Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ
: اور رحمن کے بندے
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
يَمْشُوْنَ
: چلتے ہیں
عَلَي الْاَرْضِ
: زمین پر
هَوْنًا
: آہستہ آہستہ
وَّاِذَا
: اور جب
خَاطَبَهُمُ
: ان سے بات کرتے ہیں
الْجٰهِلُوْنَ
: جاہل (جمع)
قَالُوْا
: کہتے ہیں
سَلٰمًا
: سلام
اور رحمان کے بندے دو ہیں جو چلتے ہیں زمین پر وقار کے ساتھ اور جب خطاب کرتے ہیں ان سے نادان لوگ تو وہ کہتے ہیں سلام
ربط آیات گزشتہ رکوع کے آخر میں مشرکین کا ذکر ہوا کہ جب انہیں خدائے رحمان کے سامنے سجدہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ۔ کون ہے رحمان ؟ ہم کسی رحمان کو نہیں جانتے ، اللہ نے ان کے اس بیہودہ کلام کے جواب میں خدائے رحمان کی صفات اور اس کے کمالات کا تذکرہ فرمایا کہ رحمان وہ برکتیں دینے والی ہستی ہے جس نے آسمانوں میں برج قائم کیے۔ سورج جیسا روشن چراغ اور چاند جیسا اجالا کرنے والا سیارہ بنایا ۔ اس نے رات اور دن کو آگے پیچھے آنے والا بنایا اور اس تغیر و تبدل میں خاص مصلحت رکھی جو نصیحت پکڑنے اور شکر ادا کرنے والوں کو دعوت و غور دے رہی ہے۔ اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے خدائے رحمان کے بندوں کی چودہ صفات بیان کی ہیں تا کہ مشرکوں کو معلوم ہوجائے کہ جس رحمان کے بندوں میں یہ اعلیٰ صفات پائی جاتی ہیں ۔ خود رحمان کن کمالات کا مالک ہے جس کے سامنے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے ، بلکہ بیہودہ اعتراضات کرتے ہیں۔ عباد الرحمان کی صفات (1) چال میں طمانیت ارشاد ہوتا ہے وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر وقار اور طمانیت کے ساتھ چلتے ہیں ۔ یہ عباد الرحمن کی پہلی صفت ہے کہ وہ دنیا کی اس زندگی میں غرور وتکبر اور اکڑ کا اظہار نہیں کریت بلکہ خدا کی زمین پر چلتے وقت پر سکون اور پر وقار نظر آتے ہیں ۔ ان کی چال ڈھال میں کما ل درجے کی تواضع اور متانت ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف کفار و مشرکین ہمیشہ غرور میں مبتلا رہتے ہیں ۔ یہ ان کا تکبر ہی تھا ، جس کی وجہ سے انہوں نے خدائے رحمان کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ۔ حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ ایک نوجوان سینہ آگے نکال کر اکڑتے ہوئے جا رہا تھا ۔ آپ نے اس کو بلا کر کہا کہ اکڑ کی چال اللہ کو پسند نہیں ہے سوائے جاد کے وقت کافرو کے مقابلے میں کہ ایسے موقع پر اکڑنا درست ہے۔ تا کہ دشمن مرغوب ہو ، سورة القمان میں ہیواقصد بی مشیک (آیت : 91) اپنی جان میں میانہ روی اختیار کرو ۔ جس طرح غرور وتکبر والی چال درست نہیں۔ 1 ؎۔ ابن کثیر ص 432 ج 3 و در منثور ص 67 ج 5 (فیاض) اسی طرح ضعیفوں والی چال ڈھال بھی ٹھیک نہیں ۔ حضور ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ متواضعانہ طریقے پر چلتے تھے مگر پائوں زمین سے اٹھا کر ۔ بیماروں کی طرح پائوں زمین پر گھسیٹ کر چلنا بھی ٹھیک نہیں ۔ حضور 1 ؎ (علیہ السلام) چلتے وقت آگے کی طرف جھکے ہوئے ہوتے تھے گویا کہ آپ کسی ڈھلوان میں اتر رہے ہیں ۔ سینہ تان کر تکبر کی چال چلنا اللہ کو ہرگز پسند نہیں ۔ سورة بنی اسرائیل میں ہے کہ اگر اکڑ کر چلو گے ۔ اناک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا ( آیت : 73) تو نہ تو زمین کو پھاڑ سکے گا ۔ اور نہ تمہارا سر آسمان سے ٹکرائے گا ، بلکہ رہو گے ، پھر بھی انسان ہی ، لہٰذا اکڑ کی چال اللہ کو ہرگز پسند نہیں ۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ کے بندے زمین پر ہمیشہ وقار کے ساتھ چلتے ہیں ، سکون اور اطمینان کو اپنا وطیرہ بناتے ہیں ۔ بلا وجہ دوڑنا بھی بیوقوفوں والی بات ہے ایسا بھی نہیں کرنا چاہئے۔ حدیث 2 ؎ میں آتا ہے کہ جب نمازر کے لیے آئو تو تیز مت چلو بلکہ علیکم السکینۃ والوقار تم پر اطمینان اور وقار لازم ہے آرام سے آئو ، نماز کا جتنا حسنہ جماعت سے مل جائے ادا کرو اور باقی حصہ بعد میں پڑھ لو مگر طمانیت کا دامن مت چھوڑو کہ یہ ناپسندیدہ ہے۔ عباد الرحمن کی دوسری صفت اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلماً جب ان سے جاہل لوگ بات چیت کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں سلام ہو ۔ کفار و مشرکین بےادب ، گستاخ اور بیوقوف لوگ ہیں مگر اللہ کے بندے بےادبی اور گستاخی کا جواب اس طرح نہیں دیتے بلکہ سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں ۔ یہ سلام متارکت کہلاتا ہے ، نہ ہم تمہارے ساتھ الجھیں گے نہیں ، تمہاری اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیں گے ، گالی کا جواب گالی نہیں ہوگی ، کیونکہ جہالت کا جواب جہالت سے دینا جاہلوں کا کام ہے۔ عرب کے مشرک کہتے تھے ؎ الا لا یجھلن احذ علینا فجھل فوق جھل الجاھلینا 1 ؎ ابن کثیر ص 423 ج 3 و قرطبی ص 96 ج 31 2 ؎۔ ابن کثیر ص 423 ج 3 (فیاض) خبردار کوئی ہمارے ساتھ جہالت سے پیش نہ آئے ، ورنہ ہم تمام جاہلوں سے بڑھ کر جہالت سے پیش آئیں گے۔ غرضیہ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ جب جاہل لوگ کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو اللہ کے بندے مناسب طریقے سے صاحب سلام کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں اور بیہودہ لوگوں کو منہ نہیں لگاتے روزے والی حدیث میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص روزے دار کے ساتھ بیہودہ بات کرے تو روزے دار کو چاہیے کہ وہ کردے بھائی ! انی امرء صائم میں روزہ دار ہوں ۔ میں تمہاری بہیودہ بات کا جواب بیہودگی سے نہیں دوں گا ۔ اسی طرح عباد الرحمان کی صفت یہ ہے کہ جاہلوں کے ساتھ بجھنے کی بجائے سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ (3) سجود و قیام فرمایا والذین یبیتون لربجھ سجدا وقیاما اللہ کے بندے وہ ہیں جو اپنے رب کے سامنے سجدہ گرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے یعنی نماز پڑھتے ہوئے رات گزار دیتے ہیں یہ ان کی تیسری صفت بیان ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کی راتیں لہو و لعب کھیل تماشے اور غفلت میں نہیں گزرتیں بلکہ اپنے پروردگار کے حضور ﷺ گڑگڑاتے ہوئے بسرہوتی ہیں ۔ پرانے زمانے میں لوگ رات کے وقت بڑی بڑی مجلسیں قائم کیا کرتے تھے جہاں قصے کہانیاں سنائے جاتے ۔ شعر و شاعری ہوتی ، لطیفہ گوئی ہوتی ۔ آج کے ترقی یافتہ زمانے میں لوگوں کی راتیں سینما ، آرٹ گیلری اور کلب میں گزر جاتی ہیں ۔ جہاں گانا بجانا ، رقص و سرور اور بیہودہ باتیں ہوتی ہیں ۔ عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہوتا ہے مگر جو اللہ کے بندے ہیں وہ پرانے زمانے میں بھی ان لغویات سے مبرا تھے اور آج بھی ان کی راتیں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو کر گزرتی ہیں ۔ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ ہے کہ تہجد کی نماز عبادتوں سے افضل ہے ۔ مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں ۔ افضل الصلوٰۃبعد المفروضہ صلوٰۃ فی جوف اللیل 1 ؎۔ مسند احمد ص و ترمذی ص 09 ( فیاض) یعنی فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز وہ ہے جو رات کو پڑھی جائے ۔ ترمذی شریف 1 ؎ میں آپ کا یہ فرمان بھی موجود ہے۔ علیکم بقیام اللیل فانہ راب الصلحین قبلکم وھو قربۃ لکم الی ربکم و مکفرۃ للسیات ومنھاۃ عن الاثم لوگو ! رات کے قیام کو لازم پکڑو کہ تم سے پہلے نیک لوگوں کی یہی عادت تھی ۔ یہ تمہارے لیے خدا تعالیٰ کا قرب دلانے ، برائیوں ک مٹانے اور گناہوں سے روکنے کا ذریعہ ہے ، غرضیکہ فرمایا کہ اللہ کے بندوں کی تیسری صفت یہ ہے کہ ان کی راتیں سجود و قیام میں گزرتی ہیں۔ (4) جہنم سے دور رہنے کی دعا فرمایا اللہ کے بندوں کی چوتھی صفت یہ ہے والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جھنم یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے جہنم کے عذاب کو دور کر دے۔ اللہ کے بندوں کو ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں وہ دوزخ کے عذاب کا شکار ہوجائیں اس لیے وہ ہمیشہ اس سے پناہ مانگتے رہتے ہیں ۔ سورة بقرہ میں موجود ہے کہ اللہ کے بندے اپنے پروردگار سے جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائی طلب کرتے ہیں ۔ وہ یہ بھی درخواست کرتے ہیں وقنا عذاب النار ( آیت : 103) پروردگار ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا ۔ سورة آل عمران میں ہے فمن زجزع عن النار وادخل الجنۃ ففقد فاز (آیت 581) جو شخص دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا ۔ اللہ کے بندے ہمیشہ ایسی ہی کامیابی کی دعائیں کرتے ہیں ۔ بہر حال اللہ کے بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ جہنم کے عذاب سے رہائی چاہتے ہیں کیونکہ ان عذابھا کان غراما بیشک جہنم کا عذاب لازم ہونے والا یعنی جمیت جانے والا ہے ۔ غرامہ تاوان کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ متعلقہ شخص کو چمٹ جاتا ہے۔ انھا ساء ت مستقرا و مقامات بیشک یہ دوزخ رہائش کی بہت بڑی جگہ اور بہت بڑا ٹھکانا ہے۔ 1 ؎ ۔ ترمذی ص 015 (فیاض) مسند احمد میں حضرت انس ؓ سے روایت 1 ؎ ہے کہ دوزخ میں پڑا ہو ایک شخص ایک ہزار سال تک یلحنان یا منان یعنی اے تفقت کرنے والے اور احسان کرنے والے خدا پکارتا رہے گا ۔ بالآخر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ جائو اس شخص کو پکڑ کرلے آئو ۔ فرشتے جا کر دیکھیں گے تو سب دوزخی اوندھے منہ پڑے ہوں گے اور مطلوبہ شخص کی شناخت نہیں ہو سکے گی ۔ واپس آ کر اللہ کے سامنے صورت حال بیان کریں گے ۔ اللہ فرمائے گا ۔ جائو اس کو لے کر آئو ۔ فرشتے اس شخص کو پکڑ کرلے آئیں گے جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہوگا ۔ تو اللہ فرمائے گا ۔ اے میرے بندے ! دوزخ کا ٹھکانہ کیسا ہے ؟ وہ کہے گا ، بہت ہی برا ہے ، نہایت ہی تکلیف دہ ہے ، اللہ فرمائے گا ، جائو واپس اسی میں چلے جائو ۔ وہ بندہ عرض کرے گا ، مولاکریم ! تیری رحمت سے مجھے یہ امید تو نہ تھی کہ ایک دفعہ دوزخ سے نکالنے کے بعد پھر اسی میں داخل کردے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور حکم ہوگا کہ اس کو دوزخ سے رہا کر دو ، غرضیہ بہت ہی بڑا ٹھکانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ (5) خرچ میں میانہ روی عباد الرحمن کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل ۔ اسراف دو طرح سے ہوتا ہے ۔ ایک اسراف تو یہ ہے کہ انسان حرام ، مکروہ اور ناجائز تعلقات پر مال خرچ کرے جیسا کہ دعوتوں ، شادیوں اور پارٹیوں پر کیا جاتا ہے۔ مختلف تقریبات اور باطل رسوم پر روپیہ خرچ کیا جاتا ہے یا پھر مکان کی زیب وزینت لباس و فضول خرچی اور دیگر ناجائز امور پر خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا اسراف یہ 1 ؎۔ ابن کثیر ص 533 ج 3 (فیاض) ہے کہ ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے۔ ایک کام تھوڑے خرچہ سے بآسانی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے مگر ذاتی نمود و نمائش کی خاطر بےدریغ روپیہ بہانا اسراف ہے۔ ایک دعوت کا انتظام دو سو ورپے میں ہو سکتا ہے تو اس پر ایک ہزار روپے خرچ کردینا اسراف میں داخل ہے۔ چار چھ ڈش کی بجائے اگر ایک دو ڈش پر گزرا کرلیا جائے تو مال ضائع نہیں ہوگا ، مگر اب تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نمائش کی جاتی ہے اور پھر اس کے لیے کسی حد کا تعین نہیں ہو سکتا ۔ جتنا بڑھائو گے بڑھتا چلا جائے گا ۔ یہی اسراف ہے حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ نفس کی ہر خواہش کو پورا کرنا ، جو جی چاہے کھانے کے لیے فوراً مہیا کرلینا بھی اسراف میں داخل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے ما عال من اقتصد جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا ۔ اللہ کا فرمان ہے کلو واشربوا ولا تسرفوا ( الاعراف : 13) کھائو ، پیو مگر فضول خرچی نہ کرو۔ جس طرح فضول خرچی ناپسندیدہ ہے اسی طرح بخل بھی بہت بر ی بیماری ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ای راء اروء من البخل بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہو سکتی ہے۔ اپنے بال بچوں کی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرنا بخل ہے ۔ غرباء و مساکین کی حق تلفی کرنا ، عزیز و اقارب سے رو گردانی کرنا وغیرہ بخل کی علامات ہیں جو کہ حرام اور ممنوع ہیں ۔ بخل اور فضول خرچی کے درمیان بہترین راستہ میانہ روی کا راستہ ہے۔ حضور ﷺ نے دعا بھی سکھائی ہے ، اے پروردگار ! میں تجھ سے میانہ روی کا سوال کرتا ہوں ۔ جب کوئی انسان فقر ، غنی اور معیشت میں میانہ روی اختیار کرے گا تو اس کو پریشانی لا حق نہیں ہوگی کیونکہ اس کی معیشت کا توازن برقرار رہے گا ۔ جونہی کوئی شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتا ہے ۔ مقروض ہو کر ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ 1 ؎۔ السراج المنیرص 176 ج 3 وابن کثیر ص 523 ج 3 ۔ 2 ؎ مسند احمد ص 803 ج 3 و کنز العمال ص 752 ج 3 ( فیاض) فرمایا ، رحمان کے بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل وکان بین ذلک قواما بلکہ ان کا گزران دونوں کے درمیان ہوتا ہے۔ وہ اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ قوام اگر ق کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جس سے انسان کی ضرورت پوری ہوجائے اور قوام کا معنی گزران ہے دونوں لحاظ سے معنی ایک ہی ہے کہ اللہ کے بندے خرچ کرتے وقت میانہ روی اختیار کرتے ہیں ۔ اپنی جائز ضروریات بخوشی پورا کرتے ہیں مگر جائز امور پر اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ 1 ؎۔ بیضاوی ص 051 ج 2 (فیاض)
Top