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے۔ “ فلما جآءھم ” پس جب وہ چیز آگئی ، جس کے وہ منتظر تھے۔ “ ماعرفوا ” اور اسے انہوں نے پہچان بھی لیا۔ “ کفروا بہ ” اس کے باوجود اس کا انکار کردیا ان کی اس ہٹ دھرمی اور کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ فلعنۃ اللہ علی الکفرین ” ایسے منکرین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ نبی آخر الزمان ﷺ سے حسد : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان ظالموں نے ایسی بری حرکات کرکے کیا کمایا۔ “ بئسما اشتروا بہ انفسھم ” انہوں نے نہایت ہی بری چیز کے بدلے اپنی جانوں کو بیچا وہ کون سی چیز ہے جو انہوں نے جان کے بدلے خریدی “ ان یکفروا بما انزل اللہ ” وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ، شریعت اور روحی کا انکار کردیا۔ اور یہ محض اس لیے “ بغیا ” شرارت کرتے ہوئے۔ کہ نبی آخر الزمان دوسری قوم میں کیوں آگیا۔ وہ تو ہماری قوم بنی اسرائیل میں آنا چاہئے تھا۔ وہ بنو اسمعیل میں کیسے آگیا۔ چناچہ قرآن پاک نے جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے کہاں کہا ہے کہ آخری نبی ضرور بنی اسرائیل میں آئے گا۔ فرمایا حقیقت یہ ہے “ ان ینزول اللہ من فضلہ علی من یشآء من عبادہ ” اللہ تعالیٰ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ۔ اتار دیتا ہے۔ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نبی بھیجے ۔ مگر نبی آخر الزمان کی بعثت بنی اسماعیل میں مقدر ہوچکی تھی۔ اس لیے وہ وہیں تشریف لائے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے آخری نبی کا کوئی وعدہ نہیں کر رکھا تھا اب جب کہ آخری نبی آگئے ہیں تو بنی اسرائیل کا فرض تھا کہ وہ اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہوئے۔ اس پر ایمان لاتے اور ان کا اتباع کرتے۔ اس کے برخلاف انہوں نے سرکشی کا راستہ اختیار کیا اور اپنے خاندانی تفوق کا دم بھرنے لگے ، جو ان کے لئے مناسب نہ تھا۔ غضب پر غضب : بنی اسرائیل کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ “ فبآء وبغضب علی غضب ” وہ غضب پر غضب لے کر لوٹے۔ ان کا پہلا غضب تو یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا۔ بادشاہ نے انہیں سولی پر لٹکانے کا حکم دیا ۔ منہ پر تھوکا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو معاذ اللہ دجال کہا انہیں ایذا پہنچائی ۔ کتب سماویہ میں تحریف کا ارتکاب کیا۔ اور حیلے بہانوں سے خدائی احکام کو ٹالا۔ اور پھر اس غضب پر دوسرا غضب یہ تھا کہ جب نبی آخر الزمان (علیہ السلام) تشریف لائے اور آخری کتاب نازل ہوئی تو ان کا انکار کردیا۔ گویا غضب پر غضب ہوگیا۔ اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا (1 ۔ ترمذی ص 420) “ الیھود مغضوب والنصری ضلال ” یعنی یہود مغضوب علیہ ہیں اور نصاریٰ گمراہ۔ مضغوب اسے کہتے ہیں جو دیدہ دانستہ احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ آج کا مسلمان بھی جانتا ہے۔ کہ شریعت برحق ہے۔ مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔ یہی خرابی بنی اسرائیل میں بھی پائی جاتی تھی۔ وہ پہچانتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اور یہ آخری نبی اور آخری کتاب ہے۔ مگر ایمان نہیں لائے۔ علاوہ ازیں ضلال وہ ہے۔ جس کے فہم میں خرابی آجائے۔ اور وہ بھٹک جائے۔ نصاریٰ ضلال ہیں۔ یہ غلطی کرنے والے ہیں۔ فرمایا “ وللکفرین عذاب مھین ” یاد رکھو ! انکار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں دردناک عذاب تیار ہے۔ اگر اس عذاب سے بچنا ہے تو آج بھی راہ راست پر آجاؤ۔ ورنہ وہ تو تمہارے مقدر میں ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہودیوں کے حالات منکشف کرکے مسلمانوں کو بھی تنبیہ کر رہے ہیں۔ کہ تم بھی یہودیوں کی روش اختیار نہ کرلینا ۔ بلکہ ان کی خرابیوں کا ذکر سن کر اپنی اصلاح کرلیتا۔
Top